مجبوروں پر مختاری کی تہمت
شاہ جی کا نام تو والدین نے کچھ اور ہی رکھا ہوگا،مگر جب وہ بڑے ہوکر صاحب کرامت ہوئے تھے تو شانی شاہ کے نام سے معروف ہوگئے۔اس معروف ہونے میں ان کی محنت و کاوش کا بڑا عمل دخل تھا۔وہ رہنے والے بھی کسی اور شہر کے تھے، مگر مشہور وہ لاہور جیسے مردم ساز شہر میں ہوئے۔ایک بار ان کی مدینتہ الاولیاء (ملتان)اچانک اور بلا اطلاع آمد ان کے جاننے اور چاہنے والوں کے لئے حیران کن تھی۔طریقے سے پوچھا تو پتہ چلا کہ ان کے بڑوں نے ڈیوٹی قومی کرکٹ ٹیم کے ساتھ لگا رکھی ہے۔ان دنوں بھارت کی کرکٹ ٹیم پاکستان کے دورے پر تھی اور خیال تھا کہ بھارتی کھلاڑی اپنے بڑوں سے کالے علم کی پھونکیں مروا کر اور تعویذ لے کر آئے ہیں جس کا توڑ کرنا ضرور ی تھا تاکہ پاکستانی کھلاڑیوں کو اس علم کے مضر اثرات سے محفوظ رکھا جاسکے۔ٹیم کے کپتان انضمام الحق تھے وہ بھی اس دفاعی انتظام کے قائل تھے چنانچہ شانی شاہ ان کے ذریعے کھلاڑیوں کو اوارد و وظائف بتاتے،تب راقم بھی کچھ علیل شلیل سا تھا۔ہیپاٹائٹس سی کا سراغ لگ چکا تھا اور انٹر فیران الفا ٹوبی ٹیکوں کا کورس بھی شروع ہوچکا تھا۔دورہ ملتان میں شانی شاہ صاحب کو پتہ چل گیا تو وہ عیادت کم اور علاج زیادہ کی غرض سے پہنچ گئے۔انہیں طبی ماہرین کی رائے اور علاج سے آگاہ کیا، مگر انہوں نے اس علاج پر مکمل انحصار کو رد کردیا اور اپنے علاج پر،دلائل و براہین کے ساتھ،اتنا اصرار کیا کہ ہمیں مانتے ہی بنی۔ایک کلو سرسوں کا تیل منگوایا گیا۔نیم کی نو ٹہنیوں کا مطالبہ ہوا جو خاصی تلاش کے بعد حاصل ہوئیں۔ٹہنیوں کا گچھا بنا کر تیل میں ڈیویا گیا اور منہ ہی منہ میں کچھ پڑھتے ہوئے ہمارے سر اور پیٹ پر نو نو بار محبت بھرے انداز میں ماری گئیں۔ہماری کرکٹ ٹیم تو ان کی پھونکوں کے باوجود ملتان کا ٹسٹ نہ جیت سکی البتہ ہم بیماری کے خلاف جیت گئے۔تاہم ناہنجار نئی پود ابھی تک فیصلہ نہیں کرپائی کہ بیماری کو شکست 72ٹیکوں کے کورس سے ہوئی یا شانی شاہ کے دم سے۔خیر ہمیں تو صحت سے غرض تھی ہم ڈاکٹر صاحب کے بھی شکر گزار ہوئے شانی شاہ کے بھی:
حسن اور عشق دونوں میں تفریق ہے
کیا کروں میرا دونوں پہ ایمان ہے
وقت گذرتا گیا اور شانی شاہ کا حلقہ ارادت پھیلتا گیا۔غرض مند انہیں لئے لئے پھرتے۔گاہے پشاور ہوتے گاہے کراچی،اسلام آباد تو آنا جانا لگا رہتا۔دبئی اور مشرق وسطیٰ میں رہنے والے عقیدت مند اپنے خرچ پر وہاں بھی لے جاتے۔ایک آدھ چکر تو ولایت کا بھی لگ گیا۔گھر پر بھی لوگوں کا ہجوم رہنے لگا۔اہل سیاست بھی ان سے استفادہ کرنے لگے،ایک بار پتہ چلا کہ وہ بنی گالا کے چکر لگاتے پائے گئے ہیں حالانکہ تب تک کپتان کے ہاتھ میں کسی کو اقتدار کی لکیر دکھائی نہیں دی تھی بات البتہ چند پارلیمانی نشستوں تک پہنچ چکی تھی۔ایک ملاقات پر اس خبر کی تصدیق ہوئی تو”طواف کوئے جاناں“کی وجہ جاننا چاہی۔پھر وہی جواب کہ بڑوں کو ان کے فراح کی اصلاح او رخصوصی دعاؤں کا کورس درکار ہے۔وہ تو محض ڈیوٹی پر ہیں۔ہم نے امکانات کے بارے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ موصوف میں معاملہ فہمی اور مردم شناسی کا فقدان ہے۔طبیعت میں روپے پیسے کا لالچ نہیں ہے۔سیر شکم آدمی ہے۔طویل اور مسلسل ملاقاتوں کے بعد شانی شاہ اس نتیجے پر پہنچے اگر چہ موصوف لالچی نہیں ہیں، مگر رموز حکمرانی ان کے بس کی بات نہیں۔اگر کسی نہ کسی طرح وہ سریر آراء مسند ہوگئے تو قوم گدھا ریڑھی پر آجائے گی۔ان کی اس بدشگونی کو ہم نے بخدا ان خبروں کا نتیجہ سمجھا کہ عمرانی دسترخوان سادہ و محدود ہوتا ہے۔مہمانوں کی تواضع چائے بسکٹ سے زیادہ نہیں دیکھی گئی۔اب جو مہمان اپنے عقیدت مندوں کی پر تکلف دعوتوں کے عادی ہوں ان کے دل سے تو ایسا کھٹٹرا میزبان آنا فانا اتر جاتا ہوگا۔ہمارے وسیب کی تو مقبول ضرب المثل ہے ”بھاندے دی ہر شے بھاندی اے تے نہ بھاندے دی کوئی شے نہیں بھاندی“۔ہوسکتا ہے کہ قبلہ شانی شاہ صاحب نے اسی لئے اپنے اس وکھری ٹائپ کے میزبان کو ”نہ بھاندے“ڈال دیا ہو۔وقت پھر کروٹیں لیتا ہوا آگے بڑھتا گیا۔”کیسے کیسے ایسے ویسے ہوگئے اور ایسے ویسے کیسے ہوگئے“کسی نادیدہ طاقت نے ”نہ بھاندے“کے ہاتھ پر اقتدار کی لکیر بنادی۔مسند نشینی کا اعلان ہوا تو معاً شاہ جی ذہن میں ابھرے،ساتھ گدھا گاڑی والی پیشگوئی بھی یاد آگئی۔ ہم نے سوچا لوجی شاہ صاحب کے شرمندہ ہونے کے دن آگئے ……مگر بعد میں پیدا ہونے والی صورتحال سے پتہ چلا کہ اب کی بار شرمندگی کے حق دار مسند نشین ہی ٹھہریں گے۔شاہ جی تو ”مشن امپو سیبل“کا ایک کل پرزہ تھے۔براہ راست تو ان پر ذمہ داری نہیں ڈالی جاسکتی۔وہ تو اصلاح احوال کی کوشش کرنے والے نیک نیت انسان ہیں جو اپنے ”مریض کے انتخاب میں بھی خود مختار نہیں۔بالکل اسی طرح جس طرح ان کا تازہ ”مریض“کچھ نہیں بہت سارے معاملات میں ابھی تک خود مختاری کی تلاش میں ہے:
ناحق ہم مجبوروں پر تہمت ہے مختاری کی
البتہ اپنے شانی شاہ کو ہمارا عاجزانہ مشورہ ہے کہ وہ آئندہ ”مریض“کے انتخاب سے قبل اس کا اچھی طرح جائزہ لے لیا کریں۔اگر اوپر تلے ان کے ”مریض“صحت یابی سے انکاری ہوتے رہے تو کہیں ان کا ”شفا خانہ“ہی بندش کے گھاٹ نہ اترجائے ”ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں“……مسند نشینوں کو تو ہم کوئی مشورہ دینے کی پوزیشن میں نہیں۔ویسے بھی وہ کسی سے مشورہ لینا چنداں پسند نہیں کرتے۔