سفر کے دوران کھانے کے وقت ٹولیاں بن جاتیں، مسافر آلتی پالتی مار کر بیٹھ جاتے، ہانڈیاں اور پتیلے ساتھ لاتے کیونکہ پکنک باسکٹ ابھی ایجاد نہیں ہوئی تھی
مصنف:محمدسعیدجاوید
قسط:272
جب وقت طعا م آیا
ایک بار پھرپیچھے پلٹیں؟ سفر کے دوران کوئی ایک مسافر اْٹھ کر بالائی منزل سے اپنا ٹفن اتارتا تھا جو گویا اس بات کا اعلان ہوتا تھا کہ کھانے کا وقت ہوا ہی چاہتا ہے۔ اس ٹفن کے کھلتے ہی دوسرے ساتھی مسافروں کی اشتہابھی یک لخت جاگ اٹھتی اور وہ بھی اپنے کھانے کے ڈبوں کی طرف لپکتے۔ غرض نشستوں پر جگہ جگہ ٹولیاں بن جاتیں اور وہیں آلتی پالتی مار کر بیٹھ جاتے۔ رومال میں سے پراٹھے نکالتے جو درجنوں کے حساب سے بنا کر ساتھ لائے جاتے تھے۔ زیادہ تر لوگ انڈوں یا آلو کی بھجیا بنوا کر اسے سات تہوں والے پراٹھوں کی ڈھیری میں دفنا کر لاتے تھے۔ تاکہ یہ گرم بھی رہیں اور پھراگلے وقت اسی پراٹھے کو پلیٹ بنا کر اسی پر کھاتے بھی رہیں۔
کچھ لوگ جو ذرا خوش حال یا خوش خوراک ہوتے تھے وہ عموماً قیمہ، بھنا ہوا گوشت یا دال بنوا لاتے۔ اور ساتھ میں احتیاطاً مرغ پلاؤ کا تازہ تازہ دم لگا ہوا ایک دیگچہ بھی اٹھا لاتے تھے جس میں کچھ شامی کباب بھی رکھ دیئے جاتے تھے۔ ظاہر ہے اتنا لمبا چوڑا سلسلہ ایک ٹفن میں تو سما نہیں سکتا تھا اس لیے اکثر لوگ ساتھ ساتھ ہانڈیاں اور پتیلے بھی اٹھا لاتے تھے۔ پکنک باسکٹ ابھی ایجاد نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی پلاسٹک کے ہاٹ پاٹ یا ڈبے ہوتے تھے اس لیے سب سامان خورد و نوش کو ایک بڑی سی گٹھڑی کی صورت باندھ کر کسی نصف ٹکٹ والے بچے کے سر پر رکھ دیتے تھے۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ تب خواتین کے ڈبے الگ ہوا کرتے تھے۔ ان کا کھانا یا تو ان کو علیٰحدہ سے دے دیا جاتا تھا یا اپنے ہی کھانے کے حصے بخرے کرکے کسی اسٹیشن کے آنے پر کوئی بگٹٹ بھاگا جاتا اور کھڑکی میں سے انھیں پکڑا آتا۔ ٹھنڈے کھانے کا یقیناً ایک مسئلہ تھا اس لیے جن کے پاس پیسے ہوتے تھے تو وہ ڈائننگ کار کے کسی بیرے کی مٹھی گرم کرتے تو جواباً وہ ان کا کھانا گرم کروا لاتا۔
ایک بار پھرمحبت اور بھائی چارے کی فضا ء بن جاتی تھی اور کھانا ساتھ نہ لا سکنے والوں کو بھی انتہائی خلوص اور دیانت داری سے شرکت کی دعوت دی جاتی۔ ان میں سے کچھ تو بھوک کے ہاتھوں مجبور ہو کر ان کے ساتھ کھانے میں شریک ہو جاتے اور پھرنا نا کرتے ہوئے بھی خوب جی بھر کے انصاف کرتے تھے۔ باقی معذرت کرتے اور شکریہ ادا کرتے ہوئے کسی اور طرف تکنا شروع ہو جاتے تھے۔ یارو، آخر انا بھی تو کوئی چیز ہوتی ہے۔ اس دوران کوئی اسٹیشن آ جاتا تو وہ بھی کھڑکی میں سے کسی خوانچے والے کو پکار کر نان چنے یا آلو شوربہ وغیرہ خرید لیتے تھے اور یوں بغیر کسی کا احسان اٹھائے کھانے کی یہ رسم ایک آدھ روپئے میں پوری ہو جاتی تھی۔
کھانا گھر کا ہو یا ڈائننگ کار کا، ختم کرتے ہی اکثر لوگ با آواز بلند ڈکار لیتے اور رب کا شکر بجا لاتے، بچا ہوا کھانا اگلے وقت کے لیے سنبھال کر رکھ لیا جاتا تھا۔پرانے وقتوں کی طویل سفر والی گاڑیاں منزل مقصود تک پہنچنے میں 2 دن بھی لگا دیتی تھیں اس لیے یہ کھانا ایک آدھ دن تک تو ساتھ دیتا تھا،لیکن اس سے اگلے دن پراٹھے سوکھ کر پلاسٹک کی پلیٹیں بن جاتے اور سالن بْو مار جاتے تو نہ چاہتے ہوئے بھی انھیں کھڑکی سے باہر پھینک دیا جاتا تھا۔ اور صبر شکر کرکے اگلے اسٹیشن کا انتظار کیا جاتا تھا۔ تب پراٹھوں اور انڈوں میں خود کفیل مسافر بھی عرش سے اتر کر فرش پر آجاتے اور اسٹیشن آنے پر کھڑکیوں سے جھانک کر بازاری کھانے طلب کرتے تھے۔ کچھ زیادہ ہی نازک اندام باہر سے کچھ خرید کر کھانے کے بجائے ساتھ لایا ہوا پھل فروٹ کھا کر گذارا کر لیتے تھے۔ اورپیسے والے شوقین مزاج گاڑی کے ساتھ چلتی ہوئی ڈائننگ کار سے اپنی مرضی کا گرم گرم کھانا منگوا لیا کرتے تھے جو سستا زمانہ ہونے کے باوجود ہر کسی کی استطاعت میں نہیں ہوتا تھا۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
