جب آپ خیالات تبدیل کرتے ہیں تو نئے احساسات پیدا ہو جاتے ہیں اس طرح آپ ذات کی آزادی کیلیے ابتدائی قدم اٹھانے کا آغاز کر دیتے ہیں 

Oct 08, 2024 | 10:38 PM

مصنف:ڈاکٹر وائن ڈبلیو ڈائر 
ترجمہ:ریاض محمود انجم
 قسط:11
اگر آپ کو اپنے خیالات پر قابو حاصل ہے اورآپ کے احساسات آپ کے خیالات کے باعث نمودار ہوتے ہیں تو پھر آپ اپنے احساسات و محسوسات کو اپنے تابع کرنے کے قابل اور اہل ہو جاتے ہیں اور آپ اپنے خیالات پر عملی کارروائی کے ذریعے ہی اپنے احساسات پر قابو پاتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر آپ یہ فرض کریں کہ مختلف فراد اور مختلف اشیاء آپ کو خوشی و مسرت مہیا کرتی ہیں تو آپ کا یہ رویہ اورطرزعمل غلط ہے۔ آپ کو خوشی اور مسرت اپنے ان خیالات کے باعث مہیاہوتی ہے جو مختلف افراد اور اشیاء کے بارے آپ کے اندر نمودارہوتے ہیں۔ جب آپ اپنے خیالات تبدل کرتے ہیں تو آپ میں نئے احساسات اور محسوسات پیدا ہو جاتے ہیں اور اس طرح آپ اپنے وجود اور ذات کی آزادی کے لیے پہلا اور ابتدائی قدم اٹھانے کا آغاز کر دیتے ہیں۔
اس ضمن میں ایک مثال ملاحظہ کیجیے۔ کارل ایک نوجوان افسر ہے جو اپنا زیادہ تر وقت اس حقیقت کے متعلق رنج و غم کے اظہار میں گزار دیتا ہے کہ اس کا افسراعلیٰ اسے بیوقوف اور احمق سمجھتا ہے۔ کارل نہایت ہی ناخوش اور غمگین ہے کہ اس کا افسراعلیٰ اس کے متعلق بہت بری اور گھٹیا رائے رکھتاہے لیکن اگر کارل کو یہ معلوم نہیں تھا کہ اس کا افسراعلیٰ اسے بیوقوف اور احمق سمجھتاہے تو کیا وہ ابھی بھی ناخوش اور عمگین کیسے ہو سکتا ہے جس کے متعلق وہ جانتا تک نہیں ہے۔ ا س لیے اس کے متعلق اس کے افسراعلیٰ کی سوچ اسے ناخوش اور غمگین نہیں کر سکتی۔کارل کے کون سے خیالات اور ناخوش اور غمگین بنا دیتے ہیں۔ مزیدبرآں کارل خود کو اس لیے ناخوش اور غمگین بنا لیتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو یقین دلا دیتا ہے کہ دوسروں کی سوچ اس کی سوچ سے زیادہ اہم ہے۔
اسی منطق اور استدلال کا اطلاق ہر قسم کے واقعات، اشیاء اور افراد کے نکتہ ہائے نظرپر ہوتا ہے۔ کسی دوسرے فرد کی موت سے آپ رنجیدہ اورعمگین نہیں ہوتے جب تک آپ کو موت کے متعلق خبر نہ ہو جائے، آپ اس کے بارے رنجیدہ اور غمگین نہیں ہوتے۔ اس لیے موت کے باعث نہیں بلکہ آپ اس واقعے کے باعث ناخوش اور غمگین ہوتے ہیں جو موت کے متعلق ہوتا ہے۔ قدرتی آفات بذات خود پریشان کن نہیں ہوتیں کہ انسان ہی ہے جو ان کے باعث پریشان اور رنجیدہ ہوتا ہے۔ اگر آپ کسی آفت اور مصیبت کے باعث پریشان اور ناخوش ہوتے ہیں تو آپ خو دکو یہ بتا رہے ہوتے ہیں کہ اس آفت اور مصیبت کے باعث آپ پریشان اور غمگین ہیں۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ آپ کو اس آفت اور مصیبت سے لطف اندوز ہونے کے فریب میں مبتلاہو جانا چاہیے لیکن خود سے یہ سوال سے پوچھیے: ”میں اپنے لیے رنج اور غم کا انتخاب کس لیے کرتا ہوں، کیا پریشان اور غمگین ہونے سے میں اس پریشانی اورناخوشی سے بہتر طو رپر نمٹ سکتا ہوں؟“
آپ کو بچپن ہی سے یہ سکھایا اور پڑھایا گیاہے کہ آپ اپنے خیالات و احساسات کے ذمہ دار نہیں ہیں، حالانکہ منطقی نظریہ یہ ہے کہ آپ ہی اپنے خیالات اور احساسات کے ذمہ دار ہیں۔ جب آپ کو بچپن میں یہ سکھایا اور پڑھایا گیا کہ آپ کے خیالات و احساسات آپ کے قابو میں نہیں ہیں تو اس نظریے کے دفاع میں آپ نے مندرجہ ذیل بہانے اور عذر تراش لیے ہیں۔ ان کا جائزہ لیجیے:
”آپ میرے احساسات کو ٹھیس پہنچاتے ہیں۔“
”آپ کا رویہ ایسا ہے کہ میں رنجیدہ اورغمگین ہو جاتا ہوں۔“
”مجھے بہت غصہ محسوس ہو رہا ہے لیکن اس کی وجہ میں نہیں بتا سکتا۔“
”وہ مجھے پریشان اور بیما رکر دیتا ہے۔“
”بلندیوں اور اونچے مقامات سے مجھے خوف آتا ہے۔“
”آپ مجھے ہراساں اور پریشان کر رہے ہیں۔“
”وہ مجھ سے واقعی بہت ناراض ہے۔“
”آپ نے لوگوں کے سامنے مجھے بیوقوف اور احمق بنا دیا۔“
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزیدخبریں