قیامت کی تیاریاں؟
انسان خود غرض ہے، وہ جب زمین پر ہے تو اسے آگے کی کوئی پرواہ نہیں،حالانکہ اس مادی دُنیا میں عارضی قیام کے حوالے سے تو دہریوں کو سر تسلیم خم کرنا پڑتا ہے،ہر دین اور مذہب میں اس حقیقت کو تسلیم کیا جاتا ہے کہ دُنیا فانی ہے اور اک دِن سب کو جانا ہے، آج ان کی توکل ہماری باری ہے،لیکن خود غرضی کہاں حقیقت کو تسلیم کرنے دیتی ہے، جہاں میں حکمرانی کا نشہ ہی کچھ اور ہے۔ بادشاہت کی تاریخ سامنے ہے کہ تخت و تاج کے لئے کیا کچھ نہیں کیا گیا،سگے بھائیوں اور بیٹوں تک کو قتل کیا گیا اور پھر جہانِ نو کی کیا بات کریں،یہاں ایک نہیں دو عالمی جنگیں ہو چکی ہیں، کروڑوں انسانوں کے لقمہ ئ اجل بننے کی داستانیں تاریخ میں مذکور ہیں۔ہیرو شیما اور ناگا ساکی میں ہر سال اس یوم کی یاد منائی جاتی ہے، جب یہاں آسمان سے ایٹم بم برسا دیئے گئے اور عمارتیں پگھل گئیں، نہایت بھیانک صورتِ حال تھی جسے آج بھی یاد کر کے آنسو بہائے جاتے ہیں۔یہ تو بہت پرانی بات ہے، تب تو دُنیا کا تھانیدار اور واحد سپر پاور ہی ایک ایٹمی قوت تھا، لیکن آج صورتِ حال مختلف ہے، آج صرف امریکہ نہیں، روس، فرانس، چین اور برطانیہ کے علاوہ پاکستان، بھارت، شمالی کوریا اور بعض دوسرے ممالک بھی اس کے حامل ہیں اور بعض پر شبہ کیا جاتا ہے۔یوں یہ عالم ِ فانی اِس حوالے سے شدید خطرے کی زد میں ہے، اور کہا یہ جا رہا ہے کہ شاید اسی خوف سے کوئی بڑی جنگ رکی ہوئی ہے کہ ہم نہ ہوں گے تو تم بھی نہ رہو گے والی بات ہے۔
تمام مذاہب کی الہامی کتابوں میں قیامت کا ذکر ہے،ان کے ماننے والے سب اپنے اپنے عقائد اور تجزیئے کے حوالے کے مانتے ہیں،آج کے دور تک ان الہامی کتابوں سے بھی ان ماننے والوں نے نتائج بھی اپنے اپنے اخذ کئے ہیں،تاہم اس گئے گذرے دور میں بھی دین برحق اسلام نے واضح تصویر کشی کی ہے۔ اللہ کی کتاب قرآن مجید میں بہت کچھ واضح اور احادیث مبارکہ میں بھی بتا دیا گیا کہ دُنیا میں انسان جو کرے گا اس کا پھل اُسے اِسی جہاں میں مل جائے گا۔جوں جوں سائنس ترقی کرتی ہے، ویسے ویسے اللہ کے فرامین واضح ہوتے جاتے ہیں۔قیامت کے حوالے سے بتایا جاتا ہے کہ زمین پھٹ جائے گی اور روئی کے گالوں کی طرح فضا / خلاء میں تحلیل ہو جائے گی، آج کی سائنس یہ بتاتی ہے کہ دُنیا ایک محور پر گھوم رہی ہے اور یہ کرہ ارض کا ایک سیارہ ہے جیسے دوسرے بھی ہیں، تاہم زندگی یہاں ملتی ہے اور انسان نے خلاء میں موجود دوسرے سیاروں میں بھی زندگی کی تلاش شروع کر رکھی ہے اور اسی حوالے سے خلائی دوڑ جاری ہے۔ چاند پر اُترنے کا دعویٰ ہے تو مریخ کو فتح کرنے کا بھی اعلان کیا جاتا ہے، اس سارے عمل میں حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اور روس کے علاوہ چین نے بھی خلاء میں عمل مکمل کئے،ان کے خلائی طیارے خلاء سے واپس زمین پر آنے میں کامیاب ہیں۔ اب اس دوڑ میں بھارت نے بھی شامل ہونے کی کوشش کی جو دوسری بار ناکام ہو گئی، بھارت کا دوسرا خلائی تجربہ بھی ناکام ہو گیا اور بقول بھارت کی خلائی تجربہ گاہ کے کہ چاند پر اُترنے سے چند لمحے قبل ہی خلائی جہاز سے رابطہ منقطع ہو گیا۔ یہ قدرت کا اپنا فیصلہ ہے کہ بھارت کی یہ کوشش پھر ناکام ہو گئی، ورنہ اس ملک والوں کے ارادوں کے حوالے سے کسی خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہئے۔
ابھی چند روز ہوئے جب امریکہ کے صدر ٹرمپ نے پینٹاگون میں ایک خصوصی شعبہ تشکیل دیا جو خلائی جنگ سے متعلق ہے، ٹرمپ کے مطابق امریکہ خلاء کے حوالے سے بھی خبردار رہنا چاہتا ہے کہ کوئی دوسرا ملک چڑھائی نہ کر دے۔یوں خلائی جنگ کے خطرات بھی موجود ہیں اور پھر یہ خلائی پروگرام جو انسانی بہبود اور دُنیا کی بھلائی کے لئے شروع کیا گیا تھا،اب دُنیا کی بربادی کا بھی کام کرے گا کہ خلاء میں ہی جنگ نہیں ہو گی،بلکہ خلاء سے زمین پر بھی مسلط کی جا سکے گی۔اب اگر بھارتی ذہنیت کا خیال رکھیں تو واضح ہو جاتا ہے کہ اصل مقاصد کیا ہیں یہ تو قدرت کا عمل ہے کہ دوسری بار ناکامی ہو گئی۔ اس سارے عمل میں یہ حضرات بھول جانتے ہیں کہ ہمارے اللہ کی کتابِ برحق نے قیامت کا ذکر کیا اور اس کی نشانیاں بیان کی ہیں۔اب اگر سائنسی فکر کا مطالعہ کیا جائے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ اگر یہ زمین اپنے محور سے بہت ہی معمولی تر بھی ہٹ جائے تو یہ اسی خلاء میں کسی طرف سفرکرے گی، جدھر کشش ِ ثقل زیادہ ہو اور اسے کھینچے، ایسی صورت میں یہ رفتار میلوں یا کلو میٹروں میں تعین نہیں کی جا سکے گی اور کھربوں کی رفتار ہو گی اور پھر یہ رفتار اس زمین کو تہس نہس کر دے گی اور یہ روئی ہی کے گالوں کی طرح بکھر جائے گی(پنجابی میں! پھیتی پھیتی ہو جائے گی) یوں یہ انسان خود اپنے ہاتھوں سے اسے ختم کرے گا اور سب خواب ادھورے رہ جائیں گے،انسان کم عقل ہے۔ یہ خود ہی اپنی بربادی کے انتظامات کر رہا ہے،کیا جدید سائنس بھی ان کو عقل نہیں دے رہی،اگر نہیں تو یہ سب ظہور پذیر ہو گا کہ برحق ہے۔