شہریوں کی فون کالز اور ای میلز تک رسائی کا اختیار بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے،وکلائ
لاہور (نامہ نگار خصوصی) تحقیقاتی اداروں کو عام شہریوں کی فون کالز، ایس ایم ایس اور ای میلز تک رسائی کا اختیار اور انہیں عدالتوں کے لئے قابل قبول شہادت کا درجہ دینے کے انویسٹی گیشن فار فیئر ٹرائل ایکٹ کے مجوزہ بل کے حوالے سے نمائندہ وکلاءتنظیموں کے رہنماﺅں اور ممتاز قانون دانوں کا کہنا ہے کہ کسی قانون کی آڑ میں بنیادی انسانی حقوق سلب کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی تاہم اس حوالے سے مستثنیات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر یاسین آزاد نے اس حوالے سے روزنامہ ”پاکستان“ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مجوزہ قانون کے ذریعے تحقیقاتی اداروں کو ایسی اجازت دی گئی تو یہ بنیادی آئینی حقوق کے منافی اقدام ہو گا۔ آئین ہر شہری کے حق خلوت کو تحفظ دیتا ہے۔ تاہم ملزموں تک رسائی اور انہیں قرار واقعی سزا دلوانے کے لئے اگرچہ ذرائع ابلاغ و پیغام رسانی کو اگر شہادت کے طور پر قابل قبول بنایا جارہا ہے تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ یاسین آزاد نے کہا کہ اس مجوزہ قانون سے یہ مطلب اخذ نہیں کرنا چاہتے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہر شہری کی ای میل اور ایسی ایم ایس کھولنے یا فون کالز ٹیپ کرنے کی اجازت مل گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بادی النظر میں اس قانون کا مقصد ملزموں کی فون کالز، ای میلز اور ایس ایم ایس کو قابل قبول شہادت قرار دینا ہے۔تاہم اس قانون کی آڑ میں تحقیقاتی اداروں کو عام شہریوں کی خلوت میں مداخلت کی اجازت دی گئی تو اس کے خلاف ضروری آواز بلند کی جائیگی۔ پاکستان بار کونسل کے رکن اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ بنیادی حقوق کے منافی کوئی قانون نہیں بنایا جا سکتا۔ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ مجوزہ بل میں ایسی کوئی بات شامل نہیں ہو گی جو حق خلوت کے منافی ہو۔ اعظم نذیر تارڑ نے مزید کہا کہ ملزموں کو قرار واقعی سزا دلوانے کے لئے قوانین میں ترمیم کی تجویز وکلاءکی ایک نمائندہ کانفرنس میں تحریری طور پر حکومت کو دی گئی تھی۔ پاکستان میں مدعی مقدمہ کے حقوق کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ فوجداری مقدمات میں ملزموں کو سزا دینے کا تناسب صرف 10فیصد ہے۔ ملکی سا لمیت کے خلاف کام کرنے والوں کی فون کالز ٹیپ کی جاسکتی ہیں۔ اسی طرح دیگر مستثنیات ہیں۔ امریکہ اور یورپ کے کئی ممالک میں پیرول پر رہا ہونے والوں اور عادی مجرموں کے جسم کے ساتھ ایک ”چپ“ لگا دی جاتی ہے جس سے ان کے نقل و حرکت کا قانون نافذ کرنے والے اداروں کو پتہ ملتا رہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قومی سلامتی سب سے مقدم ہیں جس کے اپنے تقاضے ہیں تاہم یہ خیال بھی رکھا جانا چاہئے کہ کسی قانون سے بنیادی حقوق غصب نہ ہوں۔ لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر چودھری شہرام سرور نے کہا کہ جرائم کی شرح بہت بڑھ گئی ہے ۔دہشت گردی اور امن عامہ کے مسائل قابو میں نہیں آ رہے۔ مجوزہ قانون اگر ملزموں کے لئے بنایا جا رہا ہے تو یہ غیر آئینی نہیں ہو گا تاہم اس کی مدد سے عام شہریوں کے حق خلوت میں مداخلت مقصود ہے تو یہ غیر آئینی اقدام ہو گا جس کی حمایت نہیں کی جاسکتی۔ بیرسٹر محمد نے ”پاکستان“ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بنیادی حقوق کے منافی کوئی قانون نہیں بنایا جاسکتا۔ دیکھنا پڑیگا کہ مجوزہ بل کس حد تک بنیادی آئینی حقوق سے متصادم ہے۔ انہوں نے کہا کہ 9/11 کے بعد امریکہ میں بھی پیٹریاٹ ایکٹ کے تحت قانون نافذ کرنے والوں کو مشکوک افراد اور ملکی سالمیت کے خلاف سرگرم عناصر کے خلاف کارروائی کے وسیع اختیارات دیئے گئے تھے۔ امریکی سپریم کورٹ میں اس قانون کو چیلنج کیا گیا مگر امریکی عدالت عظمیٰ نے اس قانون کو جائز قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ صرف مشکوک افراد اور ملزموں جن کے خلاف مقدمات درج ہوں اس کی فون کالز ٹیپ کرنے یا ان کے پیغام رسانی کے جدید آلات تک قانون نافذ کرنے والے اداروں کو رسائی کی اجازت دی جاسکتی ہے تاہم ہر شہری کے ساتھ یہی سلوک اختیار کر لیا جائے تو یہ غیر آئینی ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ گھر میں داخل ہونے کے لئے جس طرح مجاز عدالت سے وارنٹ حاصل کرنا ضروری ہے اسی طرح کسی مشکوک شخص فون کالز کی ریکارڈنگ وغیرہ کے لئے مجاز عدالت سے اجازت لینا ضروری قرار دیا جائے۔ بیرسٹر محمد نے کہا کہ کسی بھی اختیار کے اندھا دھند استعمال کی آئین اجازت نہیں دیتا۔ سابق ڈپٹی اٹارنی جنرل عامر رحمن نے کہا کہ مجوزہ قانون کو دہشت گردوں ملزموں اور مشکوک افراد کی نگرانی ان کی گرفتاری اور انہیں منطقی قانونی انجام تک پہنچانے کے لئے استعمال کیا گیا تو یہ غیر آئینی کام نہیں ہو گا، تاہم اس قانون کا دائرہ کار عام شہریوں کے پرائیویسی تک بڑھا دیا گیا تو اسے آئین کے منافی سمجھا جانا چاہئے۔