کیا پنجاب میں رشوت کا ریٹ واقعی بڑھ گیا ہے؟

کیا پنجاب میں رشوت کا ریٹ واقعی بڑھ گیا ہے؟
کیا پنجاب میں رشوت کا ریٹ واقعی بڑھ گیا ہے؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


آخر ملتان ہی سے یہ آوازیں کیوں اُٹھ رہی ہیں کہ سرکاری دفاتر میں رشوت کے ریٹ دوگنا ہو گئے ہیں۔پہلے تحریک انصاف کے مقامی ایم این اے احمد حسین ڈہیڑ نے ا  پنی  پریس کانفرنس میں دہائی دے کر وزیراعظم عمران خان سے اپیل کی تھی کہ اس اہم مسئلے پر توجہ دیں، کیونکہ عوام میں حکومت کے خلاف نفرت جنم لے رہی ہے۔ اب تحریک انصاف ملتان ڈویژن کے صدر اور نظریاتی کارکن اعجاز حسین جنجوعہ نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ لگائی ہے،جس کے الفاظ یہ ہیں ”میرا سر شرم سے جھک جاتا ہے جب لوگ یہ کہتے ہیں آپ کی حکومت ٓانے کے بعد رشوت کے ریٹ ڈبل ہو گئے ہیں۔ عمران خان صاحب رشوت خور لوگوں کو سرکاری نوکری سے فارغ اور انہیں سخت سے سخت سزا دی جائے“…… پھر ایک اور پوسٹ میں انہوں نے یہ بھی لکھ دیا ہے ”وزیراعظم عمران خان صاحب آپ کی وجہ سے پوری دنیا میں پاکستان کی عزت و احترام میں اضافہ ہوا ہے، مگر آپ کے وزراء اور مشیروں کی وجہ سے اندرونی حالات بہت خراب ہیں“…… میں سوچ رہا ہوں کہ تحریک انصاف کا اگر ایک ایم این اے اور دوسرا ڈویژنل صدر اتنے کھلے طور پر اپنی ہی جماعت کی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں تو پھر پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) والے کیا غلط کہتے ہیں کہ ملک میں ہر طرف کرپشن کا راج ہے اور عوام کی زندگی اجیرن بنا دی گئی ہے۔ یہاں اب ڈرکس کا ہے۔ وزیراعلیٰ عثمان بزدار کا سرکاری افسروں کو تو کوئی خوف ہی نہیں رہا۔ پھر ملتان جیسے بڑے شہر میں افسروں کا جمعہ بازار لگا دیا گیا ہے، مگر ان پر کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں۔جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کی پخ لگا کر سیکرٹریوں کی فوج ظفر موج بھیجنے سے کیا ہوگا۔ کھانے والے کچھ اور بڑھ جائیں گے۔ بعض سیکرٹری تو ایسے تعینات کئے گئے ہیں جو اس علاقے میں جونیئر افسروں کے طور پر کرپشن کی کئی کہانیاں چھوڑ کر گئے۔


اگر پارٹی کا ذمہ دار عہدیدار یہ بیان دیتا ہے کہ لوگ رشوت کے ریٹ بڑھنے کی شکایت کر رہے ہیں، تو لازماً اس کے پاس لوگ یہ کہانیاں لے کر آتے ہوں گے کہ کون کیا کر رہا ہے۔ پنجاب میں اب یہ حال ہو چکا ہے کہ چھ مہینے سے بھی کم عرصے میں ضلع کے ڈپٹی کمشنرز اور کمشنرز تبدیل کر دیئے جاتے ہیں۔ یہی حال پولیس افسروں کا بھی ہے۔ ملتان میں تو کمشنرز بھی ہوا کا جھونکا بن کر آتے ہیں اور واپس چلے جاتے ہیں،  جانے پر کھلتا ہے کہ موصوف تو کرپشن کی گنگا بہا رہے تھے، بظاہر ان کے بیانات کرپٹ اہلکاروں کے خلاف سخت ایکشن لینے کے بیانیے پر مشتمل ہوتے۔ اب تو یہ بات بھی درست ثابت ہو رہی ہے کہ جو جتنا بڑا بدعنوان ہے وہ اتنی ہی زیادہ بدعنوانی ختم کرنے کی بڑھکیں بھی مارتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ سرکاری افسروں کی آئے روز تبدیلیاں کس بات کی مظہر ہیں۔ کیا ان تبدیلیوں کے پیچھے گڈ گورننس کی تلاش کا فلسفہ کار فرما ہے یا ان افسروں کو ایک خاص مدت کے لئے کوئی علاقہ ٹھیکے پر دیا جاتا ہے کہ اس عرصے میں جو لوٹ مار کر سکتے ہو کرو، اس کے بعد جس طرح موبائل کا بیلنس ختم ہو جاتا ہے، اسی طرح ان کے ٹھیکے کی مدت بھی ختم ہو جاتی ہے۔ شہباز شریف کے زمانے میں کسی افسر کی تبدیلی خوامخواہ نہیں ہوتی تھی، بلکہ اس کے پیچھے کوئی جواز کوئی وجہ موجود ہوتی یا اسے سزا کے طور پر کھڈے لائن لگایا جاتا یا پھر اچھی کارکردگی پر دوسرے شہر بھیج دیا جاتا۔ اب تو کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ چند ماہ بعد ایک افسر کو مظفر گڑھ سے اٹھا کر ڈی جی خان کیوں بھیجا جاتا ہے۔ لاہور سے تبدیل کرکے راولپنڈی کیوں تعینات کیاجاتا ہے۔ اگر افسر اچھا ہے تو اسے ایک شہر میں جم کر کام کرنے دیا جائے،  اگر بُرا اور کرپٹ ہے تو پھر فیلڈ ڈیوٹی سے مستقل طور پر ہٹا کر کسی غیر اہم پوسٹ پر تعینات کر دیا جائے۔ اب اگر افسروں کی آئے روز تبدیلیوں سے  یہ شبہات ابھر رہے ہیں کہ ان کی 7کلب روڈ میں لوٹ سیل لگی ہوئی ہے تو ان کا جواز خود عثمان بزدار حکومت فراہم کر رہی ہے۔


ایسا پہلی بار دیکھنے میں آ رہا ہے کہ ارکان اسمبلی اور سرکاری افسران میں گاڑھی چھن رہی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ ان دونوں میں ہمیشہ ٹھنی رہتی تھی، کیونکہ دونوں کے اپنے اپنے مفادات ہوتے تھے، مگر اس دور میں بیورو کریسی اور ارکان اسمبلی ایک پیج پر آ گئے ہیں۔ ویسے تو ہم آہنگی اچھی ہوتی ہے، لیکن جب عوام کے نمائندے بیورو کریسی سے مل جائیں تو عوام بے آسرا ہو جاتے ہیں۔ ملتان اس سلسلے میں بدترین صورتِ حال کا شکار ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ خود تحریک انصاف کے اندر سے آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔ یہ شائد پنجاب کا واحد ضلع ہے، جس کے ڈپٹی کمشنر کی تعریف کے لئے ملتان کے ارکانِ اسمبلی نے باقاعدہ پنجاب اسمبلی میں تعریفی قرارداد پیش کی۔ ارے بھائی کیا ڈپٹی کمشنر نے ملتان میں دودھ اور شہد کی نہریں بہا دی ہیں کہ آپ اسمبلی میں اس کی تعریف کے گُن گا رہے ہیں۔ کیا ملتان میں مثالی گورننس قائم ہو گئی ہے۔ کیا لوگوں کے مسائل بغیر رشوت کے حل ہونے لگے ہیں۔ کیا خلقِ خدا اپنے چھوٹے چھوٹے کاموں کے لئے دہائیاں نہیں دیتی پھر رہی۔ آپ کو عوام نے ووٹ اس لئے دیئے تھے کہ آپ ان کی آواز بنیں آپ ایک سرکاری افسر کی آواز بن گئے، کیونکہ وہ آپ کے ہر جائز ناجائز کام میں روڑے نہیں اٹکاتا۔ آپ کے بچوں کی سالگرہ پر انہیں گود میں اٹھا کر مہنگے تحائف دیتا ہے۔ یہ کون سی جمہوریت ہے جس میں جمہور کے لئے آواز اٹھانے والا کوئی نہیں۔ آپ نے کمشنر کو اس لئے تبدیل کر دیا کہ وہ یہ کام نہیں کرتا تھا، ڈپٹی کمشنر سے ضلع کے معاملات میں کبھی باز پرس کر لیتا تھا۔


یہ شائد اپنی نوعیت کا واحد دور ہے کہ جن میں پنجاب کے مختلف علاقوں کو بعض بااثر شخصیات کے سپرد کر دیا گیا ہے کہ وہ خود ہی سیاہ و سفید کے مالک ہیں۔ گجرات میں چودھری برادران کی اجارہ داری ہے اور بزدار حکومت صرف سہولت کار کے طور پر موجود ہے۔ بہاولپور میں طارق بشیر چیمہ نے اپنی فتوحات کے جھنڈے گاڑ رکھے ہیں۔ ان کی اجازت کے بعد کوئی افسر تبدیل ہو سکتا ہے اور نہ آ سکتا ہے۔ ملتان کو شاہ محمود قریشی نے گویا ٹھیکے پر لیا ہوا ہے۔ عثمان بزدار نے اس شہر کی طرف  سے آنکھیں بندکر رکھی ہیں،وہ ساری توجہ اپنے شہر ڈیرہ غازی خان پر مرکوز کئے ہوئے ہیں، اگر ملتان میں رشوت کے ریٹ بڑھ گئے ہیں اور خود تحریک انصاف کے عہدیدار اور رکن اسمبلی دہائی دے رہے ہیں تو شاہ محمود قریشی ان الزامات سے لاتعلق کیوں ہیں۔ وہ جب بھی ملتان آتے ہیں، انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ ضلع میں گورننس کی کیا صورت حال ہے اور عوام کے مسائل بڑھ رہے ہیں یا حل ہو رہے ہیں۔

انہیں صرف اس بات سے دلچسپی ہے کہ اس ضلع میں ان کی اجازت کے بغیر پتہ بھی نہ ہلے اور ہر محکمے کے افسران ان کی جی حضوری کرتے رہیں۔ ان کی خواہشِ حکمرانی کا عالم یہ ہے کہ گزشتہ دنوں ڈی سی ملتان کے دفتر میں ایک میٹنگ کے دوران وہ ڈپٹی کمشنر کی مخصوص کرسی پر جا بیٹھے، حالانکہ کسی سرکاری افسر کے لئے مختص کرسی پر بیٹھنا انتہائی معیوب سمجھا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے بھی شائد حالات سے سمجھوتہ کر لیا ہے۔ وہ اب کس کس کو ناراض کر سکتے ہیں، انہیں ضرور معلوم ہو گا کہ پنجاب میں گورننس جزیروں کی شکل میں چل رہی ہے اور ہر جزیرے کا ایک مالک بن بیٹھا ہے، مگر وہ خاموش اس لئے ہیں کہ کچھ کریں گے تو وسیم اکرم پلس کی تھیوری میں دراڑ پڑ جائے گی۔ جہاں تک وزیراعلیٰ عثمان بزدار کا تعلق ہے تو انہیں اس بات کی خوشی ہے کہ اب کم از کم لاہور میں ان کی حکومت پوری طرح جم کر کام کر رہی ہے، باقی صوبے سے غالباً انہیں اتنی دلچسپی بھی نہیں۔

مزید :

رائے -کالم -