ڈیزاسٹرز کے مقابلے کیلئے ’’تیار پاکستان‘‘ زلزلے، قدرتی آفات کا معمولات زندگی پر اثرات

ڈیزاسٹرز کے مقابلے کیلئے ’’تیار پاکستان‘‘ زلزلے، قدرتی آفات کا معمولات ...
ڈیزاسٹرز کے مقابلے کیلئے ’’تیار پاکستان‘‘ زلزلے، قدرتی آفات کا معمولات زندگی پر اثرات

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

دنیا بھرمیں 8 اکتوبر کا دن قدرتی آفات کے حوالے سے لوگوں میں شعور و آگاہی بیدار کرنے کے حوالے سے منا یا جاتا ہے تاکہ لوگ قدرتی آفات جو کہ سیلاب زلزلوں و دیگر مصائب کی شکل میں آنے کی صورت میں اس کا مردانہ وار مقابلہ کر سکیں اور جدید تقاضوں کے مطابق حکمت عملیاں اپنا کر زیادہ سے زیادہ جان و مال کو محفوظ کیا جا سکے۔ اس سلسلے میں دینا بھر میں قدرتی آفات کے حوالے سے معلوماتی پروگرام الیکٹرانک و پرنٹ میڈ یا پرآگاہی کے لئے پیش کئے جاتے ہیں۔

پاکستان بھر میں انٹر نیشنل ڈیزاسٹر ڈے کے حوالے سے ملک خصوصا صوبہ پنجاب میں اس سلسلے میں شعور و آگاہی کے لئے واک، سیمینار ،تبصرے اور مباحثے منعقد کئے جاتے ہیں۔ اس بار بھی پراونشل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی نے عوام میں شعور بھر میں تمام حکومتی اداروں کے باہمی تعاون سے واک اور سیمینار کے انعقاد کا اہتمام کیا ہے۔ پی ڈی ایم اے نے اس بار ڈیزاسٹر ڈے کا موٹو'' تیار پاکستان ' ' رکھا ہے تاکہ تیار پاکستان کے حوالے سے اس کے اصل مقاصد عوام میں روشناس ہو سکیں۔

ڈیزاسٹر کے حوالے کو اجاگر کرنے کے لئے 8 اکتوبر کو ملک بھر خصوصا پنجاب بھرکے سکول وکالج اور سرکاری اداروں میں اس بارے آگاہی لیکچرز کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔

ہمارا ملک پاکستان دنیا کے ایک ایسے خطے میں واقع ہے جو جغرافیائی طور پرہمالیہ کی بلندی سے بحیرہ عرب کے ساحلوں تک دریاؤں کو رواں رکھتا ہے ا ور پھر خلیج فارس،بحیرہ عرب اور بحیرہ ہند سے اٹھنے والے بادل اس کی دستار کے بلوں کو مضبوط کرتے ہیں۔

مگر اب ہمالیہ کی سفیر دستار بھی ڈھیلی پڑ رہی ہے تو بحیرہ عرب کی لہریں بھی طوفانی موجوں میں تبدیل ہو رہی ہیں اور ان کے اثرات پاکستان، نیپال،مالدیپ، سری لنکا، افغانستان اور دیگر ممالک اربوں نفوس پر مشتمل آبادیوں پر مرتب ہو رہے ہیں۔ما حولیاتی آلودگی کے باعث ہونے والی موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے زلزلوں و سیلاب کے خطرات بہت بڑہتے جا رہے ہیں۔

دنیا میں پھیلتی ہوئی آبادی کے نتیجہ میں زمین سے درختوں کا وجود تقریبا ختم ہوتا جا رہا ہے جس کی بنا پر قدرت کی طرف سے قائم توازن کو سخت نقصان پہنچ رہا ہے۔زمین کے تیزی سے بڑھتے ہوئے درجہ حرار ت کی بنا پر قدیم گلیشئرز کا تیزی سے پگھلاؤ ہونے سے سطح سمندر میں بلندی ہو نا، نشیبی علاقوں میں پانی کی آمد سے نئی جھیلوں اورآبی گزر گاہوں کا وجود میں آناکسی بھی مستقبل کی خطرناک نشاندہی سے کم نہیں ہے۔

مگر ہم اپنی اس بے حسی پر کیوں نہ روئیں کہ سب کچھ جانتے ہوئے اس کا کوئی سد باب نہ کر پا رہے ہیں۔ ایندھن اور دیگرگیسوں کی حرارت کی بنا پر زمین کے درجہ حرارت میں جو چند سالوں میں اضافہ ہوا وہ انتہائی تشویش کا باعث بناہے۔

اگر ہم اپنے ماحولیاتی اثرات کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ پاکستان میں گزشتہ سال2015ء میں بارشوں نے راولپنڈی اور اٹھارہ ہزاری میں سخت تباہی مچائی جس کے نتیجہ میں18 افراد جاں بحق اور سینکڑوں زخمی ہوئے او ر ہزاروں مکانات کو بھی نقصان پہنچا۔اسی طرح 25 اپریل 2015ء کو7.8 درجے کی شدت کا زلزلہ آیا جس کی وجہ سے ما ؤنٹ ایورسٹ سر کرنے والی متعدد ٹیمیں برفانی طوفان کا شکار ہوئیں۔

ان میں سے 19افراد موقع پر ہی جان کی بازی ہار گئے اوردیگر کو فوری ریسکیو آپریشن کر کے ہیلی کاپٹر کی مدد سے بچا لیا گیا۔اگر چہ2015ء کے بارے میں موسمیاتی تبدیلیوں کی پیشن گوئی عالمی سطح پر موسم سرما کے آغاز پر ہی کر دی گئی تھی مگر اس سلسلے میں کسی قسم کی کوئی منصوبہ بندی نہ کی گئی۔26 اکتوبر کوصوبہ خیبر پختونخواہ سمیت کئی علاقوں میں شدید زلزلہ آیاجس کی شدت پاکستان کے موسمیاتی مرکز نے ریکٹر سکیل پر8.1ریکارڈ کی۔اس زلزلہ کے جھٹکے لاہور ،کراچی، فیصل آباد، اسلام آباد اور راولپنڈی سمیت ملک بھر میں محسوس کئے گئے زلزلے کے باعث ہزاروں مکانات ،عمارات اور کارخا نوں میں دراڑیں پڑ گئیں اور ناران ،کاغان میں لینڈ سلائیڈنگ میں تیزی آ گئی۔26 اکتوبر کو آنے والے زلزلے میں مجموعی طور پر300 افراد جاں بحق ہوئے۔

اس زلزلے کا مرکز کوہ ہندو کش تھااور گہرائی212.5کلو میٹرتھی۔واضع رہے کہ 2005ء کے بعد آنے والے زلزلوں کی شدت میں بتدریج اضافہ ہی ہوتا گیا۔24نومبر کو لاہور کے انڈسٹریل زون میں چار منزلہ فیکٹری منہدم ہو نے کی بنیادی وجہ بھی یہی دراڑیں تھیں۔ ہمارے ملک کی چاروں طرفین زلزلے کے اعتبار سے اہم فالٹ لائنز سے گزرتی ہیں اور دنیا کا سب سے بڑا مٹی کادلدل،آتش فشاں بھی ضلع لسبیلہ میں واقع ہے۔ بارشیں ہمارے لئے قدرت کاتحفہ ہیں تاہم بعض اوقات زیادہ بارشوں کی وجہ سے ندی نالوں میں طغیانی آ جاتی ہے اور کچے مکانات گر جاتے ہیں۔ جہاں تک ملک میں رونما ہونے والی قدرتی آفات میں فوری امدادی کاروائیوں کی بحالی کا تعلق ہے توصوبہ پنجاب میں بھی پی ڈی ایم اے،ریسکیو1122، پاک فوج اور مقامی انتظامیہ کی طرف سے بھر پور انداز میں امدادی سرگرمیوں کو پایہ تکمیل تک پہنچایا گیا۔

پی ڈی ایم اے ادارہ جدید و سائنسی بنیادوں عمل پیرا ہو کر ہر آنے والی قدرتی آفات کا مقا بلہ کرنے بارے ماہرین کے باہمی مشوروں سے حکمت عملی بنا کر اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتا ہے۔ حکومت پنجاب نے کسی بھی قسم کی قدرتی آفات سے برقت نمٹنے اور اقداما ت کے لئے پراونشل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کو تشکیل دیا اور اس کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لئے اس کی صلاحیتیں کو جدید انداز میں ڈھالا۔ حکومت پنجاب ہر سال پی ڈی ایم اے کو ہر طرح کی قدرتی آفات سے نمٹنے کے لئے اربوں روپے کی خطیر رقم مختص کرتی ہے۔

سیلاب کی ممکنہ تباہ کاریوں سے بچاؤ کے لئے جامع روڈ میپ تشکیل دئیے جانے کے بعد ہر صوبائی محکمہ حکومتی ہدایت کے مطابق عملی اقدامات شروع کر دیتا ہے ۔چیف سیکرٹری کی نگرانی میں فلڈسے قبل ہر سال 15 جون سے 15 اکتوبر تک محکمہ موسمیات اور پی ڈی ایم اے میں ماسٹر کنٹرول رومز کا قیا م عمل میں آ جاتا ہے۔ جبکہ اضلاع کی سطح پر فلڈ سنٹرز کا قیام ڈی سی اوز کی نگرانی میں کام کا آغاز کر دیتا ہے ۔

ان کنٹرول رومز سے عوام اور میڈیا کو دریاؤں ، ندی ،نالوں اوررود کوہیوں میں پانی کے بہاؤ بارے قوم کو صورت حال سے 24 گھنٹے با خبر رکھا جاتا ہے۔گزشتہ کئی سالوں سے آنے والے سیلابوں میں اربوں روپے سے ریسکیو و ریلیف سرگرمیاں سر انجام دی گئیں جن میں کئی میٹرک ٹن وزنی سامان ہزاروں ٹرکوں کے ذریعے متاثرین میں تقسیم کیا گیا۔حکومتی ہدایت پر سیلاب متاثرین کو صاف پینے کے پانی کی فراہمی کے لئے کروڑوں پانی مصفا گولیاں،فلٹریشن پلانٹس بھی فوری طور پر فراہم کئے۔

جبکہ صوبہ بھر کی انتظامیہ کو کروڑوں روپے ا یمر جنسی فنڈز کے لئے فراہم کئے گئے تاکہ مقامی سطح پرریلیف و ریسکیو کی سرگرمیاں انجام دے جا سکیں۔ بہترین حکمت عملی کی بنا پر صوبہ بھر میں12 جدید وئیر ہا ؤس کی تعمیر عمل میں لائی گئی ہے ۔ یہ وئیر ہاؤسز ان اضلاع میں بنائے گئے ہیں جہاں سیلاب کا ہمیشہ خطرہ
رہا ہے تاکہ کسی بھی ہنگامی صورت حال میں امدادی سامان متاثرین کو فور ی طور پر مہیا کر دیا جائے ان وئیر ہاؤسز میں ہر قسم کی اشیاء ضروریہ و خورد و نوش کاذخیرہ وافر مقدار میں رکھا گیا ہے جبکہ لاہور او ر مظفر گڑھ کے وئر ہاؤسز جو کہ 7 ایکڑ رقبہ پر مشتمل ہیں جن میں 7500میٹرک ٹن سامان رکھنے کی گنجائش موجود ہے۔ ضلعی سطح پر ڈ یز اسٹر منیجمنٹ کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں تاکہ مقامی سطح پر سیلاب کے دوران دریاؤں میں پانی کے اتار چڑھاؤ پر نظر رکھتے ہوئے حکمت عملی طے کی جا سکے۔ سیلاب کے دنوں میں تمام دریاؤں میں پانی کے بہاؤ کی قبل از وقت آمد پر خلائی رصد گاہ سپارکے سٹیلائیٹ کے ذریعے مدد حا صل کی گئی جس کے خاطر خواہ نتائج نکلے اور تیزی کے ساتھ سیلابی پانی سے ارد گرد کے ماحول کو بچانے بارے حکمت عملی تیار کیا گیا۔

اس سلسلے میں ایک سافٹ وئیر تیار کیا گیا جس کی مدد سے سٹیلائٹ سے حاصل تصاویر کے ذریعے پانی کی آمد اور اس کے اثرات جن علاقوں پر ہو سکتے ہیں کے بارے میں قبل از وقت لائحہ عمل تیار کر کے انتظامیہ کو حکمت عملی طے کرنے بارے ہدایت دی گئی جس پر عمل پیرا ہو کر جان و مال کومحفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا۔

پی ڈی ایم اے نے ورلڈ بنک کے تعاون سے4سالہ تعلیمی پروگرام کا آغاز کیا۔ جس کے تحت انٹر نیشنل لیول پرڈیزاسٹر کے حوالے سے ابتدائی اور جدید تعلیم و ٹریننگ سمیت دیگر پروگرام شامل تھے ۔ اسی طرح ایشین ڈویلپمنٹ بنک کے تعاون سے 3سالہ پروگرام شروع کیا۔جس کے تحت زلزلے کے حوالے سے ہونے والے اثرات ، بچاؤ اور حکمت عملیاں بھی طے کی گئیں۔

ماضی میں پی ڈی ایم اے نے تاریخی خدمات انجام دیں جس سے اس محکمے کا امیج بلند ہوا۔حکومت پنجاب کی ہدایت پر سیلاب متاثرین کو کسی قسم کی سہولت نہ ملنے، سندر حادثہ ہویا منی حادثہ ان میں زخمی اور ہلاک ہونے والوں کے وارثین کو فوری اپ ڈیٹ معلومات کے لئے ہیلپ لائن 1129 کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جہاں پرpitbکا تربیت یافتہ عملہ دئے گئے ٹاسک کے مطابق ہر قسم کی متعلقہ اطلاع ڈیش بورڈ پر آن لائن کر دیتا ہے۔گزشتہ سا ل صوبے کے مختلف اضلاع میں مون سون سے قبل اچانک شدید بارشوں کے نتیجہ میں مرنے والوں کے لواحقین کو پانچ پانچ لاکھ روپے کی مالی امداد دی گئی۔

اسی طرح گزشتہ سال ہولناک زلزلہ کے نتیجہ میں پنجاب میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین میں بھی پانچ پانچ لاکھ روپے کی مالی امداددی گئی۔صوبے کے دریاؤں کے حفاظتی بندوں کے پاس ہر قسم کی تجا وزات کے خاتمہ کے لئے صوبے کے تمام کمشنرز کی سربراہی میں کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں ۔ڈی سی او،ڈی پی او اور چیف انجینئرز اس کمیٹی کے ممبرز ہیں۔جو اپنی نگرانی میں تجاوزات کا خاتمہ عمل میں لاتے ہیں۔ہر ڈویژن کا کمشنر ا پنے اپنے ڈویژن میں ہونے والی پراگرس پر رپورٹ فلڈ کیبنٹ کمیٹی کو پیش کرتا ہے۔

پی ڈی ایم اے پنجاب نے صوبے میں ڈینگی وبا کا مقا بلہ کرنے اور اس کے خاتمہ بارے جا مع حکمت عملی تیار کی جس پر فوری طور پرلائحہ عمل تیار کیا گیا۔اس پر عمل ہو تے ہی ڈینگی پر کسی حد تک قابو پا نے بارے کامیابی حاصل ہوئی۔ یورپی یونین،ورلڈ بنک، ایشین ڈویلپمنٹ بنک کے مشن نے اپنے اپنے دوروں کے دوران پی ڈی ایم اے کو برصغیر کا جدید انداز کا ادارہ قرار دیا۔

اس ادارے میں صوبہ میں آئی کسی بھی آفت کا مقابلہ کرنے کی ہر قسم کی صلاحیت موجو دہے۔ ہر سال مون سون موسم شروع ہونے سے قبل فلڈ سے نمٹنے کے لئے روڈ میپ دنیا بھر میں جس تیزی سے در ختوں کا کٹا ؤ عمل میں لایا جا رہا ہے کوئی بعید نہیں کہ پھول ،پودے اور درخت ماضی کا حصہ نہ بن جائیں۔

مزید :

رائے -کالم -