مرعوب ہونا انہوں نے سیکھا ہی نہیں تھا
سجاد میر
ہمارے عہد کا داستان گو بھی چل بسا۔ اس نے یہ داستان کس کس انداز میں نہیں سنائی۔ اشفاق احمد کا کوئی ہم عصر ان جیسا نہ تھا۔ عجیب شخص تھا، کیا طلسم کھولتا گیا۔
ابھی ابھی کسی نے پوچھا ہے: آپ اس کے مرتبے کا تعین کیسے کرتے ہو؟ بے ساختہ عرض کیا، لاہور میں چار زندہ ادیب تھے۔ جی ہاں، ہر معنی میں زندہ! انتظار حسین، منیر نیازی، احمد ندیم قاسمی اور اشفاق احمد جن سے اس مُلک میں ادب کا وقار قائم تھا۔ ان میں صرف دو ایک اور شامل کر لئے جائیں تو پوری ادبی دُنیا کا منظر نامہ مرتب ہو جاتا ہے۔ مکمل، جاندار اور خوبصورت۔ وہ زندہ رہنے والے ادیبوں میں تھا اور یقیناًزندہ رہے گا۔
جب مَیں نے شعور کی آنکھ کھولی تو اشفاق احمد کے گڈریئے کا چرچا تھا۔ منٹو کے عہد کے بعد جو دو ایک لکھنے والے اپنا وقار بنا سکے اُن میں اشفاق پیش پیش تھے۔ معلوم ہوا،انہوں نے لاہور سے داستان گو کے نام سے ایک پرچہ جاری کیا ہے۔ چھوٹا سا پریس خریدا ہے، شاید ہاتھ سے چلتا ہے، کم از کم ہم نے یہی سنا تھا۔ دونوں میاں بیوی مل کر یہ پرچہ خود چھاپتے ہیں۔ اس بات میں ان دنوں بڑا رومانس محسوس ہوتا۔ میاں بیوی کے اس انداز پر رشک آتا تھا۔ بانو قدسیہ اور اشفاق احمد کا جوڑا کیا جوڑا ہے۔ ہم دوست مل کر سوچتے اور ادب میں کوئی ایسا ہی درویشانہ ادبی رویہ اختیار کرنے کے خواب دیکھا کرتے۔
ہم خواب دیکھتے رہے اور اشفاق احمد کام کرتا رہا۔
ریڈیو پر تلقین شاہ کی دھومیں تھیں۔ یہ کردار اشفاق احمد خود کِیا کرتے، لکھتے تو تھے ہی۔ ریڈیو کے میڈیا پر عقل و دانش کی باتیں دیسی انداز میں کرنے کا جو ڈھنگ اس میں نکالا گیا تھا وہ کہیں خال خال ہی دکھائی دیتا ہے۔
اشفاق احمد نے ایک فلم بنا ڈالی۔ ناکام ہوئی، مگر برسوں اس کا چرچا رہا کہ اس کے پیچھے ایک تخلیق کار کا دماغ جو تھا۔ ٹیلی ویژن آیا تو اشفاق احمد اس میدان میں بھی چھا گئے۔ داستان گوئی نے ڈرامہ نویسی کا رنگ اختیار کیا۔ وہ اپنی بات کہنے کے لئے ہر میڈیا میں راستہ نکال لیتے تھے۔ ہر میڈیا میں سب سے الگ اور منفرد نظر آتے، ایک زمانہ تھا جب کسی نے پوچھا:اپنی روایات و اقدار کی پاسداری کے لئے الیکٹرانک میڈیا پر کیا کِیا جائے۔ مجھے یاد ہے، مَیں نے مشورہ دیا تھا کہ اشفاق احمد اور سلیم احمد کے پاؤں پکڑ لو۔ سلیم احمد تو خیر کھل کر نظریاتی آدمی تھے، مگر اشفاق تخلیقی سطح پر ان سرچشموں تک جا پہنچتے تھے جو ہماری تہذیب کے اصل ماخذ ہیں۔
جب اشفاق نے دیسی بابوں کا ذکر شروع کیا تو کسی نے کہا یہ ادھر کہاں جا نکلے ، کوئی بولا، قدرت اللہ شہاب کی صحبت نے خراب کر دیا، کسی نے کچھ کہا، مگر داستان گو اپنی بات کرتا رہا۔ وہ پہلے بھی اپنی کہانیوں میں اپنی مٹی سے ذہانتیں تلاش کرتا تھا، اب بھی اس کا سفر اِس سمت تھا۔ وہ پہلے بھی اپنے اندر سے ہیرے تلاش کرتا تھا، اب بھی وہ اسی کو صراطِ مستقیم سمجھتا تھا۔ اس نے تو اِدھر اُدھر کی چکا چوند سے مرعوب ہونا سیکھا ہی نہیں تھا۔ مجھے یاد ہے جب اس نے حلقہ اربابِ ذوق میں اپنی ایک تحریر پڑھی تھی، مَیں اس اجلاس میں موجود تھا۔ کیا خوبصورت انداز تھا۔ کچھ ایسی بات تھی۔
بابا جی سے اجازت مانگی، انہوں نے کہا، کھانا کھا کر جاؤ، دیگچی سے کھانا نکال کر دیا اور ساتھ پنکھا جھلنے لگے کہ مکھیاں نہ آئیں، کیونکہ باہر درخت تلے ان سے مفر نہ تھا۔ اتنے میں مغرب کی اذان ہوئی، جماعت شروع ہوئی، ہم نے بابا جی سے کہا، حضور گناہگار نہ کیجئے، جماعت جاری ہے۔ کہنے لگے، بیٹا، عبادت کی قضا ہے، خدمت کی قضا نہیں۔
کیا بات کی، مَیں آج تک اس فقرے کا اسیر ہوں۔
بات یوں بھی کی جا سکتی ہے، لوگ سوچنے لگے۔ جب کسی کانفرنس میں خواہ مخواہ انگریزی میں گرم گفتاری ہو رہی ہوتی، مَیں نے کئی بار دیکھا اشفاق احمد آتے، پل بھر میں انگریزی بولنے والوں کا مذاق اڑاتے، انہیں شرمندہ سا کر جاتے اور بڑے وقار کے ساتھ اُردو میں بولتے داد سمیٹتے جاتے یوں کہ اس کے بعد کوئی انگریزی بولنا بھی چاہتا تو زبان ساتھ نہ دیتی۔
وہ اس مٹی کی روح تھا، جس میں میری صدیوں کی بصیرتیں چھپی ہوئی ہیں۔
پھر وہ وقت آیا جب اس داستان گو نے اپنے لئے ایک زاویہ نشین کا منصب تلاش کیا۔ وہ اب بھی داستان گو تھا۔ وہ اب بھی ایک تخلیقی فنکار تھا۔ و ہ اب بھی اسی مٹی کے رس کا رسیا تھا، اپنی روح کا متلاشی تھا۔Indigenous Wisdom شاید اسے کہتے ہیں۔
ادھر مغرب میں،میرا مطلب ہے المغرب میں خانقاہ کے لئے زاویہ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ اس نے اب چکیاں لینے کے انداز میں اپنے پروگرام کے لئے یہ لفظ استعمال کیا تھا۔
کیا اشفاق احمد شیخ بن بیٹھا تھا۔
ذرا غور سے سنو، یہ وہی داستان گو ہے،جو دیسی زبان میں دیسی عقل کے موتی رول رہا ہے۔
آپ کو ولایتی مال چاہئے۔
مگر تم سنو تو سہی، یہ کہہ کیا رہا ہے۔
یوں لگتا ہے، یہ اس کے سارے تخلیق سفر کا نقط�ۂ عروج تھا جس میں برسوں کی ریاضت اور صدیوں کی بصیرت بولتی تھی۔ یہ خالص میری مٹی کی آواز ہے، میرے دیس کی بصیرت ہے، میرے پاکستان کی روح ہے جسے یہ داستان گو کس سادگی سے سُنا رہا تھا۔
لوگ سُن رہے تھے۔
زمانہ بڑے شوق سے سُن رہا تھا۔
تمہیں سو گئے داستاں کہتے کہتے
الوداع، اے روح عصر، الوداع الوداع، اے میری گمشدہ متاع، الوداع، الوداع! میری روح کی آواز، الوداع، الوداع! میری مٹی کی پہچان، الوداع! الوداع، الوداع۔۔۔ اب پھر کوئی ایسا داستاں گو نہیں آئے گا۔ الوداع، میرے داستاں گو الوداع!
*****