عمران حکومت ہٹاؤ تحریک (1)
جمعیت علما اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے 27 اکتوبر سے ”عمران حکومت ہٹا ؤ“ تحریک کا آغاز کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ 27 اکتوبر سے قافلے اسلام آباد کی طرف مارچ کرنا شروع کردیں گے۔ پھر اسلام آباد میں جینا مرنا اور دھرنا ہوگا جو اس وقت تک جاری رہے گا، جب تک عمران حکومت ختم نہیں ہو جاتی۔موجودہ حکومت کی آئینی مدت میں اب سے چار سال باقی ہیں۔ مولانا کا اصرار ہے کہ نئے انتخابات کر ا کے ” دھاندلی زدہ حکومت“ کی جگہ نئی حکومت قائم کی جائے۔ گزشتہ سال جولائی میں کرائے جانے والے عام انتخابات میں صرف الیکشن کمیشن نے 24 ارب روپے کا خرچہ کیا تھا۔ دیگر سرکاری اداروں، سیکورٹی کے انتظامات وغیرہ پر خرچہ علیحدہ ہے جسے یکجا کرکے سرکاری طور پر بتایا نہیں گیا ہے کہ عام انتخابات منعقد کرانے پر پاکستان نے کل رقم کیا خرچ کی۔ اس وقت بھی معیشت ہچکولے کھا رہی تھی، آج بھی پاکستانی معیشت ”انتہائی نگہداشت“ کے یونٹ میں ہے۔
اگر جیسے تیسے کر کے حکومت انتخابات منعقد کرانے کا بندوبست کر لیتی ہے، تو پہلا سوال ہی ہے کہ انتخابات کی روشنی میں آئندہ حکومت کون بنائے گا، بلکہ کون سی سیاسی جماعتیں انتخابات میں اپنے امیدوار کھڑی کرسکیں گی۔ مسلم لیگ (ن) جس کی قیادت موجودہ حکومت کے قیام سے قبل ہی سے احتساب کی زد میں ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی جس کے سربراہ آصف علی زرداری، خواتین شاخ کی سربراہ ان کی ہمشیرہ فریال تالپور، بدعنوانیوں اور منی لانڈرنگ کے مختلف مقدمات میں تفتیش کی وجہ سے قومی ا حتساب بیورو کے زیرحراست ہیں۔ اگر ان ہی سیاسی جماعتوں کی موجودہ قیادتوں کو انتخابات میں اپنے امیدوار نامزد کرنا کا اختیار حاصل ہوگا تو پھر انتخابات کا ڈھکوسلہ کیوں کیا جائے، نامزدگیوں پر گزارہ کیا جائے اور ان ہی دونوں اور ان کے ہمنواؤں پر مقتمل حکومت قائم کرادی جائے۔
یہ بھی حیران کن امر ہے کہ مقدمہ بنانے اور مقدمہ عدالت میں پیش کرنے والا ادارہ اس طرح کے مقدمات میں پہلے تمام ثبوت وغیرہ جمع کر لیتے ہیں پھر دو چار روز میں ملزمان سے تفتیش کے لئے انہیں حراست میں لیتے ہیں اور عدالت میں پیش کردیتے ہیں۔ آصف زرداری کے خلاف طویل عرصہ سے مقدمات میں تفتیش جاری ہے، وہ نیب کی حراست میں بھی ہیں پھر بھی مقدمات تیار نہیں ہو پارہے ہیں۔ آخر کیا کرنا مقصود ہے، نیب تو اس کا جواب نہیں دیتی۔ دیگر مقتدر حلقے بھی خاموشی میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔ ایسی خاموشی جس کی وجہ سے ملک بھر میں نہ سہی، متعلقہ شخصیات سے متعلق حلقوں میں اضطراب پایا جاتا ہے کہ آخر کیا ہونے جا رہا ہے؟ اگر الزامات میں حقیقت ہے تو پھر مقد مات عدالت میں پیش کیوں نہیں کئے جارہے ہیں؟ نیب کے سربراہ جسٹس رٹائرڈ جناب جاوید اقبال کا یہ کہنا کہ اگر انہیں سعودی نظام کے تحت اختیار ات حاصل ہوتے تو وہ مقدما ت کا فیصلہ فوری کر پاتے۔ جناب چیئرمین نے جب نیب کے سربراہ کی حیثیت سے اپنا عہدہ سنبھالا تھا تو انہیں بہتر طور پر علم ہوگا کہ ان کے ادارے کے قانونی اختیارات کا دائرہ طے شدہ ہے، اسی میں رہ کر ذمہ داریاں انجام دینی ہیں۔
سعودی نظام بادشاہت کے تحت قائم ہے، بادشاہ کا حکم ہی قانون کا درجہ رکھتا ہے اور اسی حکم کے تحت موجودہ شاہی حکومت نے شاہی خاندان کے لوگوں کو حراست میں رکھ کر دولت برآمد کی پھر انہیں رہا کر دیا گیا۔ یہ دوسری بات ہے کہ تمام لوگوں کو دنیا کے بہترین ہوٹل میں رکھا گیا تھا۔ تمام سہولتیں فراہم کی گئی تھیں لیکن قید تو پھر قید ہی ہوتی ہے۔ جب نیب نے اپنے ذمہ اپنی استطاعت سے کہیں زیادہ کام لے لیا ہے تو اسے بحسن خوبی نبھانا تو پڑے گا۔ ایک تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کے سربراہ بشیر میمن کو ”حکم عدولی“ کی وجہ سے جبری رخصت پر روانہ کر دیا گیا ہے۔ شنید یہ ہے کہ انہوں نے کسی کی خواہش پر بعض لوگوں کی گرفتاری سے انکار کر دیا تھا۔ (جاری ہے)