8اکتوبر: انڈیا کا یومِ فضائیہ
آج 8اکتوبر ہے اور انڈین ائر فورس اپنا یوم فضائیہ (ائر فورس ڈے)منا رہی ہے۔ میرا خیال تھا جس طرح ہم 7ستمبر کو یومِ فضائیہ مناتے ہیں، اسی طرح شاید انڈیا نے بھی 8اکتوبر کو کوئی ایسا فضائی کارنامہ انجام دیا ہو گا جس کے طفیل یہ تقریب منائی جاتی ہے۔ لیکن پھر سوچا کہ انڈیا کی تو کوئی جنگ بھی ماہِ اکتوبر میں پاکستان سے نہیں ہوئی تھی۔1965ء کی 17روزہ جنگ (6ستمبر تا 23ستمبر)،1971ء کی 13روزہ جنگ (3دسمبر تا 16دسمبر) اور 1999ء کی کارگل کی 60روزہ جنگ (5مئی تا 4جولائی)اکتوبر کے مہینے میں نہیں لڑی گئی تھیں۔ البتہ انڈیا نے کشمیر میں سری نگر کے ہوائی اڈے پر 1947ء میں اپنی جو فوج اتاری تھی وہ اکتوبر کا مہینہ تھا لیکن تاریخ تو 26اکتوبر تھی۔ تو پھر انڈیا،8اکتوبر کو یہ دن کیوں منا رہا ہے؟ ہاں یادش بخیر اکتوبر 1962ء میں ہندوستان نے چین کے خلاف جو جنگ لڑی تھی اور جس میں اسے شکست ہوئی تھی، اس میں بھی 8اکتوبر کو انڈیا نے چین کے خلاف کوئی ’فضائی کارنامہ‘ انجام نہیں دیا تھا بلکہ انڈین یا چینی ائر فورسزاس جنگ میں استعمال ہی نہیں ہوئی تھیں۔ اس وقت کے بھارتی وزیراعظم جواہر لعل نہرو تھے۔ انہوں نے اپنے سفیر متعینہ واشنگٹن کو ایک خط ضرور لکھا تھا جس میں اس وقت کے صدر امریکہ سے التجا کی گئی تھی کہ وہ نہ صرف اپنے جنگی طیارے فی الفور انڈیا بھیجے بلکہ ان کا گراؤنڈ سپورٹ ساز و سامان بھی ساتھ ارسال کرے اور مزید یہ درخواست بھی کی تھی کہ انڈین پائلٹ ان جنگی طیاروں کو اڑانے کے قابل نہیں ہوں گے اس لئے ان کا ائر کریو بھی ساتھ ہی عنائت فرمایا جائے۔ لیکن اس سے پہلے کہ امریکہ کوئی فیصلہ کرتا، چینی فورسز آسام میں گوہاٹی تک آکر اور نیفا (NEFA) میں اپنا گراؤنڈ مشن مکمل کرکے از خود یکم نومبر 1962ء کو واپس چلی گئی تھیں۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ 8اکتوبر کو انڈیا کی طرف سے ’یوم فضائیہ‘ کیوں منایا جا رہا ہے…… گوگل سے رجوع کیا گیا تو معلوم ہوا کہ یہ دن انڈین ائر فورس کا یومِ تاسیس ہے!
8اکتوبر 1932ء کو آج سے 88برس پہلے سرکارِ برطانیہ کی طرف سے انڈین ائر فورس (IAF) کا باقاعدہ قیام عمل میں لایا گیا تھا اور پہلا طیارہ برطانیہ سے ہندوستان پہنچا تھا(قارئین سے گزارش ہے کہ وہ سویلین اور جنگی ہوائی جہاز میں فرق کرنے کے لئے یہ بات ذہن میں ضرور رکھیں کہ سویلین ہوائی جہاز کو پلین (Plane)کہا جاتا ہے اور جنگی ہوائی جہاز کو ائر کرافٹ (Aircraft) کا نام دیا جاتا ہے۔ کسی سویلین جہاز کو ائرکرافٹ نہیں کہا جاتا اور کسی جنگی جہاز کو پلین کہہ کر بھی نہیں پکارا جاتا۔ اگرچہ یہ فرق کسی انگلش اردو ملٹری ڈکشنری میں درج نہیں لیکن پریکٹس یہی ہے جب ”طیارہ“ کہا جاتا ہے تو اس سے مراد جنگی جہاز لی جاتی ہے اور جب صرف جہاز یا ”ہوائی جہاز“ کہا جاتا ہے تو اس سے مراد سویلین جہاز ہوتا ہے)
8اکتوبر 1932ء کو اگر کوئی طیارہ انڈیا میں لایا گیا تھا تو اس وقت برصغیر تقسیم نہیں ہوا تھا۔ ہندوستان اور پاکستان ایک تھے تو اس اعتبار سے آج پاکستان فضائیہ کو بھی اپنا 88واں یومِ تاسیس منانا چاہیے تھا لیکن اگر پاک فضائیہ 7ستمبر کو یوم فضائیہ مناتی ہے تو اس میں 1965ء کے 7ستمبر کے فضائی معرکے کا وہ تفاخر شامل ہے جس کو ایک دنیا نے تسلیم کیا تھا۔ اس دور میں بھی پاک فضائیہ، آج کی طرح، حجم کے اعتبار سے انڈین ائر فورس سے بہت چھوٹی تھی لیکن تعداد کی اس کمتری کو پاک فضائیہ نے معیار کی برتری میں تبدیل کرکے ایک نئی تاریخ رقم کی تھی۔ اس لئے 7ستمبر PAF کے لئے ایک یادگار دن ہے!
یہ یومِ تاسیس آج انڈیا میں اتر پردیش میں ہنڈن (Hindon)کے مقام پر منایا جا رہا ہے۔ ہنڈن ائر بیس، انڈیا کی سب سے بڑی ائر بیس ہے اور دنیا کے فضائی مستقروں میں اپنی وسعت کے حساب سے اس کا نمبر آٹھواں ہے۔اس کا رن وے 9000فٹ لمبا اور 150فٹ چوڑا ہے۔ 2006ء سے پہلے یہ پریڈ پالم ائرپورٹ میں منعقد کی جاتی تھی لیکن پھر آج سے 14برس پہلے اسے اس نوتعمیر شدہ مستقر (Base) میں شفٹ کر دیا گیا۔ یہ مقام دریائے ہنڈن کے قریب واقع ہے اس لئے اس بیس کا نام ”ہنڈن ائر بیس“ رکھ دیا گیا۔ یہ دہلی کے نواح میں غازی آباد میں واقع ہے۔ اس کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ جب انڈیا کو امریکہ کا ’سایہ‘ میسر آیا اور اسے انڈو پاک مساوات (بریکٹ) سے الگ کرکے انڈو چائنا مساوات کا درجہ دے دیا گیا تو اس کے امریکی بہی خواہوں نے اسے ایسے ٹرانسپورٹ طیارے بھی دے دیئے جو دیوہیکل تھے اور جن میں T-90 ٹینک (بمعہ گولہ بارود) لاد کر LAC تک پہنجایا جا سکتا تھا۔ یہ امریکی طیارے C-17گلوب ماسٹر کہلاتے ہیں اور بھارتی فضائیہ کے ’ہیوی ائرلفٹ ڈویژن‘ کے لئے گویا ریڑھ کی ہڈی کا کام دیتے ہیں۔ انہی C-17 ٹرانسپورٹ طیاروں کی مدد سے انڈیا نے حالیہ ایام میں اپنا بھاری جنگی ساز وسامان اور ہزاروں ٹروپس مشرقی لداخ کے محاذ پر بھیجے ہیں۔ گزشتہ تین چار ماہ سے انڈیا دن رات اعلان کر رہا ہے کہ ”ہم تیار ہیں …… کوئی ہم سا ہے تو سامنے آئے……“…… لیکن چین ابھی تک خاموش ہے۔ اس نے 15جون کو چپ چاپ جس طرح 20بھارتی سورما ہلاک کرکے ان کی لاشیں انڈیا کی 14کور (مقیم لیہ) کے حوالے کر دی تھیں، اسی طرح کسی روز یہ کرے گا کہ مزید 20بھارتی سورما ہلاک کرکے ان کی لاشیں بھی کسی نہ کسی انڈین کور کے حوالے کر دے گا…… جب تک چین ایسا نہیں کرتا، بھارتی میڈیا اور اس کی سویلین اور ملٹری لیڈرشپ کی ”خارش“ بند نہیں ہوگی!
یومِ فضائیہ کی اس تقریب سے 10روز پہلے 29ستمبر 2020ء کو انڈین ائر چیف، بھادوریا (Bhadauria) کا ایک بیان انڈین میڈیا میں کہیں دیکھا تھا جس میں انہوں نے خدا لگتی بات کی تھی اور میرا خیال تھا کہ وہ باقی عسکری چیفس (آرمی چیف، نیوی چیف اور ڈیفنس چیف) کے مقابلے میں زیادہ حقیقت پسند ہیں۔ وہ ایک ورچول سیمینار سے خطاب کررہے تھے جو ”ائر پاور سٹڈیز، سنٹر“ اور ”انڈین ڈیفنس مینو فیکچررز“ نے مشترکہ طور پر منعقد کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا: ”آج ہماری شمالی سرحدپر نہ تو کوئی جنگ ہو رہی ہے اور نہ ہی اس صورتِ حال کو ’امن‘ کا نام دیا جا سکتا ہے۔ ایسی گومگو کی کیفیت میں فضائی قوت مستقبل کی کسی بھی جنگ میں ایک اہم اور کلیدی (Crucial) رول ادا کرے گی“۔
میری نظر میں ائر چیف مارشل بھادوریہ کا یہ بیان حقیقتِ حال کا بہترین ترجمان تھا لیکن اگلی ہی سانس میں بھادوریہ صاحب فرماتے ہیں: ”ہماری دفاعی فورسز کسی بھی اچانک صورتِ حال سے نمٹنے کے لئے تیار ہیں۔ انڈین ائر فورس نے دشمن کی طرف سے کسی بھی قسم کی طالع آزمائی سے نمٹنے کا پختہ عزم کر رکھا ہے۔ ہماری فضائی قوت، مستقبل میں ہماری کامیابی کا ایک اہم کردار ہو گی۔ اس لئے ضروری ہے کہ بھارتی فضائیہ اپنے دشمنوں پر ٹیکنالوجیکل برتری اور فوقیت برقرار رکھے“۔
…… اس کے بعد ائر چیف نے رافیل کی بڑھک کا اعادہ کیا اور کہا کہ ان لڑاکا طیاروں اور ان کے علاوہ C-17ٹرانسپورٹ طیاروں، چنوک ہیوی لفٹ ہیلی کاپٹروں، اپاچی اٹیک ہیلی کاپٹروں اور ہمارے فضائی بیڑے (Fleet) نے ہمیں جو ٹیکٹیکل اور سٹرٹیجک اہلیت و صلاحیت دے دی ہے اس نے فضائیہ کو دشمنوں پر برتری دینے کے ضمن میں ہر طرح کے چیلنج سے عہدہ برآ ہونے کی قابلیت سے ہمکنار کر دیا ہے۔
چین کا ہّوا بھارتی سینا کے کمانڈروں کے سروں پر اس بری طرح سے سوار ہے کہ وہ اٹھتے بیٹھتے بارڈر سٹینڈ آف کی مالا جپنے سے باز نہیں آتے۔ ابھی تین روز پہلے ’ٹائمز آف انڈیا‘ نے اپنی 5اکتوبر کی اشاعت میں خبر لگائی ہے: ”انڈین ائر فورس کے چیف، ائر چیف مارشل RKS بھادوریہ نے سیکیورٹی کی صورتِ حال کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ انڈین ائر فورس اپنی ذمہ داری کے تمام علاقوں میں بڑی اچھی طرح ”پوزیشن“ کر دی گئی ہے۔
ائر فورس ڈے (8اکتوبر) سے پہلے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بھادوریہ نے کہا کہ اگرچہ چینی ائر فورس کسی بھی لحاظ سے انڈین ائر فورس پر سبقت نہیں رکھتی۔ لیکن اس کے باوجود ہمیں چاہیے کہ اپنے دشمن کو کمزور نہ سمجھیں۔ انہوں نے ایک دفعہ یہ عزم پھر دہرایا کہ اگر انڈیا کی شمالی یا مغربی سرحد پر ضرورت پیش آئی تو ہم دو محاذوں پر بیک وقت لڑنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔آپ لوگوں کو یقین ہونا چاہیے کہ ہم نے کسی بھی ہنگامی صورتِ حال سے نمٹنے کے لئے اپنی ائر فورس کی خاطر خواہ اور بہترین صف بندی (Deployment) کر لی ہے…… ایک صحافی نے ائر چیف سے سوال کیاکہ:’لداخ میں ہماری صف بندی کا عالم کیا ہے؟‘ …… اس سوال کا جواب بھادوریہ نے یہ دیا کہ: ”لداخ تو ایک چھوٹا سا علاقہ ہے۔ ہم نے اپنے ان تمام علاقوں پر ائرفوس کی تعیناتی کر دی ہوئی ہے جہاں سے کسی بھی قسم کے خطرے کا اندیشہ تھا“…… انڈیا اور چائنا دونوں نے مذاکرات کے کئی دور مکمل کئے ہیں لیکن اب تک کوئی قابلِ ذکر بریک تھرو کسی بھی علاقے میں دیکھنے کو نہیں ملا۔مذاکرات کا اگلا راؤنڈ 12اکتوبر کو ہو رہا ہے۔ دیکھتے ہیں اس دفعہ کوئی برف پگھلتی ہے یا نہیں۔
ٹائمز آف انڈیا کے درج بالا تبصرے کے علاوہ ہندوستان کے دوسرے ابلاغی ادارے خواہ الیکٹرانک ہوں یا پرنٹ، ہر روز یہی خبریں لگاتے ہیں کہ چین انڈیا کا مقابلہ نہیں کر سکے گا اور ہم نے LAC اور LOC پر کافی تسلی بخش انتظامات کر رکھے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ NDTV، دی ہندو، دکن ہیرالڈ، زی نیوز اور اس طرح کے دوسرے تمام ابلاغی ادارے اپنے عوام کا مورال بلند رکھنے کی سرتوڑ کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف چین کا ”گلوبل ٹائمز“ اور ”ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ“ (SCMP)وغیرہ اس طرح کی کوئی ’حرکت‘ نہیں کر رہے ……
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک