قائد اعظم نے گاندھی سے کہا ” ہاں میں چھوٹا بھائی ہوں،وراثت میں حصے دار ہوں،بڑا حصہ ہندوستان کا تم لے لو اور چھوٹے بھائی کو کم والا حصہ دےدو“

تحریر : پروفیسر ڈاکٹر ایم اے صوفی
قسط: 39
ہندو اور مسلمان جُدا ہیں:
قائداعظم نے کہا:”ہندومعاشرے کا اپنا ڈھانچہ ہے۔ جو ہمارے ڈھانچے سے مختلف ہے یہ نہ صرف مختلف ہے۔ بلکہ بعض معاملات میں ایک دوسرے کی ضد ہے۔“
ہماری اپنی زبان ہے، ثقافت ہے، ہماری اپنی تقویم ،نام، سماجی زندگی ،طرزِ تعمیر اور موسیقی ہے۔ ہمارے معاشرے کا پورا سماجی اور اقتصادی سیٹ اَپ ہندوﺅں سے یکسر مختلف ہے۔ ہندو بت پرستی کے قائل ہیںہم نہیں۔ ہم مساوات ، حریت اور بھائی چارے کے قائل ہیں۔ ان پر ذات پات چھائی ہوئی ہے اور ذات پات کے بندھن میں جکڑے ہوئے ہیں۔یہی بات آپ نے 23مارچ1940ءکو قرار داد لاہور کے وقت 2 گھنٹے کی تقریر میں دہرائی ۔”معلوم نہیں کہ ہمارے ہندو دوست اسلام اور ہندومذہب کی اصل روح کو کیوں نہیں سمجھتے۔ یہ دونوں ایسے سوشل نظام ہیں جو ایک دوسرے سے بالکل علیٰحدہ اور مختلف ہیں۔ یہ محض خواب ہے کہ کبھی ہندو اور مسلمان ایک قوم ہو جائیں گے اور یہ غلط خیال ہے کہ ہندوستان ایک قوم ہو جائے یا قوم ہے۔
مسلمان اور ہندوﺅں کا فلسفہ حیات جُدا ، مذہبی عادات و اطوار جُدا، لٹریچر اور ادب جُدا۔ نہ وہ آپس میں شادی کریں ، نہ وہ ساتھ مل کر کھانا کھائیں۔ آپ نے ہمیشہ کہا کہ ہند کے مسلمانوں کی پوزیشن کو مضبوط کیجئے۔ جمہوراسلام آپ کے ساتھ ہیں۔ وہ آپ سے رہنمائی کے طالب ہیں۔ آپ رہنمائی کیجئے۔ خادم اسلام بن کر آگے بڑھیں اور تعلیم ، سیاست، اقتصادیات اور اجتماعیات میں مسلمانوں کی تنظیم کیجئے۔
مجھے یقین ہے کہ آپ ایسی قوت بن جائےں گے جس کا لوہا سب مان جائیں گے (یعنی ایٹم بم بنائیں)۔اگر تقسیم ہند نہ ہوتی تو ہندومسلمانوں کا حاکم ہوتا۔ مسلمان اپنے دکھوں سے مصالحت کی راہ تلاش کرتے۔ غربت ، محرومی مسلمان کا مقدر ہوتی۔زندگی کی ہر بات غیر یقینی ہوتی ۔ قائداعظمؒ نے اپنی ساری زندگی مسلمانانِ ہند کی ہمدردی ،سچی محبت میں تحفتاً دے دی۔زندگی کے آخری لمحوں تک،بیماری کی حالت سے پہلے اور بیماری کے دوران مسلمانوں کی ترقی میں خوشی محسوس کی ۔ان کا اصرار تھا کہ پاکستان غیر معمولی قوت کا حامل ہو جائے اور لوگ صرف روٹی ، پانی ، کپڑا اور مکان پر اکتفا نہ کریں۔ اہم بات یہ نہیں کہ ہم کیا کہتے ہیں۔اہم بات تو یہ ہے کہ ہم کیا کرتے ہیں؟ کیا ہمارا سب کچھ اپنی ذات تک محدود ہے۔ اسے وہ خودغرضی سمجھے یا دوسروں کو شریک محفل کیاجائے۔ دوسروں کو بھی خوشی میسّر آئے۔ دانائی علم و فہم کو عام کیا جائے۔ تعلیم ہر ایک کےلئے یکساںہو۔ انصاف اور کشادہ دلی ، خوشگوار زندگی کے راستے ہیں۔ دوسرے کے دکھ ختم کیے جائیں۔ پاکستان ایک خوشنما گھر ہے۔دوستی کاملہ ہے۔ ہر پاکستانی اپنے اندر پاکستان کےلئے دوستی کی اہلیت پیدا کرے۔بھائی چارہ پاکستانیت کا شیوہ ہو نہ کہ قتل و غارت۔ مذہب ہمیں دوستی سکھاتا ہے۔ حقیقی مسّرت اسی میں ہے کہ ہم ایک دوسرے کا دکھ بانٹیں۔غیرمضطرب ذہن کو ختم کریں۔ مصیبتوں ، طوفانوں میں ایک دوسرے کا ہاتھ بٹائیں۔
غلط سیاست بازی سے دور رہیں۔ وطن سے محبت ،پیار،لگن،قربانی کا جذبہ ہو۔ تمام غلط کام کی کشتی کو ڈبودیا جائے۔ سرکش لہروں، انسانوں کو ختم کیا جائے اور گرداب میں پھنسے ہوئے انسانوں کو باہر نکالا جائے۔یہ فلسفہ پاکستان ہے۔ دنیا کی تمام نعمتیں ہیں۔ زندگی کو خوشگوار بنانے یا لذت کا تصّور اسی وقت میسّر آئے گا۔جب دوسروں کی مدد کی جائے۔ پسندیدہ بات یہ ہے کہ پاکستان ایک مسکراتا ہوا دسترخوان ہے۔اسے خوشگوار،صاف ستھرا ،محفوظ بنائیں تاکہ آپ ساری نعمتوں سے لطف اندوز ہوں۔ہم کو خونخوار جانور نہیں ہونا چاہئے کہ ہم اپنے انسانوں ،پاکستانیوں کو آئے دن نشانہ بناتے ہیں۔ ایسا تو غاروں میں پناہ لینے والا انسان نہیں کرتا تھا۔ ہم کس قدروحشی ہو چکے ہیں۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ ہماری نشوونما رحم اور دوستی سے دور ہورہی ہے۔ہم نے قرآن اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ سے کچھ نہیں سیکھا۔ہم نے ترقی تجارت، جہازرانی، زراعت، تعمیراُمت، سیاست، صحافت،سائنس و ٹیکنالوجی،سفارتکاری اور دفاع میں کرنی ہے۔ ہماری دشمن سے مسلسل جنگ وجدل ہے۔ ہماری حیات مضبوط پاکستان میں ہے۔
پاکستان کیسے حاصل ہوا:
گاندھی کی بمبئی میں اچانک ملاقات محمد علی جناح سے ہوگئی۔ گاندھی جی نے کہا : مسٹر جناح ہم دونوں بھائی ہیں۔ مسٹر جناح نے فوراً جواب دیا۔ہاں میں چھوٹا بھائی ہوں۔وراثت میں حصے دار ہوں۔بڑا حصہ ہندوستان کا تم لے لو اور چھوٹے بھائی کو کم والا حصہ دے دو۔ایک دفعہ قائداعظمؒ بنگال میں جارہے تھے۔ دور ایک دیہاتی بچے نے قائد کی گاڑی دیکھی۔ مسلم لیگ کے جھنڈے دیکھے تو پاکستان زندہ باد کے نعرے لگانے لگا۔ قائدنے گاڑی رکوائی۔ بچے سے پوچھا پاکستان کیاہے؟اس نے جواب دیا جہاں مسلمان آبادہیں وہ پاکستان ہے۔ اس پر قائد نے کہا ایک دیہاتی بچے کو تو علم ہے کہ پاکستان کیاہے؟ گاندھی کو ابھی علم نہیں۔
جس کی رو سے وہ علاقے جو اب تک پاکستان میں داخل یا شامل ہو گئے ہیں اور ایسے دیگر علاقے جو آئندہ پاکستان میں داخل یا شامل ہو جائیں ایک وفاقیہ بنائیں جس کے ارکان مقرر کردہ حدود اربعہ و متعینہ اختیارات کے ماتحت خود مختار ہوں۔
جس کی رو سے اقلیتوں اور پسماندہ و پست طبقوں کے جائز حقوق کے تحفظ کا قرار واقعی انتظام کیاجائے۔ جس کی رو سے نظام عدل کی آزادی کامل طور پر محفوظ ہو۔
جس کی رو سے وفاقیہ علاقوں کی سا لمیت اس کی آزادی اور اس کے جملہ حقوق کا جن میں اس کی بروبحر اور فضا پر سیادت کے حقوق شامل ہیں،تحفظ کیا جائے تاکہ اہل پاکستان فلاح و خوشحالی کی زندگی بسر کرسکیں۔ اقوام عالم کی صف میں اپنا جائز اور ممتاز مقام حاصل کرسکیں اور امن عالم کے قیام اور بنی نوع انسان کی ترقی و بہبود میں کماحقہ اضافہ کرسکیں۔ ( جاری ہے )
کتاب ”مسلم لیگ اورتحریکِ پاکستان“ سے اقتباس (نوٹ : یہ کتاب بک ہوم نے شائع کی ہے، ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔ )