سندھ میں نیا بلدیاتی نظام
صوبہ سندھ میں ”پیپلز میٹرو پولیٹن کارپوریشن آرڈی ننس“ نافذ کردیاگیا ہے۔ جس کے تحت صوبے میں نیا بلدیاتی نظام نافذ ہوگیا۔ اس آرڈی ننس کے تحت صوبے میں پانچ اضلاع.... کراچی، حیدرآباد، سکھر، لاڑکانہ اور میرپور خاص.... میں میٹروپولیٹن کارپوریشنیں ہوں گی، جن کے سربراہ میئر کہلائیں گے، اور ان کے نائب ڈپٹی میئر ہوں گے، دوسرے اضلاع میں ڈسٹرکٹ کونسلیں ہوں گی جن کے سربراہوں کو چیئرمین کہا جائے گا۔
صوبے میں نئے بلدیاتی نظام کی جزیات طے کرنے کے لئے پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان طول طویل مذاکرات ہوتے رہے۔ درمیان درمیان میں کئی مشکل مقامات بھی آئے اور تعطل بھی پیداہوا، 3ستمبر کو مذاکرات رات گئے تک جاری تھے اور یہ امکان بھی ظاہر کیا جارہا تھا کہ کسی بھی وقت مسودے پر اتفاق ہوتے ہی آرڈی ننس جاری کردیاجائے گا لیکن آخری لمحوں پر ایسا نہ ہوسکا، بہرحال مذاکرات 6 ستمبر کی شب کسی نتیجے پر پہنچے، مسودے کو حتمی شکل ملی اور گورنر سندھ نے آرڈی ننس کے ذریعے نیا بلدیاتی نظام صوبے میں نافذ کردیا۔ تاہم صوبے میں حکومت کی حلیف جماعت اے این پی اس آرڈی ننس سے خوش نہیں اور سندھ حکومت میں اس کے وزیر امیر نواب نے استعفا دیدیاہے اور قومی اسمبلی و سینیٹ کے اجلاسوں کا بائیکاٹ کردیا ہے، دوسری حلیف جماعت مسلم لیگ (ف) نے بھی مثبت ردعمل ظاہر نہیں کیا،اس کے وزیروں نے بھی پارٹی لیڈر کو استعفے پیش کردیئے ، ردّعمل جو بھی ہو، اب تو آرڈی ننس نافذ ہوچکا ہے، اور صوبائی اسمبلی سے منظوری تک آرڈی ننس نافذ رہے گا۔ بلدیاتی ادارے جمہوریت کی بنیادی اینٹ ہیں، یہ وہ ادارے ہیں جو شہریوں کے مسائل پر نظر رکھتے، انہیں حل کرتے اور بنیادی سہولتیں لوگوں کی دہلیز پرپہنچاتے ہیں۔ ہمارے ہاں بدقسمتی یہ رہی کہ ہم بلدیاتی نظام میں بھی مختلف قسم کے تجربات کرتے رہے، ”ہر کہ آمد، عمارت نو ساخت“ کے تحت جو بھی حکمران آیا اس نے اپنی مرضی کا بلدیاتی نظام نافذ کردیا، فوجی حکمرانوں کو بلدیاتی نظام سے خصوصی دلچسپی رہی، غالباً ان کی سوچ یہ تھی کہ عوام کو بلدیاتی نظام سے آگے دیکھنے کی فرصت نہ ہو، چنانچہ ایوب خان، جنرل ضیاءالحق اور جنرل پرویزمشرف نے اپنے اپنے بلدیاتی نظام متعارف کرائے جو ان کے ساتھ ہی رخصت ہوگئے، جنرل ضیاءالحق نے تین بار بلدیاتی انتخابات کرائے، جنرل پرویزمشرف نے بھی دو بار بلدیاتی انتخابات کرائے، لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ سول حکومتوں نے کوئی بلدیاتی انتخاب نہیں کرایا اور ان ادوار میں بلدیاتی ادارے سرکاری افسروں کی نگرانی میں رہے اور صوبائی حکومتیں بلدیاتی اداروں کے فنڈز جس طرح چاہتیں استعمال کرتی رہیں، ان اداروں کے فنڈ صوبائی حکومتوں اور افسروں کی صوابدید پر رہے اور ترقیاتی منصوبوںمیں عوام کی آواز شامل نہ رہی، جبکہ فوجی ادوار میں یہ ادارے عوامی نمائندوں کے ذریعے چلائے جاتے رہے۔ جنرل پرویز مشرف نے ضلعی ناظموں کا جو نظام متعارف کرایا اس کے تحت بہت سی ضلعی حکومتوں نے قابل قدر ترقیاتی کام کئے جنہیں سراہا بھی گیا، یہ نظام اگر جاری رہتا اور اس نظام کے تحت 2009ءمیں جو بلدیاتی انتخابات ہونے تھے وہ اگر بروقت ہوجاتے تو یہ نظام وقت کے ساتھ ساتھ مزید بہتر ہوسکتا تھا اور یہ بھی ممکن تھا کہ جو ادارے ترقیاتی منصوبوں کی راہ پر چل نکلے تھے، وہ مزید اچھی کارکردگی دکھاتے لیکن موجودہ صوبائی حکومتوں نے بلدیاتی الیکشن نہیں کرائے اور ان اداروں کو سرکاری افسروں کے رحم و کرم پر چھوڑدیا۔
اب صوبہ سندھ میں نیا لوکل گورنمنٹ سسٹم نافذ ہوگیا ہے اور اس امر کا بھی امکان ہے کہ اس سسٹم کے تحت جلد بلدیاتی انتخابات کرا دیئے جائیں یہ انتخابات اگر عام انتخابات سے پہلے ہوتے ہیں تو اس کے لئے وقت کم ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ اگر جلدی انتخابات کرانے ہیں تو فوری طور پر صوبے میں انتظامات شروع کردیئے جائیں تاکہ عام انتخابات سے پہلے پہلے یہ انتخابات مکمل ہوجائیں اور بلدیاتی ادارے جمہوری حکومتوں میں بھی عوامی نمائندوں کے ہاتھوں میں آجائیں۔
جہاں تک باقی تین صوبوں یا گلگت بلتستان کا تعلق ہے، وہاں ابھی تک لوکل گورنمنٹ کے کسی سسٹم پر اتفاق رائے نہیں ہوا، پرانے بلدیاتی نظاموں کا جائزہ لے کر کچھ ترامیم و تجاویز ضرور تیار کی گئیں، لیکن باقاعدہ کوئی مسودہ شاید حتمی شکل میں سامنے نہیں آسکا، سندھ میں تو خیر دو جماعتوں کے درمیان بعض اختلافی امور تھے جن کی وجہ سے طویل مذاکرات کی ضرورت پیش آئی، لیکن باقی صوبوں میں تو کوئی ایسا مسئلہ بھی نہیں۔ تمام صوبوں کو اپنی اپنی ضرورتوں کو پیش نظر رکھ کر کوئی نہ کوئی بلدیاتی نظام طے کرلینا چاہئے اور اس کے تحت جتنی جلد ممکن ہو، انتخابات بھی کرا دینے چاہئیں، تاکہ عوام کے وہ مسائل حل ہوں جو معلق چلے آرہے ہیں اور جدید تقاضوں کے مطابق بلدیاتی نظام آگے بڑھ سکے۔
سندھ میں جن جماعتوں کو نیا بلدیاتی نظام پسند نہیں آیا، اور جن کے تحفظات ہیں وہ بھی مل بیٹھ کر، سسٹم کے اندر رہ کر اپنے تحفظات دور کراسکتی ہیں۔ فوری طور پر ایسا نہ ہوسکے تو کچھ دیر بعد ایسا ہوسکتا ہے۔ لیکن اس معاملے کو ایجی ٹیشنل انداز میں حل کرنا درست نہیںہوگا۔ ظاہر ہے کوئی بھی بلدیاتی نظام حرفِ آخر نہیں ہوتا، اس میں بہتری کی گنجائش اب بھی ہے، اور آئندہ بھی ہوگی، اس لئے حکومت کی حلیف جماعتیں احتجاجی انداز میں استعفے دینے کی بجائے حکومت کے ساتھ بیٹھ کر تنازعات طے کرلیں تو یہ عوام کے لئے بھی بہتر ہوگا، باقی صوبے بھی اس سلسلے میں جلدازجلد کوئی نظام بنالیں تو جمہوریت کی برکتیں گراس روٹ لیول پر بھی ملاحظہ کی جاسکیں گی۔