مخدو م الاولیاء حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ
گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا
ناقصاں را پیر کامل کاملاں را رہنما
سر زمین پاکستان با لخصوص اس لحاظ سے بڑی خوش قسمت اور با مراد ہے کہ یہاں اولیائے کرام،بزر گان دین، علماء کرام، دانشوران قوم اور اللہ تبارک تعالی کے مقبول و منظور بندوں کو استراحت نصیب ہوئی جنہوں نے اپنی خانقاہوں، آستانوں اور مراکز میں بیٹھ کر اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات اور ارشادات کی روشنی میں تبلیغ دین اور خلق خدا کی خدمت و بھلائی کا فریضہ بخوبی سر انجام دیا اور اس خطہ بینظیر و روشن ضمیر میں نور اسلام کی روشنی سے لوگوں کو روحانی اور اخلاقی طور پر فیضیاب کیا انہی کے فیوض و بر کات اور افکار و مجاہدات سے آج بھی تشنگان حق، ایمان و یقین کی دولت و سر فرازی سے مستفیض ہو رہے ہیں ان اولیاء اللہ کے مزارات آج بھی مرکز انوار کی حیثیت رکھتے ہیں رب کریم قرآن پاک میں اولیاء اللہ کے بارے میں اس طرح ارشاد فرماتا ہے:ترجمہ”خبردار بے شک اللہ کے دوست وہ ہیں جن پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ کوئی حزن و ملال،وہ ایمان لاتے ہیں اللہ پر اور بڑے پرہیز گار ہوتے ہیں“ حدیث قدسی میں ایک جگہ اس بات کی ان الفاظ سے وضاحت کی گئی ہے۔ ترجمہ ”جس نے میرے کسی ولی کی مخالفت کی میری طرف سے اس کے خلاف اعلان جنگ ہے“ یعنی جس طرح اللہ تعالی نے فرشتوں میں سے ہر ایک کو اپنے اپنے کاموں پر لگا دیا ہے اور ان کی مخالفت کرنا کسی طرح جائز نہیں اسی طرح اللہ تعالی کا یہ قانون جن و انس میں جاری و ساری ہے اور انسانوں میں بھی اللہ تعالی کی طرف سے بعض لوگوں کو مخصوص اختیارات تفویض کر کے مقرر کئے جاتے ہیں۔
ولی اللہ کے معنی ہیں اللہ کا دوست،اللہ کے دین کا وارث،اللہ کے ولی ہر بُرے کام سے دور رہتے ہیں ان کی اس ادا سے رب کریم خوش ہوتا ہے اور اس طرح وہ سنت مصطفی ﷺ کی پیروی میں اپنی کامیابی کومضمرسمجھتے ہیں۔ انہی اولیاء کرام ؒ میں سے عظیم المرتبت شحصیت جن کی عظمت وشہر ت کا آفتاب آج بھی نصف النہار پر ہے وہ حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری ؒ ہیں۔ آپ ؒ کا نام حضرت سید علی بن عثمان ہجویری المعروف داتا گنج بخش ؒ ہے آپ ؒحسنی سید ہیں آپؒ کا سلسلہ نسب آٹھ واسطوں سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ تک پہنچتا ہے آپؒ کی ولادت چارسو ہجری میں ہوئی آپؒ نے ساری زندگی احکام الہی کی پابندی اور عشق رسول ﷺکی سر شاری و بے قراری میں گزاری اور شریعت و طریقت کے آسمان محبت پر مثل آفتاب و ماہتاب بن کر ابھرے اور آپؒ کی رعنائی اور روشنائی سے نہ صرف اس خطہ پاکستان بلکہ پورے ہند کے طول و عرض میں طالبان روحانیت نے سچائی و آگاہی کی منزل پائی آج بھی لاکھوں کی تعداد میں لوگ داتا کی نگری جاتے ہیں آپؒ کے فیض اور عنایات کا چشمہ بلا تفریق رنگ و نسل اور مذہب کے تمام ا نسانوں کے لئے جاری ہے جس سے تمام تشنگان دین و دنیا اور اہل معرفت سیراب ہو تے ہیں تاریخ بر صغیر کے اوراق کوپلٹا جائے تو کہیں حضرت داتا گنج بخش ؒ شہر لاہور کو عروس البلاد کے درجے پر پہنچاتے نظر آئیں گے۔
برصغیر پاک و ہند کے اولیاء کرامؒ کی شب و روز محنتوں کا نتیجہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں۔ اللہ کا فضل ان اولیاء پر یوں بھی ہوا کہ غیر وطن میں جہاں جہاں ان کا قیام ہوا وہ مقام انہی کے نام سے منسوب ہو گیا جیلان سے پیران پیر شیخ عبدالقادر جیلانی بغداد پہنچے تو بغداد کو شہرت دوام حاصل ہوئی اور بغداد،بغداد شریف کے نام سے مشہور ہوا۔ خواجہ خواجگان خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒ اجمیر پہنچے تو اجمیر شریف کی پہچان بن گئے، اجودھن سے حضرت فرید الدین مسعود گنج شکر پاک پتن شریف پہنچے تو اس غیر معروف علاقہ کو شہرت دوام حاصل ہوئی تو یہ علاقہ اجودھن سے پاک پتن شریف کے نام میں تبدیل ہو گیا اور جب ہجویر سے داتا گنج بخش سر کار ؒ لاہور پہنچے تو لاہور کی پہچان بن گئے اور لوگوں کی زبان پر لاہور کا دوسرا نام ”داتا کی نگری“ہو گیا۔ آپؒ کی ابتدائی زندگی کا کچھ حصہ محلہ”جلابی“،اور کچھ عرصہ محلہ ”ہجویر“ میں گزرا۔
آپ ؒ کو خواب میں اپنے مرشد کامل نے حکم دیا کہ اے سید علی ہجویری لاہور آپؒ کے سپرد کیا گیا ہے لہذا فوراً لاہور چلے جاوٗلاہور آمد کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ آپؒ 431ھ میں غزنی سے لاہور تشریف لائے ان دنوں غزنی میں سلطان مسعود غزنوی حکمران تھاحضرت داتا علی ہجویریؒ نے لاہور تشریف لا کر سب سے پہلے ایک مسجد تعمیر کرائی جب مسجد کی تعمیر سے فراغت پائی تو علماء نے اس مسجد کے قبلے پر اعتراض کیا۔آپؒ نے تمام علماء کو بلایا اور خود امام بن کر اس میں نماز پڑھائی نماز کے بعد تمام حضرات سے فرمایا کہ تم لوگ اس مسجد کے قبلہ پر اعتراض کرتے تھے اب دیکھو کہ قبلہ کس طرف ہے جب انہوں نے نظر اٹھا کردیکھا تو یک بارگی سب کو قبلہ بالمشافہ بچشم ظاہر نظر آیا اس طرح قبلہ کو سیدھے رخ،پر دیکھ کر سب معترضین علماء نادم ہوئے اورپھر آپؒ سے معذرت چاہی،یہ پہلی کرامت تھی جو لاہور میں آپؒ سے ظاہر ہوئی اور اس کرامت نے فوراً ہی سارے شہر میں آپؒ کو مشہور کر دیااور رفتہ رفتہ تمام پاک و ہند میں آپ قطب الاقطاب مشہور ہو گئے حضرت داتا گنج بخش ؒ کا خاندان افغانستان کے شہر غزنی میں اپنی نیکی اور شرافت کی وجہ سے عوام و خواص کی عقیدت کا مرکز تھا آپؒ کی والدہ بڑی عابدہ،زاہدہ اور خدا رسیدہ خاتون تھیں آپؒ کے ماموں تاج الاولیاء کے معزز لقب سے مشہور تھے آپؒ کے والد عثمان بن علی بہت نیک اور سادات کرام میں سے تھے ایسے نیک گھرانے میں حضرت داتا گنج بخش ؒ 400 ھ میں پیدا ہوئے آپؒ کا نام گرامی ”علی“ کنیت ”ابوالحسن“ اور لقب ”داتا گنج بخش“ ہے اس لقب کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ ایک بار خواجہ غریب نواز ؒ لاہور میں داتا صاحب کے مزار پُر انوار پر حاضر ہوئے اور ایک حجرے میں 40 دن تک مصروف عبادت رہے اس عرصے میں داتا صاحب نے جو فیوض و برکات کی بارش آپ پر کی اس کا اندازہ غریب نواز ہی لگا سکتے ہیں۔فیوض و برکات کی بارش ہونے پر خواجہ غریب نواز اجمیریؒ نے وجد میں آکر آپ کی شان میں فارسی کا وہ شعر کہا جو اس مضمون کی پیشانی کا جھومر ہے اس سے گنج بخش کا لقب مشہورہوا۔ سوانح نگاروں نے آپؒ کا سلسلہ نصب یوں بیان کیا ہے حضرت علی ہجویری بن عثمان بن علی بن عبد الرحمن بن شجاع بن ابوالحسن علی بن حسن اصغر بن زید بن حضرت امام حسن بن سید نا علی رضی اللہ عنہ۔آپ ؒہاشمی سید اور حسنی ہیں، گو یا حسنی جمال اور حسینی جلال کی رعنائیاں اور دلفریبیاں سمٹ کر آپ کی ذات با برکات میں جمع ہو گئیں غزنی کے دو محلے تھے ایک کانام ”جلاب“ اور دوسرے کا نام ”ہجویر“ تھا۔ ایک محلے میں آپ کے ددھیال اور دوسرے محلے میں آپ کے ننھیال سکونت پذیرتھے۔
آپ کی ابتدائی زندگی کا کچھ حصہ محلہ”جلاب“ میں گزرا اور کچھ عرصہ محلہ ”ہجویر“ میں، اسی لئے آپ کے اسم گرامی کے ساتھ ”ہجویر“اور ”جلابی“ نسبتیں مذکور ہوتی ہیں آپکوبچپن ہی سے حصول علم کا شوق بے چین کئے رکھتا تھا حضرت سید علی ہجویریؒ کی تصانیف بے شمار ہیں چونکہ آپ علم و فضل میں کمال درجہ رکھتے تھے اس لئے بہت سی کتابیں تصنیف فرمائیں ان میں کچھ مندرجہ ذیل ہیں منہاج العابدین، اسرار الخارق و اللمعات، بحرالقلوب، شرح کلام منصور، ایمان، دیوان، کتاب فنا و بقاء، الرعایۃللحقوق اللہ تعالیٰ،کشف الاسرار اور کشف المحجوب آپ کی مشہور تصانیف ہیں۔ حضرت نظام الدین اولیا ء ؒ نے تو ان کی آخری کتاب ”کشف المحجوب“ کے بارے میں یہاں تک فر ما دیا تھا کہ ”جس کا کوئی مرشد نہ ہو اسے اس کتاب کے مطالعہ کی برکت سے مرشد مل جائے گا“ اس کتاب کا ترجمہ دنیا کی متعدد زبانوں میں ہو چکا ہے غیرمسلموں میں پروفیسر نکلس اور پروفیسر ژو کو فسکی نے داتا گنج بخش ؒ کی اس کتاب پر کام کیا ہے۔
آپؒ نے اپنے زمانے کے جلیل القدر علماء سے علم دین سیکھا، حصول علم کے لئے سفر کی صعوبتیں بڑی خندہ پیشانی سے برداشت کیں اور شام،عراق، بغداد، مدائن، فارس، کوہستان، آذربائیجان، طبرستان، خوزستان، خراسان وغیرہ کے مشہور علماء وفضلاء سے شرف تلمذ حاصل کیا اور اکتساب فیض کیا علوم و معارف کے سمندر پی جانے کے باوجود شوق علم کی بے تابی کم نہ ہوئی آپؒ خود فرماتے ہیں کہ:”فقط خراسان میں 300 مشائخ سے اکتساب فیض کیا“۔ آپؒ کے بے شمار استادوں میں سے خاص کر دو استادوں شیخ ابو العباس احمد بن محمد الاشقانی اور شیخ ابو القاسم علی گر گانی کے نام قابل ذکر ہیں غرض داتا صاحب جواں عمری ہی میں تمام ظاہری علوم کی تکمیل کر چکے تھے اس کے بعد تلاش مرشد میں آپ ؒنے بڑے طویل سفر کئے آپؒ کی طلب صادق پر اللہ کو رحم آیا اور آپؒ کی رسائی مرشد کامل حضرت سید نا ابو الفضل محمد بن الحسن ختلی ؒ (جو جنیدیہ سلسلے کے بزرگ ہیں) تک کرادی۔ آپؒ ان سے بیعت ہوئے مرشد کامل نے آپؒ پر خصوصی توجہ فر ما کر آپ ؒکی اشغال و منازل کی تکمیل کرادی اور خلافت و اجازت مرحمت فرمائی۔
آپؒ کا سلسلہ طریقت کچھ اس طرح ہے: علی ہجویری بن عثمان ؒ آ پ کے شیخ ابو الفضل ؒ بن حسن ختلی، ان کے شیخ کا نام ابو بکرشبلی ؒ جو حضرت جنید بغدادی ؒ کے مرید تھے، وہ مرید تھے شیخ سری مقطی کے، ان کی بیعت حضرت معروف کرخی ؒ سے تھی وہ حضرت داؤد طائی ؒ کے خلیفہ تھے و ہ حبیب عجمی ؒ کے مرید و خلیفہ تھے وہ خلیفہ تھے حضرت حسن بصری ؒ کے جن کو طریقت کا فیضان حضرت علی ؒ سے حاصل تھا اور حضرت علی ؒ کورسول اللہ ﷺ سے فیض حاصل ہوا تھا اس طرح آپؒ کا سلسلہ نسب اور سلسلہ طریقت دونوں آگے جا کر نبی کریم ﷺ سے مل جاتے ہیں۔
اس سے آپ ؒکے بلند مقام کا اندازہ لگا یا جا سکتا ہے شیخ ابوالفضل ختلیؒ کے علاوہ دو بزرگ ابو سعید ابو الخیر و امام ابو القاسم قشیری ؒ سے بھی آپؒ نے فیضان حاصل کیا آپؒ شب و روز اپنے پیر و مرشد کی خدمت میں مصروف رہے حتیٰ کہ جب آپؒ کے پیر و مرشد کا وصال ہوا تو ان کا مبارک سر حضرت سیدعلی ہجویری ؒ کی گود میں تھا آپؒ امام اعظم ؒ ابو حنیفہ کے مقلد تھے اور ان سے بے پناہ محبت کرتے تھے آپؒ کی ازدواجی زندگی کے بارے میں صرف اتنا پتہ ملتا ہے کہ آپؒ نے شادی کی لیکن کچھ ہی مدت بعد بیوی سے علیحدگی ہو گئی اس کے بعد جب تک آپؒ زندہ رہے آپؒ نے دوسری شادی نہیں کی پیر و مرشد کے انتقال کے بعد بہ اختلاف روایت 432 ھ میں آپ نے اپنے وطن غزنی کو خیر باد کہا اور تبلیغ اسلام کا شوق آپؒ کو کشاں کشاں بت کدہ ہند میں لے آیا پھر آپؒ سر زمین لاہور پہنچے اور شب و روز اسلام کی تبلیغ میں مصروف ہو گئے جس زمانے میں داتا صاحب نے لاہور کی فصیلوں پر اسلام کے چراغ روشن کئے، اس وقت یہاں مسلمانوں کو استحکام حاصل ہوئے کچھ ہی وقت گزرا تھا، ہر طرف ہندو مذہب کے پیروکار وں اور پیشواؤں کا دور دورہ تھا آپؒ کی بے داغ اور دلکش سیرت، پُر نور شخصیت، دل سے نکلے ہوئے اور دلوں میں اتر جانے والے، پُر خلوص مواعظ حسنہ لوگوں کو کفر و ضلالت کی دلدل سے نکال کر صراط مستقیم پر گامزن کرتے رہے جن لوگوں نے آپ کے دست حق پر ست پراسلام قبول کیا اور آپؒ کے فیض نگاہ سے جن قلوب میں اسلام جاں گزیں ہوا وہ تا دم موت نہ صر ف اس پر قائم رہے بلکہ آج بھی انکی نسلیں ساڑھے نو سو سال گزرجانے کے باوجود اسلام پر قائم و دائم ہیں۔
آپؒ ایک ایسے درویش تھے جس کے پاس نہ خزانہ تھا نہ لشکر نہ ہی دنیاوی وسائل اورنہ جاہ و حشمت آپ ؒ اکثر اوقات اپنے مصلے پر بیٹھے اپنے معبود بر حق کی یاد میں ہمہ وقت مصروف رہتے تھے اللہ تعالی کے انوار و تجلیات کے نزول کے باعث آپؒ کو اللہ عزو جل نے وہ شان دلربائی عطا کی کہ جو لوگ آپؒ کے رخ زیبا کو دیکھتے، وہ اپنے آبائی مذہب کوہمیشہ کے لئے ترک کر کے اسلام کی آغوش میں آجا تے، غزنوی حکمرانوں نے ملک فتح کئے، قلعے سرکئے، شاہی محلات پر اپنے پرچم لہرائے لیکن ہجویر سے آئے ہوئے غریب الد یار درویش داتا گنج بخش ؒ نے دلوں کو فتح کیا تعصب اور ہٹ دھرمی کے قلعوں کو گرایا اور جہالت و گمراہی کا ایسا خاتمہ کیاکہ ہر شخص آپ پر سو جان سے قربان ہونے لگا آپؒ نے 30 سال تک لاہور میں تبلیغ دین کاکام سر انجام دیا۔
مخدوم الاولیاء، حضرت داتا گنج بخش نے 465 ھ صفر المظفر کی 19 تاریخ کووصال فر ما یا اور لاہور میں آسودۂ خاک ہوئے جہاں ہر سال آپ کاعرس بڑی شان و شوکت سے منا یا جاتا ہے آپ ؒ کے مزار پر ہر زمانہ میں اولیائے کاملین علمائے کرام اوروقت کے بڑے بڑے حکمران حاضر ہو کر آپ ؒکے جود و کرم سے جھولیاں بھرتے رہے ہیں داتا گنج بخش ؒ کی ذات انور کی دلکشی کا یہ عالم ہے کہ رات دن طالبان حق کا آپ کے مزار پر تانتا بندھا رہتا ہے گرمی ہو یا سردی بارش ہو یا دھوپ دن ہو یا رات، کوئی لمحہ ایسا نہیں گزرتا جبکہ بندگان خدا کا ہجوم اللہ تعالی کے اس محبوب اور بر گزیدہ بندے کے روضے پر حاضری کا شرف حاصل نہ کر رہاہو۔ آپؒ کے فیض کے یہ چشمے روز قیامت تک جاری و ساری رہیں گے اور تشنگان معرفت و طریقت اورطالبان دین و دنیا سیراب ہو تے رہیں گے۔آپؒ کا روضہ ناصر الدین مسعود کے بیٹے ظہیر ا لدولہ نے تعمیر کرایا اور خانقاہ کا فرش اور ڈیو ڑھی جلال الدین اکبر با دشاہ (936ھ بمطابق 1555 ء تا 1014 ھ 1605 ء) نے بنوائی ایک غیر مسلم برہمن سادھو(شیخ ہندیؒ) نے حضرت داتا سے روحانی مقابلے کی شکست پر اور ایمان و عرفان کی بے کراں دولت ملنے پر اپنے مرشد حضرت سید علی ہجویری ؒ کو داتا کہہ کر پکارا تب سے آپؒ کا لقب داتا ہوا جیسا کہ آج بھی مسلمان اولیاء اللہ کو صفاتی ناموں سے یاد کرتے ہیں مثلاً دستگیر،خواجہ، غریب نواز،غریب پرور،سخی سرور،سائیں اور سرکار وغیرہ جبکہ دوسری روایت کیمطابق خواجہ معین الدین اجمیری ؒ (1239 ء) اور خواجہ فریدالدین گنج شکر ؒ نے کسب فیض کے لئے آپؒ کے مزار پر چلہ کشی کی اور خواجہ معین الدین اجمیر ی ؒ نے چلہ کشی کے بعد رخصت ہوتے وقت یہ شعر آپ ؒکی شان میں کہا۔
گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا
ناقصاں را پیر کامل کاملاں را رہنما
ترجمہ:۔ حضرت گنج بخش ؒ پوری دنیا کے فیض رساں ہیں اور انوار و تجلیات الہی کے مظہر ہیں آپ ناقص لوگوں کے مر شد کامل اور کامل لوگوں کے بھی رہنما ہیں عظیم شاعرحضرت علامہ اقبال نے تصوف کے رنگ سے بھرا ہوا اولیاء اللہ کی شان میں ایک شعر کہا ہے جو حضرت داتا گنج بخشؒ پر صحیح صادق آتا ہے۔
نہ تخت و تاج نہ لشکرو سپاہ میں ہے
جو بات مرد قلندر کی بارگاہ میں ہے
آپؒ کا مزار روز اول ہی سے مرکز تجلیات ہے بادشاہ و گدا، سلاطین و مشاہیر، مشائخ وصوفیا، عرض ہر طبقہ یہاں سے فیض یاب ہونے آتا ہے سب سے پہلے جو بادشاہ حضرت داتاگنج بخشؒکے مزار عالیہ پر حاضر ہوا وہ سلطان ابراہیم غزنوی تھا وہ 472ء میں ہندوستان کی جانب متوجہ ہوا جب لاہور پہنچا تو حضرت علی ہجویری داتا گنج بخشؒ کے مزار پر حاضر ہوا اور حکم دیا کہ جس قدر بلندہستی ہیں اسی قدر عظیم الشان مزار تعمیر کیا جائے اس وقت حضرت داتا گنج بخشؒ کے وصال کو صرف آٹھ سال گزرے تھے۔سلطان ابراہیم غزنوی کے بعد اس کا بیٹا علاوٗالدولہ مسعود 492ء میں تخت نشین ہوا اس کو خود ہندوستان آنے کا موقع نہ ملا۔مگر اس کے وزراء حضرت داتاگنج بخشؒ کے مزار پر حاضر ہو کر اپنے سلطان کی طرف سے عقیدت کے نذرانے پیش کرتے رہے۔508ء میں علاوٗ الدولہ مسعودکے بعداس کا بیٹا سلطان الدولہ ارسلان شاہ تخت نشین ہوا۔اور غزنوی حکمرانوں کی اس دربار میں حاضری کا سلسلہ جاری رہا ارسلان شاہ کے بعد سلطان معزالدولہ بہرام شاہ بن مسعود تخت نشین ہوا اور اس نے511ء میں سیاسی مخالفین کی بیخ کنی کے بعد لاہور میں حضرت داتاگنج بخش ؒ کے مزار پر حاضر ہو کر سلام پیش کیاغزنوی سلطنت کے آخری امراء خسر و شاہ بھی اس مزار مقدس پر حاضر ہونے کی سعادت حاصل کرتے رہے۔
ہندوستان پر حکومت کرنے والے تمام معروف سلاطین بالخصوص غوری،خاندان غلاماں،سادات،لودھی اور مغل حکمران جوبھی لاہور آیا اس آستانے پر حاضری کو اپنی سعادت اور اپنے اقتدار اورسلطنت کیلئے استحکام کی ضمانت سمجھنا،بالخصوص سلطان محمد غوری،سلطان قطب الدین ایبک،سلطان شمس الدین التمش اور سلطان غیاث الدین بلبن بطور خاص آپ کے مرقد پر حاضر ہوئے۔دارشکوہ حضرت داتاگنج بخشؒ کے دربار پر حاضر ہوتا تھا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے عہد میں لاہور کی عمارتوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچا تاہم وہ اس مزار کابہت زیادہ ادب اور خیال کرتا تھا۔ بطور نذر رقم بھجواتا اور کبھی کبھی خود بھی حاضرہوتا تھا۔ اس دور کے بادشاہوں اور سلاطین کے علاوہ لاہور اور پنجاب کے امراء اور حکمران بھی حاضری کی سعادت حاصل کرتے رہے۔ نواب میر مومن خاں اس دربار سے بہت زیادہ عقیدت رکھتا تھا اور اپنی وصیت کے مطابق مرکربھی یہیں دفن ہوا۔قیام پاکستان کے بعد وطن عزیز میں حکمرانی کا اعزاز پانے والے اگرچہ اکثر صدور، وزرائے اعظم اور بالخصوص پنجاب کے گورنر اور وزرائے اعلیٰ یہاں حاضر ہو کر پھولوں کی چادر اور نذرانے پیش کرتے رہے تاہم ایوب خان کے دور میں اس حوالے سے خصوصی اقدامات کئے گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو دسمبر1974ء کو داتا دربار کے داخلی دروازے پر سونے کا دروازہ نصب کر کے اپنی عقیدت کویادگار حیثیت بخش گئے۔ آپؒ زندگی میں علم و عرفان طریقت و شریعت ادب وولایت کی دولت لٹاتے رہے اور غیر مسلموں کو ایمان اور دین مبین سے روشناس کرتے رہے۔آج بھی آپ کے فیض کا سلسلہ جاری و ساری ہے اور فیوض و برکات کا یہ سلسلہ تا قیامت جاری رہے گا۔
٭٭٭