جمہور کی بالادستی

جمہور کی بالادستی
 جمہور کی بالادستی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کارہائے حکومت کی تکمیل کے لئے عوام کی جانب سے ٹیکس کی صورت میں جمع کیا گیا پیسہ ایک نا گزیر ذریعہ ہے۔

عام آدمی اپنی ضروریات زندگی کی تکمیل کے لئے جو پیسہ خرچ کرتا ہے اس میں ایک حصہ امور مملکت کے لئے ٹیکس کی شکل میں وصول کیا جاتا ہے۔ پاکستانی عوام تو بلا واسطہ اور بالواسطہ ٹیکس کی مد میں کافی پیسہ حکومت کے خزانے میں جمع کراتے ہیں۔ یعنی سرکاری امور عوامی دولت سے سر انجام پاتے ہیں۔ اصولاً جو کسی کام کو کروانے کا معاوضہ دے گا اسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ یہ احتساب کر سکے کہ آیا اس کا پیسہ کہاں، کیسے اور کب استعمال ہوا۔

ہمیں آزادی حاصل کئے ہوئے کئی عشرے بیت گئے، لیکن ہماری عوام کی دولت سرکاری عہدوں پر تعینات سیاست دانوں اور بیورو کریسی کی ملکیت رہی ہے۔ ٹیکس وصول کرنے کے بعد یہ انہی چند مٹھی بھر افراد کی صوابدید ہوا کرتی ہے کہ اسے جس طرح چاہیں استعمال کریں۔ عوام اس معاملے میں بالکل بے خبر رہے ہیں کہ ان کی خون پسینے سے حاصل کردہ دولت کس کی جیب میں گئی یا کس کام پر خرچ ہوئی۔


اس کے برعکس سویڈن ایک ایسا ملک ہے جس نے 1976میں سب سے پہلے اپنے ملک میں عوام الناس تک معلومات کی رسائی کا قانون پاس کیا۔ اس کے بعد دیگر ترقی یافتہ ممالک نے بھی قانوناً اپنے عوام کو اپنے اداروں کے احتساب کا حق دیا۔ یہاں تک کہ ایشیا میں بھی پندرہ ممالک ایسے ہیں جن کی عوام کو معلومات تک رسائی کا حق قانوناًحاصل ہے۔


صد شکر کہ پاکستان میں یہ معاملہ "دیر آید درست آید"حال ہی میں حکومت کی جانب سے پیش کردہ معلومات تک رسائی بل منظور ہوا جس سے ایک نئے دور کا باب وا ہوا۔ اس قانون کے مطابق ہر پاکستانی کو معلومات تک رسائی حاصل ہو گی سوائے دفاعی اداروں اور افواج پاکستان کے۔ ہر سرکاری ادارے سے عام آدمی اگر چاہے تو درخواست دے کر کسی بھی قسم کی معلومات حاصل کر سکتا ہے۔ جس پر متعلقہ حکام دس روز میں جواب دینے کے پابند ہیں اور اگر کوئی سرکاری ملازم اس رسائی کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کا مرتکب پایا جاتا ہے تو اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔


اگر معلومات جمع کرنے میں زیادہ وقت درکار ہے تو اس کی مدت دس روز کی بجائے بیس روز ہے، لیکن ایسی معلومات جن کا تعلق کسی فرد کی زندگی اور آزادی سے ہے تو اس کے لئے متعلقہ افراد کو صرف تین روز میں درخواست کنندہ کو درکار معلومات مہیا کرنی ہو ں گی۔ کسی شہری کی درخواست پر اگر کوئی ادارہ جواب طے شدہ مدت میں جمع نہیں کرواتا تو اس کے لئے ایک کمیشن تشکیل دیا گیا ہے۔

شہری اپنی شکایت اس کمیشن کو جمع کروائیں گے جو متعلقہ حکام سے اس کے متعلق باز پرس کرنے کا مجاز ہے۔ یہ کمیشن تین ارکان پر مشتمل ہو گا جس میں ایک سول سوسائٹی کا نمائندہ، ایک ہائی کورٹ کا جج اور 22گریڈ کا سرکاری افسر شامل ہونگے۔ اور اگر کسی شہری کی درخواست کے مطابق یہ ثابت ہو جائے کہ کسی ادارے یا متعلقہ افراد نے جان بوجھ کر معلومات کی رسائی میں رکاوٹیں ڈالی ہیں تو کمیشن کو اختیار حاصل ہے کہ اس جرم کے مرتکب افراد کو جرمانے کے ساتھ ساتھ تنزلی کے احکامات صادر کرے۔ اور اگر کوئی سرکاری ملازم دانستہ طور پر سرکاری ریکارڈ کو ضائع کرنے کا مرتکب پایا جاتا ہے تو ایک لاکھ جرمانہ ادا کرنے کی سزا کا مستحق ہے۔ اس قانون کا نفاذ درحقیقت جمہور کی بالا دستی کی عکاسی ہے۔ اب عوام اپنے پیسے کے اطلاق کا خود جائزہ لینے کا اختیار رکھتے ہیں۔ کوئی شخص اپنی مرضی سے عوام کی دولت کا ناجائز استعمال نہیں کر سکتا۔


حکومت نے جس طرح بل کی منظوری کے لئے تگ و دو کی ہے اسی طرح اس قانون کے نفاذ کو بھی یقینی بنائے ،تاکہ عوام کو ان کے آئینی حق کی فراہمی یقینی ہو سکے۔بعض حلقوں کی جانب سے اس بل میں فوج اور دیگر دفاعی اداروں کو دی گئی استشنی پر تنقید سامنے آئی ہے۔

بعض امور مملکت کو عیاں کرنا ملکی مفادات کے لئے مضر ثابت ہو سکتا ہے۔ دفاعی اور دیگر حساس معاملات تک عام آدمی کو رسائی دی جائے تو اس کا فائدہ ملک دشمن عناصر اٹھا سکتے ہیںَ اس لیے اس استشنیٰ پر کی گئی تنقید بے جا ہے ۔ ملکی مفاد پر ہر چیز مقدم ہے۔ معلومات تک رسائی کا قانون عمل میں آنا دراصل ابتدا ہے۔ ارباب کار کو اس قانون کے اصل ثمرات کے حصول کے لئے ابھی مزید کاوشوں کی ضرورت ہے۔ قانون کا نفاذ تو پہلا قدم ہے اس کا موثر اطلاق اصل کام ہے۔

مزید :

کالم -