اس کے لیے گھر میں کوئی خاص کشش نہیں تھی۔۔۔ بالخصوص سردی میں
مصنف : اپٹون سنکلئیر
ترجمہ :عمران الحق چوہان
قسط:39
یورگس ان ساری چیزوں سے صرف اونا کی وجہ سے بچا ہوا تھا۔ دوپہر کو وہ ایک ڈرنک سے زیادہ کبھی نہ لیتا۔ اس وجہ سے لوگ اسے سڑیل سمجھتے تھے اور سیلون میں اس کی آمد پر کسی کو خوشی نہیں ہوتی تھی اسی لیے اسے ایک سے دوسرے سیلون جانا پڑتا تھا۔ رات کو وہ سیدھا گھر جاتا۔ اونا اور سٹینس کی مدد کرتا اور کبھی کبھی مو¿خر الذکر کو گاڑی پر بھی گھر بھیج دیتا۔ گھر پہنچ کر اسے دوبارہ برف میں باہر جانا پڑتا اور وہ کئی بلاک دور سے کوئلوں کی بوری کندھے پر لاد کر گھر لاتا۔ اس کے لیے گھر میں کوئی خاص کشش نہیں تھی۔۔۔ بالخصوص اس سردی میں۔ انھوں نے بڑی مشکل سے ایک چولہا خریدا تھا، بالکل چھوٹا سا۔ اس سے سخت سردی میں اکیلا باورچی خانہ بھی گرم نہیں ہوتا تھا۔ اس سے آنٹ الزبیٹا اور بچوں کا، جب وہ سکول نہ جا سکتے، دن بہت خراب گزرتا۔ رات کو کھانا اپنی اپنی جھولی میں لیے وہ چولہے کے گرد جُڑ کر بیٹھتے۔ یورگس اور یونس اپنے پائپ پیتے۔ کوئلے بچانے کے لیے آگ جلد بجھادی جاتی اور گرمائش حا صل کرنے کے لیے سب بستروں میں دبک جاتے، جہاں انہیں سردی چین نہ لینے دیتی۔ وہ اوور کوٹ اور باقی سارے کپڑوں سمیت سوتے۔ سب بچے ایک ہی بستر میں سوتے لیکن پھر بھی گرمائش نہ پاتے۔ جو باہر سوتے تھے وہ ساری رات ٹھٹھرتے اور آہیں بھرتے گزارتے۔ وہ گرمی کے لیے دوسروں کے درمیان گھسنے کی کوشش کرتے اور پھر اس وجہ سے آپس میں لڑتے۔ یہ رخنوں بھرا گھر ان کے وطن کے اس کیبن سے مختلف تھا جس کی موٹی دیواروں پر اندر باہر مٹی کا پلستر چڑھا ہوتا تھا۔ یہاں جو سردی اندر آتی تھی وہ کسی بلا کی طرح زندہ محسوس ہوتی تھی۔ آدھی رات کو، جب ہر چیز سیاہ دکھائی دیتی، ان کی آنکھ کھلتی تو باہر ہوا چیختی سنائی دیتی، یا کبھی موت کی سی خاموشی کا احساس ہوتا۔درزوں سے آتی ٹھنڈی ہوا یوں محسوس ہوتی جیسے انہیں موت بھری ٹھنڈی انگلیوں سے ٹٹول رہی ہو۔ وہ سکڑ کر، سمٹ کر اس سے بچنے کی کوشش کرتے لیکن بے سود، وہ آتی اور آکر رہتی۔ایک ڈراو¿نا بھوت جو خوف، بربادی اور تباہی کے سیاہ جنگلوں سے آتا تھا۔ وہ ہر لمحہ اس کی آہنی گرفت میں تڑپتے۔ وہاں کون تھا جو ان کی پکار سنتا ! ان کے لیے کوئی مدد، کوئی رحم نہیں تھا۔ یہ سلسلہ یوں ہی چلتے رہنا تھا۔ صبح اٹھ کر انہیں دن بھر کی مشقت کے لیے جانا ہوتا تھا، پہلے سے زیادہ کمزور اور نڈھال۔ تب تک جب تک زندگی کی ٹہنی سے ان کے سوکھ کر جھڑنے کا وقت نہیں آجاتا۔
یہ ہلاکت خیز سردی بھی ان کے دل میں امید کی کونپلوں کو پھوٹنے سے نہیں روک سکی۔ انہیں دنوں ماریا کی زندگی میں ایک بہت بڑی تبدیلی آئی۔
یہ تبدیلی ٹموزئیس تھا جو وائلن بجاتا تھا۔ سب اس جوڑ پر ہنستے تھے کیوں کہ ٹموزئیس دبلا پتلا اور چھوٹا سا تھاجسے ماریا بآسانی ہاتھ سے اٹھا کر بغل میں دبا سکتی تھی۔ شاید اسی لیے توانائی سے بھرپور ماریا اسے پسند بھی آئی تھی۔ شادی والی رات ماریا اسے پہلی نظر ہی میں بہت اچھی لگی تھی بعد میں جب اسے پتا چلا کہ ماریا کا دل تو کسی بچے کی طرح نازک ہے تو اس کی کرخت آواز اور اکھڑ پن کی وحشت بھی جاتی رہی تھی۔ تب سے وہ ہر اتوار کی سہ پہر ان کے ہاں آنے لگا۔ اس مکان میں ملاقات کے لیے سوائے باورچی خانے کے، وہ بھی سارے گھر والوں کے درمیان، اور کوئی جگہ نہیں تھی۔ وہ اپنا ہیٹ گھٹنوں میں دبا کر بیٹھ جاتا اور بہ مشکل چند لفظ بول پاتا اور وہ بھی بڑی کوشش سے، بات کہنے سے پہلے ہی اس کا چہرہ لال ہوجاتا۔ یورگس اس کا کندھا تھپک کر دوستانہ انداز میں کہتا ” تو بھیّا پھر کوئی دُھن ہی سنا دو۔“ یہ سن کر ٹموزئیس کا چہرہ کھل اٹھتا اور وہ اپنا وائلن نکال کر ٹھوڑی کے نیچے جماتا اور کوئی دُھن بجانے لگتا۔ اس کی روح جذبات سے دہکنے لگتی اور وہ تب تک ماریا کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھتا رہتا جب تک وہ شرما کر نظر نہ جھکا لیتی۔ کوئی بھی اس کی موسیقی کے جادو سے بچ نہیں سکتا تھا۔ بچے بھی مونھ کھولے ارد گرد اکٹھے ہوجاتے اور آنٹ الزبیٹا کی آنکھوں سے تو آنسو بہنے لگتے۔( جاری ہے )
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔