تحریک انصاف کے استعفے اور عدالتی فیصلہ
اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ سپیکر قومی اسمبلی کے اختیارات میں عدالت مداخلت نہیں کر سکتی۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے قومی اسمبلی کے ارکان کے استعفے مرحلہ وار منظور کرنے اور قومی اسمبلی کے نو حلقوں میں انتخابات کے خلاف دائر درخواستیں مسترد کر دیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کی طرف سے 123 ارکان اسمبلی کے استعفوں کی منظوری کا حکم بھی غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ارکان اسمبلی کے استعفوں کا ایک طریقہء کار موجود ہے جس سے ہٹ کر استعفے منظور نہیں کئے جا سکتے۔ عدالت نے یہ اہم ریمارکس بھی دیئے کہ ہمیں پارلیمنٹ کے بارے میں اپنی سوچ بدلنا پڑے گی، پارلیمنٹ کا احترام سب پر لازم ہے، ڈپٹی سپیکر کا بیک وقت 123 ارکان اسمبلی کے استعفے منظورکرنا قوانین اور عدالتی فیصلوں کے خلاف عمل تھا، عدالت پارلیمنٹ کے اختیارات میں مداخلت نہیں کرے گی۔ ارکان اسمبلی کے استعفے منظور کرنے کا ایک واضح طریقہء کار موجود ہے جس میں ہر رکن اسمبلی کوسپیکر کے سامنے پیش ہو کر اپنے استعفے کی تصدیق کرنا ہوتی ہے اس لئے اگر سپیکر نے 11ارکان اسمبلی کے استعفے منظور کیے تو انہوں نے لازماً ان کی تصدیق کی ہو گی، یہ ان کا اختیار ہے عدالت اس میں مداخلت نہیں کر سکتی ہے نہ ہی انہیں منظور کرنے یا نہ کرنے کا حکم جاری کیا جا سکتا ہے۔ یاد رہے کہ جب عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پیش کی گئی اور فیصلہ اتحادی جماعتوں کے حق میں آ گیا تو تحریک انصاف نے قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا تھا اور 123ارکان قومی اسمبلی نے اپنے استعفے قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کرا دیئے تھے جنہیں اس وقت کے قام مقام سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے ایک مشترکہ نوٹیفکیشن کے ذریعے منظور کرکے الیکشن کمیشن کو بھجوانے کی ہدایت دی تھی۔ راجہ پرویز اشرف قومی اسمبلی کے سپیکر بنے تو انہوں نے سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی کے اس نوٹیفکیشن کو مروجہ قواعد کے خلاف قرار دے کر روک لیا، الیکشن کمیشن نے بھی اس پر عملدرآمد نہیں کیا۔ سپیکر قومی اسمبلی کی طرف سے مرحلہ وار ارکان اسمبلی کو خطوط لکھے گئے کہ وہ اپنے استعفوں کی تصدیق کے لئے سپیکر قومی اسمبلی کے سامنے پیش ہوں مگر تحریک انصاف نے یہ کہہ کر اسے مسترد کر دیا کہ وہ استعفے دے چکے ہیں اس لئے اب دوبارہ پیش نہیں ہوں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تحریک انصاف نے ان استعفوں کی منظوری کے لئے پہلے عدالتی راستہ اختیار نہیں کیا اور معاملے کو جوں کا توں رکھا تاہم جب سپیکر قومی اسمبلی نے 123میں سے 11ارکان اسمبلی کے استعفے منظور کرکے الیکشن کمیشن کو بھجوا دیئے تو تحریک انصاف نے اسے امتیازی اقدام قرار دیا اور اس کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کر لیا۔ الیکشن کمیشن نے ان 11میں سے نو نشستوں پر انتخابات کا شیڈول بھی جاری کر دیا، تحریک انصاف نے اس فیصلے کو بھی عدالت میں چیلنج کر دیا۔ پی ٹی آئی کے وکیل کا موقف تھا کہ انتخابات کرانے ہیں تو 123 حلقوں میں بیک وقت کرائے جائیں صرف 11استعفے منظور کرکے الیکشن کمیشن کو بھیجنا بدنیتی کے زمرے میں آتا ہے۔ وکیل کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ موجودہ سپیکر کے پاس استعفوں کے نوٹیفکیشن کو واپس لینے کا اختیار نہیں تھا۔ یہ نکتہ بھی اٹھایا گیا کہ سپیکر نے جن 11ارکان اسمبلی کے استعفوں کو منظور کیا ہے وہ بھی تصدیق کے لئے سپیکر کے سامنے پیش نہیں ہوئے تھے مگر ان کے استعفے منظور کر لئے گئے جو امتیازی سلوک اور قانون کی خلاف ورزی ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے تحریک انصاف کے وکلاء کی قانونی بحث سننے کے بعد ان کے دلائل سے اتفاق نہیں کیا۔ اس موقع پر تحریک انصاف کے وکیل نے اس معاملے پر لارجر بنچ بنانے کی استدعا بھی کی جسے مسترد کر دیا گیا۔ عدالت نے اس موقع پر یہ بھی کہا کہ جب تک تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی قانونی طور پر مستعفی نہیں ہوتے تب تک انہیں اسمبلی میں اپنے حلقے کے عوام کی نمائندگی کرنی چاہیے، کیا یہ ان کا فرض نہیں کہ وہ پارلیمنٹ میں جائیں اور اپنا فرض ادا کریں؟
قومی اسمبلی سے استعفوں کے معاملے پر تحریک انصاف مسلسل ابہام کا شکار رہی ہے۔ بالفرض اگر تحریک انصاف کی قیادت استعفوں کے معاملے میں سنجیدہ ہے تو پھر سپیکر کے سامنے پیش ہو کر تصدیق کرنے میں کیا امر مانع ہے؟ عدالت کے فیصلے سے واضح ہو گیا ہے کہ سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی نے استعفوں کی منظوری میں قانونی تقاضے پورے نہیں کئے تھے، انہوں نے فرداً فرداً استعفوں کی تصدیق نہیں کی تھی اس لئے جب یہ بات سامنے آ چکی تھی تو ارکان اسمبلی کو سپیکر قومی اسمبلی کی طرف سے لکھے گئے خطوط کا مثبت جواب دیتے ہوئے تصدیق کے لئے پیش ہونا چاہیے تھا، تحریک انصاف ابھی تک اپنے اجتماعی استعفوں کے حق میں بھی کوئی ٹھوس جواز فراہم نہیں کر سکی، بظاہر یہ ایک جذباتی فیصلہ نظر آتا ہے جس کا تحریک انصاف کو کچھ خاص سیاسی فائدہ بھی نہیں ہوا۔ اس سے بہت بہتر تھا کہ تحریک انصاف قومی اسمبلی میں موجود رہتی اور ایک مضبوط اپوزیشن کا کردار ادا کرتی لیکن عمران خان نے شاید یہ بہتر سمجھا کہ وہ جلسوں کے ذریعے اپنے حامیوں سے رابطہ رکھیں اور ان کا لہو گرماتے رہیں،آج عمران خان اپنی تقریروں میں اس بات کا اکثر اظہار کرتے ہیں کہ اتحادی حکومت نے نیب قوانین کے معاملے پر امتیازی قانون سازی کی ہے اور اپنے کیس ختم کرالئے ہیں۔ وہ ان قوانین کے خلاف عدالت میں بھی جا چکے ہیں مگر کیا یہ اچھا نہ ہوتا کہ وہ اسمبلی میں رہ کر ان قوانین کی مخالفت کرتے، حکومت کو ان کی منظوری کے وقت ٹف ٹائم دیتے۔ سپریم کورٹ بھی یہ کہہ چکی ہے کہ تحریک انصاف نے قومی اسمبلی کے اندر ان قوانین کی مخالفت کرنے کی بجائے عدالت کا راستہ اختیار کیا ہے۔ تحریک انصاف اگر واقعی چاہتی تھی کہ استعفے منظور کئے جائیں تو اسے سپیکر کے سامنے پیش ہونے میں تامل سے کام نہیں لینا چاہیے تھا، اس ضد پر اڑے رہنا کہ چونکہ ایک بار استعفے دے چکے ہیں اس لئے دوبارہ پیش نہیں ہوں گے اسی کنفیوژن کو ظاہر کرتا ہے جس کا شکار تحریک انصاف کی قیادت ہے اور اب جب عدالت کا فیصلہ بھی آ چکا ہے تو تحریک انصاف کو اس ابہام سے نکل کر یہ طے کرنا چاہیے کہ وہ موجودہ حالات میں کیا کرنا چاہتی ہے۔ تحریک انصاف نے اس سے قبل بھی 2014ء میں اجتماعی استعفے دیئے تھے اور پھر اسمبلی کی مدت ختم ہونے تک ان استعفوں کا معاملہ یونہی لٹکتا رہا تھا کیونکہ اس وقت کے سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے بھی اراکین کو ان کے سامنے پیش ہوکر استعفوں کی تصدیق کرانے کی ہدایت کی تھی لیکن اس پر عمل نہیں ہوا۔ مستعفی ہونے کے باوجود پی ٹی آئی 2018ء تک قومی اسمبلی کا حصہ تو رہی لیکن اس نے اسمبلی میں بطور اپوزیشن کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ تحریک انصاف ایک بار پھر ماضی کو دہرا رہی ہے جو نہ صرف پارلیمانی روایات کے خلاف ہے بلکہ اسمبلی میں نمائندگی نہ ہونے کے باعث تحریک انصاف کے ووٹر کا بالخصوص جبکہ عوام کا بالعموم نقصان ہو رہا ہے۔ موجودہ ملکی حالات کے پیش نظر بہتر تو یہی ہے کہ ملک کی بڑی سیاسی جماعت ہونے کے ناتے تحریک انصاف کو اسمبلی میں واپس جاکر بطور جاندار اپوزیشن اپنے ووٹرز اور عوام کی بھرپور ترجمانی کرنی چاہیے۔