ڈیم سے پہلے قوم کو مضبوط بنائیں
وزیراعظم پاکستان عمران خان کی پانی کی قلت کے حوالے سے تقریر بظاہر بروقت اور بر محل لگ رہی ہے جس طرح انہوں نے اس اہم مسئلے کو اجاگر کیا ہے وہ قابلِ تعریف ہے۔مگر اس تقریر میں بہت سے تشنہ پہلو نمایاں نظر آئے۔ اس بات کا کوئی ذکر نہیں تھا مجوزہ ڈیم پر لاگت کیا آئے گی مدت تکمیل کتنی ہوگی؟ اسکے فوائد کیا حاصل ہونگے اورسیز پاکستانی سے عطیات کا مطالبہ تو کیا جارہا ہے مگر کبھی دہری شہریت کے طعنے دئے جاتے ہیں تو کبھی ووٹ کے حق سے محروم رکھا جاتا ہے ۔ اسکے باوجود بھی وطن عزیز پر کوئی بھی مصیبت آئی ہے اورسیز پاکستانیوں نے بڑھ چڑھ کر مدد کی ہے۔ بہتر تو یہ تھا کہ باہر کی دنیا کے وہ ممالک جہاں پاکستانی کثیر تعداد میں موجود ہیں ان ممالک میں موجود سفارتخانوں کو متحرک کیا جاتا اور سمینار منعقد کروائے جاتے اور انکی رائے لی جاتی تو بہتر نتائج نکل سکتے تھے۔مگر اس سے پہلے پاکستان میں موجود لوگوں کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے آپ عوام کو جب تک زمینی حقائق سے آگاہ نہیں کرینگے وہ آپکے ساتھ چاہنے کے باوجود بھی تعاون نہیں کرینگے کیونکہ سانپ کا ڈسا ہوا رسی سے بھی ڈرتا ہے اور دودھ کا جلا چھاج بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے۔
ماضی کے حکمرانوں نے بھی عوام کو لچھے دار تقریروں کے ذریعے سہانے خواب دکھائے تھے مگر کسی کا روٹی۔ کپڑا۔ مکان سرے محل کی نذر ہوگیا یا شہر شہر بلاول ہاؤس کی تعبیر بن گیا ۔دوسری طرف پاکستان کو ایشیائی ٹائیگر بنانے والوں نے لندن میں اربوں روپے کی جائیدادیں بنا لیں اور پاکستان قوم کو تیس ہزار ارب کا مقروض کر کے چلتے بنے۔
جب تک عوام کے ٹیکس کا پیسہ عوام کی فلاح بہبود پر نہیں لگے گا غریب کا مقدر بدلنے کے آثار نہیں پیدا ہونگے کوئی بھی حکمرانوں کی بات پر مشکل سے ہی یقین کرے گا۔لوگوں کو یقین دلائیں کے انکا مستقبل محفوظ ہاتھوں میں ہے انکو حقیقی معنوں میں ریلیف دیں ۔تھانہ کلچر بدلیں۔ انصاف بروقت فراہم کریں سب کے لئیے ایک پاکستان کی بات کرنے والے اگر اپنی مدتِ اقتدار میں صرف یکساں تعلیمی نظام ہی نافذ کر گئے تو یہ بہت بڑی کامیابی ہوگی۔
چار سال سے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے لواحقین انصاف کے لئیے دربدر ہیں اور انصاف شراب کی بوتلیں چیک کرنے میں مصروف ہے۔ کم از کم انتظامی بنیادوں پر ہی اس کیس کو ڈیل کیا جائے تاکہ انصاف سب کی دسترس میں ہو۔
صرف ڈیم پر بات کر کے کمزوری ظاہر کی گئی ہے ۔آج ڈیم کیلئے پیسے مانگ رہے ہیں تو پچاس لاکھ گھر کیسے بنیں گے؟ ایک کروڑ نوکریاں کیسے دی جائیں گی ،آپکا سو دن کا منشور کدھر گیا ؟ابتدائی دنوں میں نالائق مشیروں کے بیانات و اقدامات حسب معمول یو ٹرن کا سبب بنتے رہے۔
خان صاحب ڈیم ضرور بنائیں مگر چندے سے ڈیم نہیں بن سکتے۔ معاشی اصلاحات کریں ۔ڈیم کے لئیے وسائل کی ضرورت ہے۔ موبائل پر ٹیکس لگا دیں، یوٹیلیٹی بلز پر ڈیم سرچارج لگا دیں ،ڈیم بانڈز متعارف کروائیں مگر اس سے پہلے غریب کے منہ میں نوالے کا بندوبست کریں۔ مظلوم کو انصاف دلوائیں ۔عدالتوں میں لاکھوں مقدمات کب سے ملتوی پڑے ہیں۔
قوموں پر مشکل وقت آتے ہیں اور وہی قومیں کامیاب ہوتی ہیں جو ڈٹ کر مقابلہ کرتی ہیں ۔اورسیز پاکستانی بھی اس مشکل گھڑی میں حکومت کے ساتھ ہونگے۔ بس ذرا دہری شہریت کے طعنے ختم کروادیں اور ہاں ووٹ کا حق بھی ضرور دلوائیں کیونکہ اکثریتی ووٹرز بھی تحریک انصاف کا ووٹ بڑھائیں گے۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں,ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔