تم نے ابھی تک صدر کا ساتھ نہیں چھوڑا ، موت کےلئے تیار ہو جاﺅ ، تمہارا نمبر آٹھواں ہے
مصنف: ڈاکٹر صائمہ علی
قسط:13
ملازمت سے استعفیٰ دینے کے بارے میں ڈاکٹر حامد بیگ ایک مختلف وجہ بیان کرتے ہیں بقول ان کے صدیق سالک نے ان سے کہا تھا :
”میں فوج چھوڑ دینا چاہتا ہوں‘ لیکن ضیاءالحق کی میز پر میری پرموشن کا کیس ہے جس کے بعد میں میجر جنرل بن جاﺅں گا آئی ایس پی آر میں کوئی بریگیڈئیر سے اوپر نہیں گیا اگر میں میجر جنرل بن گیا تو پہلا آدمی ہو ںگاجو آئی ایس پی آرسے میجر جنرل بن کر ریٹائرڈ ہوگا میں اس لیے ابھی ریٹائرمنٹ نہیں لے رہا۔ صدیق سالک کو میجر جنرل بننے کی Temptation تھی جس کی خاطر وہ ریٹائر نہیں ہو رہے تھے ان کا کہنا تھا کہ یہ عہدہ ملنے کے بعد وہ ریٹائر ہو جائیں گے۔“
ڈاکٹر حامد بیگ کی صدیق سے آخری ملاقات 14 اگست 1988ءکو ایوانِ صدر میںہوئی اس کے متعلق وہ کہتے ہیں:
اس دن ان کے چہرے پر خوف کے آثار نمایاں تھے جسے محسوس کر کے میں نے ان سے پوچھا آپ ریٹائر منٹ کیوں نہیں لے لیتے تو انہوں نے کہا ”اب مجھے میجر جنرل بننے کا بھی کوئی لالچ نہیں رہا لیکن کئی بار کہنے کے باوجود جنرل ضیاءالحق مجھے فارغ کرنے کو تیار نہیں “
ان دونوں بیانات سے اگرچہ فوج سے وابستہ رہنے کی ایک نئی وجہ یعنی ترقی کی خواہش سامنے آتی ہے لیکن نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ استعفیٰ دینے کے باوجود صدر ضیاءالحق صدیق سالک کو چھوڑنے پر تیار نہیں تھے۔ دوسرے ترقی کی خواہش ہر انسان میں ہوتی ہے اس بارے میں ہم ان کی بشری کمزوریوں کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔انسانی فطرت کے اس پہلو کے بارے میں خود صدیق سالک اپنی کتاب ”سلیوٹ“ میںلکھتے ہیں جو بڑی حد تک ان کے حسب حال ہے:
”ترقی بھی عجیب چاٹ ہوتی ہے اس کے لالچ میں انسان آگے ہی لڑھکتا رہتا ہے لڑھکتے لڑھکتے کبھی عزت و آبرو کی معراج پر پہنچ جاتا ہے اور کبھی قصرِ ذلت میں گر جاتا ہے لیکن جب تک پروموشن کی آس لگی رہتی ہے فوج کے دامن سے چمٹارہتا ہے۔‘ ‘
اس اقتباس کو اگر ڈاکٹر حامد بیگ صاحب کے بیان کے پس منظر میں پڑھیں تو بات واضح ہو کر سامنے آتی ہے لیکن صدیق سالک کے چہرے پر خوف کے اسباب تلاش کرنے کے لیے تاریخ کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ صدر ضیاءالحق پر وفات سے کچھ پہلے 2 قاتلا نہ حملے ہوئے تھے۔ ان کے قریبی ساتھی ہونے کی بنا ءپر صدیق سالک بھی ان حملوں کی زد میں تھے جبکہ وفات سے کچھ پہلے صدیق سالک کو گمنام خطوط کے ذریعے قتل کی دھمکیاں بھی ملتی تھیں اس بارے میں ان کے صاحبزادے سرمد سالک بتاتے ہیں:
”وفات سے کچھ عرصہ پہلے انھیں گمنام خطوط ملتے تھے جس میں انھیں قتل کی دھمکیاں لکھی ہوتی تھیں نفسِ مضمون یہ ہوتا تھا کہ صدر ضیاءالحق کا ساتھ چھوڑ دو۔ اس کے بعد کے خطوں میں لکھا ہوتا تھا کہ تم نے ابھی تک صدر کا ساتھ نہیں چھوڑا اس لیے موت کے لیے تیار ہو جاﺅ تم ہٹ لسٹ پر ہو اور تمہارا نمبر آٹھواں ہے۔ ان خطوں سے وہ خوفزدہ ضرور ہو ئے تھے انہوں نے گھر والوں اور دوستوں سے مشورہ بھی کیا تھا لیکن صرف ان خطوں کی بناءپر انہوں نے ملازمت چھوڑنے کا نہیں سوچا کیونکہ ان کا یقین تھا کہ زندگی اور موت خدا کے ہاتھ میں ہے۔“
صدیق سالک کی زندگی کا جائزہ لینے کے بعد اس سوال کا کسی حد تک جواب مل جاتا ہے کہ آمریت کو نا پسند کرنے کے باوجود وہ اس سے وابستہ کیوں رہے انہوں نے تحریر، تقریر اور عمل کے ذریعے مارشل لاءکی مخالفت کی-وہ ایک عام انسان تھے ملازمت چھوڑنے سے مشکلات سے دوچار ہو سکتے تھے اس کے باوجود اس کے لیے ذہنی طور پر تیار تھے اس فیصلے کو دوستوں کے کہنے پر بدلا۔ سالک کی جمہوریت پسندی کا اس سے بڑھ کر ثبوت کیا ہو سکتا ہے کہ صدر مملکت سے اختلاف کی وجہ ایک منتخب وزیراعظم کی حکومت کو بر طرف کرنا تھا- یہ سالک کا ذاتی نقصان نہیں تھا اسی لیے صدر ضیاءالحق نے ان سے کہا تھا:
”سالک ہم نے جونیجو کو برطرف کیا ہے تمہارا منہ کیوں لمبا ہو گیا ہے-“
حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث مبارکہ ہے :
”جب تم کوئی برائی دیکھو تو اسے ہاتھ سے روکو ‘ دوم اسے زبان سے برا کہو‘ سوم اسے دل سے برا سمجھو اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے-“( جاری ہے )
نوٹ : یہ کتاب ” بُک ہوم“ نے شائع کی ہے ۔ ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں )۔