سماجی کارکن کیخلاف غداری کیس،وفاق کو 30ستمبر تک جواب کی مہلت

 سماجی کارکن کیخلاف غداری کیس،وفاق کو 30ستمبر تک جواب کی مہلت

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


لاہور(نامہ نگارخصوصی)لاہور ہائی کورٹ کے مسٹرجسٹس محمد شان گل نے سماجی کارکن عمار علی جان کے خلاف غداری اور اشتعال انگیز تقاریر کے مقدمہ کے اخراج کیلئے دائر درخواست پر وفاقی حکومت کی جواب داخل کرانے کی استدعا منظور کرتے ہوئے سماعت 30ستمبر تک ملتوی کردی،فاضل جج نے قراردیا عدالت نے صرف یہ دیکھنا ہے آئینی طور پر غداری کی دفعہ بنتی ہے یا نہیں، مقدمہ کے اخراج کا معاملہ عدالت نہیں دیکھے گی، کیس کی سماعت شروع ہوئی تو ایڈیشنل اٹارنی جنرل مرزا نصراحمد نے استدعاکی کہ وفاقی حکومت سے ہدایات لینے کیلئے کچھ وقت دیا جائے، فاضل جج نے استفسار کیا کہ اس کیس کا چالان پیش کیا جا چکا ہے؟ پنجاب حکومت کے وکیل نے کہا کہ مقدمہ کا چالان پیش کیا جا چکا ہے، عدالت نے حکومت کے وکیل کومخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہاں تو آج کل چلتی پھرتی غداری ہے، کل کو شائد آپ بھی غداری کے زمرے میں آ جائیں، درخواست گزار ڈاکٹر عمار علی جان کی طرف سے اسد جمال ایڈووکیٹس نے موقف اختیارکیا کہ سول لائنز پولیس نے سٹوڈنٹ مارچ کے دوران اشتعال انگیز تقریر کا الزام لگاکرمقدمہ درج کرکھاہے، مقدمہ میں غداری کی دفعات بھی بلاجواز شامل کی گئیں، درخواست گزار کے خلاف لگائے گئے الزامات ثابت نہیں ہوتے، ڈاکٹر عمار علی جان کے خلاف لگائے گئے الزامات آئین میں دیئے گئے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے، عدالت سے استدعاہے کہ اس مقدمہ کوخارج کرنے کاحکم دیاجائے،علاوہ ازیں نفرت انگیز تقاریر کے قانون کی بنیاد پر لوگوں کے حقوق سلب کرنے سے متعلق دائر درخواست پرعدالت نے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کرتے ہوئے رائے طلب کرلی ہے،درخواست گزار ڈاکٹرعمارکے وکیل عابدساقی کاموقف ہے کہ حکومت کے کے خلاف اگر کوئی اپنی رائے دیتا ہے تو یہ اسکا بنیادی حق ہے،حکومت کا کسی کے بیان کی بنیاد پرقدغن لگانا آئین کے آرٹیکل 19 کی خلاف ورزی ہے،124 (اے)کے تحت آزاد اظہار کو دبانے کا قانون غلط ہے،اس قانون پر نظر ثانی کرنی چاہیے،جب آزادی کی تحریکیں اٹھی اس وقت عوام میں بے چینی پیدا کرنے کے لئے یہ قانون بنایا گیا،اس قانون کے تحت قائداعظم اور دیگر پاکستان کی آزادی کی تحریک چلانے والے لیڈروں کو گرفتار کیاگیا،سیکشن 124(اے)تعزیرات پاکستان کو غیر آئینی قرار دیا جائے۔
 غداری کیس

مزید :

صفحہ آخر -