امریکہ۔۔۔ ’’اسلامو فوبیا‘‘ سر چڑھ کر بول رہا ہے

امریکہ۔۔۔ ’’اسلامو فوبیا‘‘ سر چڑھ کر بول رہا ہے
امریکہ۔۔۔ ’’اسلامو فوبیا‘‘ سر چڑھ کر بول رہا ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

سیاست دان جو چاہیں عوام کو باور کرایا جا سکتا ہے۔ سیاست دان عوام کو خوشی کی نوید بھی دے سکتے ہیں، اُنہیں حوصلہ دے سکتے ہیں حُبِ وطن سے سرشار کر سکتے ہیں،لیکن چاہیں تو انہیں طبقاتی منافرت سے زہر آلود کر دیں۔ پاکستان میں حزب اختلاف کے پاس کچھ کرنے کو نہیں، کچھ کہنے، سننے کو بھی نہیں۔ وہ پاناما لیکس کی لاش اٹھائے پھرتی ہے، جسے دُنیا میں کہیں درخواعتنا نہیں سمجھا گیا۔ اگر یہ کوئی ایسا بھیانک جرم ہے تو قانونی اور آئینی راستے کھلے ہیں۔ راستے بند کرنا، دھرنے دینا اور الٹی میٹم دینا کہاں کی سیاست ہے؟ امریکہ میں بھی سیاست میں سب کچھ ہوتا ہے۔ الزامات لگتے ہیں پر کا کوا بنایا جاتا ہے۔ نائن الیون کے بعد کی دُنیا میں خوف کے ہتھیار کو وسیع پیمانے پر استعمال کیا گیا ہے، لیکن ری پبلکن پارٹی کے موجودہ صدارتی امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ نے جس طرح نگ و نسل مذہب کو اپنی سیاست کا نقطہ ارتکاز بنایا ہے وہ اس سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔ گورے کو اللہ ہدایت نہ دے تو وہ بنیادی طور پر متعصب ہے، لیکن امریکی معاشرے میں یہ تعصّب اس قدر نمایاں نہیں تھا۔ سیاہ فام چونکہ سطحی سوچ کے مالک اور دور اندیشی سے بہت دور ہوتے ہیں وہ گوروں کے خلاف برملا نفرت کا اظہار کرتے ہیں،لیکن گورے سرعام اپنے دلی جذبات کو چھپانے میں کمال مہارت کا مظاہرہ کرتے تھے۔ گوروں میں سفید فام برتری، کو کلس مکین وغیرہ جیسی تنظیمیں ہی تھیں جن کے ردعمل میں سیاہ فاموں میں بلیک پینتھرز ’’بلیک پاور‘‘ اور نیشن آف اسلام جیسی تنظیمیں معرض وجود میں آئیں۔ جب تک امریکہ میں ’’منشیات کے خلاف جنگ‘‘ جاری رہی، رنگ و نسل کے تعصب نے اس میں خوب اپنے رنگ دکھائے۔ جب امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا رُخ موڑا تو رنگ و نسل کے ساتھ مذہب کو بھی تعصب کے نشانے پر لے لیا گیا۔


ڈونالڈ ٹرمپ نفرتوں کو ہوا دینے کے لئے بہت پہلے سے مصروف تھا۔ اس نے ’’عورت‘‘ کو ذلیل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ وہ کسی ایک عورت کے نہیں بطور جنس عورت کی تحقیر اور تذلیل کرتا تھا۔ اس کے لئے شاید اُسے فکری مواد تحریف شدہ انجیل و تورات سے وافر مل جاتا ہو گا، افسوس کہ اسرائیلیات سے متاثر بعض مسلم روایت پرستوں نے بھی بلا سوچے سمجھے ایسی خرافات کو قرآنی تعلیمات کے خلاف ہونے کے باوجود روایت کیا ہے۔


ڈونالڈ ٹرمپ ملک کے سب سے بڑے عہدے کے لئے امیدوار ہے اُسے سارے امریکی عوام کا ووٹ چاہئے، لیکن وہ ببانگِ دُہل سیاہ فاموں، تارکین وطن اور مسلمانوں کے خلاف ہے، مسلمانوں کے لئے تو وہ اس حد تک چلا گیا ہے کہ ان کے امریکہ میں داخلے پر پابندی لگانے کا نعرہ لگا رہا ہے اور کہہ رہا ہے جو امریکہ میں موجود ہیں اُن کی مسلسل نگرانی کی جائے اور انہیں نظر بندی کے کیمپوں میں رکھا جائے۔(جیسا کسی زمانے میں جاپانیوں کو رکھا گیا تھا۔)


مَیں جانتا ہوں کہ امریکہ کے گوروں اور بالخصوص ری پبلکن میں ایک واضح تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو یہی خیالات رکھتی ہے، لیکن میرا خیال تھا کہ اگر ری پبلکن نے امریکہ میں سیاست کرنی ہے تو انہیں اپنے ان انتہا پسند خیالات کو اپنی ذات تک محدود رکھنا ہو گا۔ وہ اس انتہا پسندی کو سیاسی فکر سے دور رکھیں گے۔ اِس لئے مَیں بار بار لکھتا رہا کہ ری پبلکن ڈونالڈ ٹرمپ کو امیدوار نامزد کر کے اپنے خفیہ خیالات کی تائید ہر گز نہیں کریں گے، لیکن گورے اور ری پبلکن گورے جو دلی طور پر ان خیالات سے متصف تھے اُنہیں گویا ڈونالڈ ٹرمپ کی صورت میں ایک آواز مل گئی اور ری پبلکنز میں کوئی ’’منافق‘‘ امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ کے واشگاف نفرت انگیزی کے خیالات کا مقابلہ نہ کر سکا اس کے علاوہ جانے ری پبلکن کی کیا کیا مصلحتیں اور مجوریاں ہوں گی جس کی بنا پر ڈونالڈ ٹرمپ کو امیدوار نامزد کر دیا گیا اور شاید یہ بھی پہلی بار دیکھنے میں آ رہا ہے کہ نامزد ہونے کے باوجود ری پبلکنز میں اب بھی ڈونالڈ ٹرمپ کی مخالفت جاری ہے۔


ٹرمپ کا پھیلایا ہوا نفرت کا زہر امریکی معاشرے کو مسموم کر رہا ہے۔ گورے پولیس والوں کے ہاتھوں کالے نوجوانوں کو ہلاک کرنے کے واقعات بڑھ گئے ہیں۔ ٹرمپ کے ایک جلسے کے باہر جب سیاہ فام تنظیم ’’کالوں کی زندگی اہم ہے‘‘ نے مظاہرہ کیا وہ خاموشی سے اپنے اس نعرے کے بینر لے کر کھڑے تھے،لیکن ٹرمپ کے حامیوں نے اُنہیں مارا پیٹا اور بدتہذیبی کا بدترین مظاہرہ کیا۔ ڈیمو کریٹس کے قومی کنونشن میں جب ایک مسلمان امریکی امریکہ کے دفاع کے لئے لڑ کر مرنے والے نوجوان کے والد اور والدہ کو مدعو کیا گیا اور وہاں جواں مرگ مسلمان کے والد خضر خان نے مسلمانوں کے خلاف ٹرمپ کی نفرت کو اپنے بیٹے کے خون سے دھونے کی کوشش کی تو ٹرمپ اور اُس کے کیمپ کے لوگوں نے خضر خان کو تنقید و تضحیک کا نشانہ بنایا۔ ڈونالڈ ٹرمپ کی یہ کھلم کھلا نفرت انگیزی اس کے خلاف کیمپ (ڈیمو کریٹس) کے لئے تو نعمت غیر مترقبہ ثابت ہو رہی ہے، کیونکہ وہ اس سے متاثر ہونے والوں سے ہمدردی جتا کر ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن اس سے نفرت کا نشانہ بننے والوں کے لئے سخت مشکل پیدا ہو گئی ہے۔ کالوں کی گورے پولیس والوں کے ہاتھوں اموات کا سلسلہ دراز ہو چکا ہے۔ اور مسلمانوں کو مسلسل نفرت کے جرم کا نشانہ بنا لیا گیا ہے۔
دس ایسے واقعات تو خود ڈیمو کریٹس کی انتخابی مہم نے نوٹ کئے ہیں، جن میں مسلمانوں اور مسلم عبادت گاہوں کو نشانہ بنانے والے کسی نہ کسی درجے میں ٹرمپ کے خیالات سے متاثر تھے، لیکن پولیس اب تک ان جرائم کو نفرت کے جرائم تسلیم ہی نہیں کر رہی۔گزشتہ ایک کالم میں مَیں نے اوزون پارک (کوئنیز) نیو یارک کے بنگالی امام کے قتل کے سلسلے میں عرض کیا تھا کہ ان کے لواحقین اور علاقے کے مکین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ قتل مسلمانوں کے خلاف نفرت کا نتیجہ تھا۔ لیکن پولیس اس پہلو پر کوئی توجہ نہیں دے رہی۔ مجرم نے قتل کے بعد جاتے ہوئے ایک سائیکل سوار کو ٹکر مار دی۔ پولیس نے مجرم کو وہاں سے بھی جانے دیا۔ بعد کی خبروں کے مطابق گواہ مجرم کو پہچاننے میں ناکام رہا۔ گویا نفرت کے تحت جرم ہی نہیں عام قتل کے تحت بھی مجرم کے بچنے کے امکانات پیدا ہو گئے ہیں۔


کوئینز ہی کے علاقے جمائیکا ہلز میں گزشتہ بدھ کو ایک ساٹھ سالہ بنگالی مسلمان خاتون کو چاقو کے پے در پے وار کر کے قتل کر دیا گیا۔ مرحومہ بنگلہ دیش میں انگریزی کی استاد تھی، رات سوا نو بجے جو نیو یارک کے حساب سے کوئی دیر گئے رات کا وقت نہیں ہوتا مرحومہ اپنے 75 سالہ شوہر کے ساتھ اپنے ایک چھوٹے سے سٹور سے گھر کی طرف جا رہی تھی۔ راستے میں انہوں نے کچھ سودا سلف خریدا، وہ چلتے ہوئے کچھ دور نکل گئی خاوند تھوڑا پیچھے رہ گیا۔ اس نے چیخ و پکار کی، لیکن جب تک اس کا شوہر اس تک پہنچتا قاتل بھاگ چکے تھے اور ناظمہ خانم آخری سانسیں لے رہی تھی۔ ناظمہ خانم کا ایک قریبی عزیز بھی نیو یارک پولیس میں ہے۔ آج کل نیو یارک پولیس میں پاکستانی انڈین اور بنگالیوں کی خاصی تعداد موجود ہے۔ تاہم زیادہ تر بنگالی ٹریفک کے ٹکٹ لگانے والی فورس میں کام کرتے ہیں۔


پولیس ایک بار پھر اسے ڈکیتی کی ناکام واردات باور کرانے کی کوشش کر رہی ہے۔ حالانکہ خاتون اتنی ضعیف تھی کہ لوٹنے والے کے لئے کسی تشدد یا اس قدر چاقو کے وار کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ لواحقین کا کہنا ہے کہ مقتولہ کا سیل فون پرس وغیرہ اس کی لاش کے ساتھ موجود تھے البتہ ناظمہ اپنا روایتی اسلامی لباس پہنتی تھی، جس کی وجہ سے انہیں بآسانی پہچانا جا سکتا تھا کہ وہ مسلمان ہیں اور ان کا مسلمان ہونا ہی ان کا جرم تھا، لیکن ایک بار پھر نیو یارک پولیس اس پہلو کو ابتدا میں ہی مسترد کر چکی ہے۔
اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ مسلمان متحد ہو کر میئر اور گورنر کو اس طرف متوجہ کریں مسلم تنظیمیں بالخصوص کیئر اس بات پر زور دے کہ جب کبھی ایسا قتل ہو تو سب سے پہلے نفرت کے تحت جرم کے شواہد پر توجہ دی جائے۔ پولیس از خود فیصلہ کر کے نہ بیٹھ جائے مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ امریکن سول لبرٹیز ایسوسی ایشن کی نیو یارک شاخ سے مدد لے۔ مسلمانوں کو سیاسی طور پر متحد ہو کر بھی ’’اسلامو فوبیا‘‘ کو بے اثر کرنے کے لئے کام کرنا چاہئے۔ ایسی انصاف پسند اور برابری پر یقین رکھنے والی مسلم، عیسائی، یہودی تنظیموں کو بھی اس صورتِ حال کا نوٹس لینا چاہئے۔ مجھے اس بات پر اصرار نہیں کہ یہ ضرور مسلمانوں سے نفرت کے تحت HATE Crimes ہیں لیکن بظاہر ان جرائم کی کوئی اور وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ یا تو پولیس ان قاتلوں کو پکڑ کر ثابت کرے کہ قتل کی وجہ کچھ اور تھی ورنہ اس طرف خیال کا جانا فطری امر ہے۔ خاص طور پر ڈونالڈ ٹرمپ نے جو فضا پیدا کر دی ہے وہ امریکی معاشرے کو تقسیم در تقسیم کر رہا ہے۔


ڈونالڈ ٹرمپ کے پیدا کردہ ’’اسلامو فوبیا‘‘ کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ اگر اس کا تدارک نہ ہوا تو یہ امریکی معاشرے کی یکجہتی کے لئے شدید خطرے کا باعث بن جائے گا۔

مزید :

کالم -