ہائے یہ ٹریفک!
پاکستان ترقی پذیر نہیں، غریب ملک ہے، اس کی آبادی میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے، کہنے کو کہتے ہیں کہ آبادی اٹھارہ کروڑ ہے، یہ صرف تخمینہ ہے۔ مردم شماری کا نتیجہ نہیں۔ اگر مصدقہ مردم شماری کرالی جائے تو شاید آبادی 19 کروڑ سے بھی زیادہ ہوگی۔ آبادی بڑھے تو پھیلاو¿ بھی زیادہ ہوتا ہے۔ شہر گنجان ہو جاتے اور راستے تنگ پڑ جاتے ہیں۔ ضرورت بڑھتی ہے تو سواریاں بھی بڑھ جاتی ہیں، اس وقت پاکستان کے بڑے چھوٹے تمام شہر ٹریفک کے شدید دباو¿ میں ہیں۔ گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں زیادہ ہوئی ہیں تو ریڑھیوں، گدھا، گاڑیوں اور ٹریکٹر ٹرالیوں میں بھی بہت اضافہ ہوتا ہے۔ لاہور کی مثال لے لیں، یہاں سڑکیں بڑی ہونے کے باوجود تنگ نظر آتی ہیں۔ جگہ جگہ ٹریفک جام ملتی ہے۔ کسی منزل پر پہنچنے کا کوئی اندازہ ہی نہیں ہوتا۔ کئی بار تو شہر سے دوسرے شہر یا ملک جانے والے ہوائی اڈے پر بروقت نہیں پہنچ پاتے اور ان کی پرواز چلی جاتی ہے اور مسافر کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ ایمبولینس چیخ رہی ہوتی ہے اور اسے راستہ نہیں ملتا۔
اس ساری بدنظمی میں انتظامیہ کا قصور اپنی جگہ ہے، لیکن شہری بھی ماورائے آئین و قانون نہیں ہیں، بلکہ بڑی حد تک یہ خود بھی اس بے ہنگم پن کے ذمہ دار ہیں۔ جس کا بھی جی چاہتا ہے، جہاں سے چاہے گھوم جاتا ہے۔ دائیں جانے والا ،بائیں سے آتا ہے اور سیدھا جانے والے کے سامنے سے گزر جاتا ہے۔ ان کو نظم و ضبط میں لایا ہی نہیں گیا۔ گزشتہ دور حکومت میں جب ٹریفک وارڈنز کا نظام شروع کیا یا تو اس کی تشہیر بھی کی گئی، پھر اطمینان ہوا کہ شاید حالات سدھر جائیں، لوگوں کو خود خیال آئے۔ یہ نظام چلنے لگا تھا، لوگوں کو موٹر وے پولیس کا احساس ہو رہا تھا کہ حکومت ہی تبدیلی ہوگئی۔ جب دور تبدیل ہواتو وارڈنز پر توجہ بھی کم ہوگئی۔ اب صورت حال یہ ہے کہ وہ وارڈنز بے بس نظر آتے ہیں۔ شہری ان کی بات ماننے کو تیار نہیں۔ وہ چالان کرنا چاہیں تو ان کے ساتھ جھگڑا ہوتا ہے۔ اب ”مرے کو مارے شاہ مدار کے مصداق“ یہ ٹریفک وارڈنز بھی مایوسی کا شکار ہیں کہ محکمہ تو بنا دیا گیا تھا، اس کا باقاعدہ سروس سٹرکچر نہیں بنایا گیا اور پھر بتدریج ان کے اختیارات اور سہولتیں بھی کم ہوتی چلی گئیں۔ اب یہ مایوسی کا بھی شکار ہیں۔ ایسے میں ٹریفک کے مسائل پیدا نہ ہوں گے تو کیا ہوگا؟
مَیں یہ لکھ کر بھی مطمئن نہیں ہوں کہ سڑکوں پر حالات دیکھتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ شہری خود نظام کو ٹھیک ہی نہیں ہونے دیتے۔ ٹریفک پولیس کی طرف سے کئی بار آگاہی مہمیں چلائی گئیں، پمفلٹ تقسیم کئے گئے، اس کے باوجود کوئی اثر نہیں ہوا۔ لوگ نہ تو صبر سے کام لیتے ہیں، نہ اپنے والی قطار میں چلتے اور نہ ہی اشاروں کا احترام کرتے ہیں۔ مَیں بھی گاڑی چلاتا ہوں، مجھے احساس ہے کہ صورت حال کتنی خراب ہو چکی۔ اگر اسے ٹھیک نہ کیا گیا تو وہ دن بھی آسکتا ہے، جب سڑک پر گاڑی چلانا انتہائی محال ہوگی۔ ایسا احساس ہونے لگا ہے کہ ہم شہری شاید شرافت اور تحمل کے قائل ہی نہیں اور سختی ہی چاہتے ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب شہروں میں ترقیاتی کام کروا رہے ہیں۔ لاہور میں ٹریفک کے نظام کو بہتر بنانے کے لئے سینکڑوں کی توسیع کی گئی اور کی جا رہی ہے۔ یہ سب اچھا کام ہے، لیکن یہ بے کار ہو جائے گا، جب نظم و ضبوط ہی نہیں ہوگا۔ مَیں بہت بوجھل دل کے ساتھ وزیراعلیٰ سے گزارش کروں گا کہ پانی سر سے اونچا ہوچکا ہے، اب سختی سے کام لیا جائے۔ ٹریفک وارڈنز کا نظام ٹھیک کیا جائے، اسے باقاعدہ محکمہ بنایا جائے، ان کو اختیارات دے کر قواعد پر عمل کرایا جائے اور شہریوں کو مجبور کیا جائے کہ وہ قانون پسند بنیں اور نظم و ضبط سے چلیں تاکہ ٹریفک رواں رہے۔ ٭