جنگ ستمبر والے جذبے کی ضرورت!
آج جب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں تو پورے ملک میں یوم فضائیہ کی تقریبات سادگی سے ادا کی جا رہی ہیں کہ ملک کی سیلابی کیفیت کی وجہ سے مسلح افواج نے یوم دفاع کی تقریبات موخر کر دی ہیں کیونکہ سیلاب سے متاثر بھائی بہنوں کا تحفظ اب اصل ضرورت ہے تاہم گزشتہ روز (6 ستمبر) اور آج بھی شہدا کی یادگاروں پر حاضری دی گئی، ان کو سلیوٹ کیا اور ایصال ثواب کے لئے فاتحہ خوانی کی گئی، آج کراچی میں راشد منہاس (نشان حیدر) کی قبر پر بھی حاضری ہوئی سلامی دی گئی اور فاتحہ خوانی کی گئی یہ سطور لکھتے وقت میری آنکھوں کے سامنے 57 سال پہلے کی پوری تصویر ایک فلم کی طرح چل رہی ہے، مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ نہ صرف سول ڈیفنس میں شامل ہو کر راتوں کو پہرے دیئے بلکہ دن کے اوقات میں بھارتی حملے سے سیز فائر اور بعد ازاں افواج کی واپسی تک رپورٹنگ بھی کی، الحمد للہ اس میں اللہ نے سرخرو کیا۔ اس کے بعد صرف 6 سال کے بعد مجھے 1971ء کی جنگ کا حال بھی رپورٹ کرنے کا موقع ملا اور دو صدمات سے بھی دو چار ہوا۔ پہلا صدمہ اپنے والد چودھری احمد الدین کی وفات کا تھا جو یہ لڑائی شروع ہونے والے روز دنیا سے رخصت ہو کر اللہ کو پیارے ہوئے اور اگلے ہی روز فضا میں طیاروں کی گونج تھی یہ بھی امر واقع ہے کہ 1965ء میں کوریج روزنامہ امروز کے لئے اور 1971ء میں روز نامہ مساوات کے لئے کی۔
میں آنکھوں کو ذرا جھکاؤں تو دل سے ہوک اٹھتی ہے کہ وہ کیا دور اور کیا قومی جذبہ تھا کہ بھارت کی طرف سے مسلط کردہ جنگ کا مقابلہ مکمل یکجہتی سے ہوا اور پوری قوم سیسہ پلائی دیوار بن کر فوج کے ساتھ کھڑی ہو گئی تھی حتیٰ کہ جرائم سے گناہ گار بھی تائب ہو گئے مجھے یہ بھی یاد ہے کہ تب میں اپنے آبائی محلے ہی میں تھا اور تھانہ اکبری گیٹ کے ایس ایچ او سلیم خان تھے۔ ان سے برادرانہ تعلقات تھے اس لئے رات کے وقت میں اپنے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ گشت پر نکلتا تو تھانے میں بھی چلا جاتا تھا۔ سلیم خان موجود ہوتے تو حالات حاضرہ پر گفتگو ہو جاتی تھی اس تھانیدار کو بھی فخر محسوس ہوتا تھا کہ جنگ کے دوران کوئی بھی شکایت موصول نہیں ہوتی۔
میں اپنی بات کا آغاز اس روز (6ستمبر) سے کرتا ہوں جب دشمن نے اچانک حملہ کر کے بین الاقوامی سرحد عبور کی اور ہمارے بہادر اور شجاع فوجیوں نے اسے باٹا پور نہر والی سڑک کے پار ہی روک لیا کہ بھارتی فوج ٹینکوں کی آڑ میں واہگہ سرحد عبور کر کے وہاں متعین رینجرز کو شہادت کے رتبے پر فائز کر کے جلو تک آ گئی تھی۔ جہاں اسے زبردست مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور اس کا ایک ٹینک 3 بلوچ کے کمانڈر تجمل حسین ملک (میجر جنرل (ر) مرحوم) کی طرف سے اینٹی ٹینک گن کے فائر سے لڑکھڑا کر رک گیا اور ٹینکوں کی آڑ میں ایڈوانس کو بھی بریک لگی اور پھر اگلا کام ہمارے شاہینوں نے کیا جو اطلاع ملتے ہی تعاون کے لئے آ گئے اور ہمارے دو طیاروں نے ٹینکوں کی قطار کو نشانہ بنا کر تہس نہس کیا تھا۔
آج یوم فضائیہ ہے کہ ہماری ایئر فورس مسلح افواج کی مدد کے بعد 7 ستمبر کو حرکت میں آئی اور پھر بھارتی طیارے ان کا نشانہ بنتے چلے گئے کس کس بہادر کا نام لیا جائے۔ ایم ایم عالم سے سہیل چودھری (مرحوم) تک داستانیں بکھری ہوئی ہیں اور شاہینوں نے جو کارنامے سر انجام دیئے وہ بھی تاریخ کا حصہ ہیں۔ ایم ایم عالم نے پانچ بھارتی طیاروں کو اکیلے ہی تباہ کیا تو سیسل چودھری کی قیادت میں بھارت کے اہم ہوائی اڈے ہلواڑہ نشانہ بنا کر طیارے تباہ کر دیئے گئے اور دشمن چیختا رہ گیا۔ میں نے ابتدا میں راشد منہاس شہید کا ذکر کیا تو ہماری فضائیہ کی بھی اپنی پوری تاریخ ہے اس نوجوان تربیتی پائیلٹ نے جو کارنامہ دکھایا وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ ایک غدار کو اس کے غداری عمل میں کامیاب نہ ہونے دیا اور طیارے سمیت اسے فنا کے گھاٹ اتارا اور خود شہادت قبول کر لی۔
میں 1965ء کی دفاعی جنگ کا شاہد ہوں تو 1971ء والے عمل سے بھی واقف ہوں۔ معرکہ باٹا پور کا حافظ ہوں اور کئی بار لکھ چکا ہوں آج تو ابتدائی واقع کا ذکر کر کے موجودہ حالات پر آتا ہوں یہ 6 ستمبر 1965ء کی صبح کا ذکر ہے کہ میں معمول کے مطابق اپنے اخبار کے دفتر آیا، ایڈیٹر ظہیر بابر (مرحوم) کے دفتر میں میٹنگ جاری تھی کہ یکایک دھماکوں کی آواز آئی سب لوگ گھبرا کر نیچے اترے اور سڑک کے کنارے میوہسپتال کی آؤٹ ڈور والی دیوار کے ساتھ کھڑے ہو گئے بات شروع ہوئی تو لوگوں سے سنا کوئی طیارہ گزرا ہے اور اس کی آواز تھی مجھے اچانک کچھ روز پہلے کی خبر یاد آ گئی اور میں نے کہا کہ یہ ایف 16 کی آواز ہو گی جو ساؤنڈ بیریر کراس کرنے سے ہوتی ہے۔ عبداللہ ملک (مرحوم) چیف رپورٹر برہم ہو گئے اور ڈانٹ کر کہا جاؤ گوالمنڈی جا کر دیکھو یہ کوئی بم گرا ہے۔ یہ لمحات کا کھیل تھا اور پھر سب کو علم ہو گیا اور صدر ایوب کی تاریخی تقریر بھی سن لی گئی میں اور مرحوم یعقوب بھٹی (فوٹو گرافر) واہگہ کی طرف روانہ ہو گئے جب ہم ریلوے سٹیشن سے جی ٹی روڈ کی طرف مڑے تو عوام کا ہجوم نعرے لگاتا اسی طرف جا رہا تھا، شالیمار باغ سے ذرا آگے بڑھے تھے کہ فوجی جوانوں نے روک لیا جو پر جوش لوگوں کو درخواست کر کے واپس کر رہے تھے کہ جنگ شروع ہو چکی ہے، آپ حضرات واپس جائیں اور ہدایات پر عمل کریں ہمیں بھی روک لیا گیا اور واپس بھیج دیا پھر 17 روزہ جنگ میں کوریج وہ تھی جو سرحد سے دور رہتے ہوئے شہریوں کے جذبات اور حالات کے بارے میں تھی۔ فائر بندی کے بعد ہی مجھے اور یعقوب بھٹی کو بیٹری انچارج میجر اسماعیل اور 3 بلوچ کے کیپٹن اقبال چیمہ کے تعاون سے کمانڈر تجمل ملک سے اجازت ملی اور ہم افواج کی واپسی تک سرحدوں پر آتے جاتے اور تاریخ مرتب کرتے رہے۔
اس بارے میں میں کئی بار لکھ چکا ہوں، آج تو میں یہ عرض کروں گا کہ 1965ء کا جذبہ اور خلوص و محبت کہاں چلا گیا؟ میں تلاش کے باوجود نہیں ڈھونڈھ پاتا آج معاشی حالات ابتر ہیں اس پر آسمان سے پانی نے سیلابی کیفیت پیدا کر دی ملک کے سبھی علاقے متاثر ہیں۔ بلوچستان، سندھ، جنوبی پنجاب، خیبرپختون خوا کے شہر بہت بری طرح متاثر ہیں، تین کروڑ سے زیادہ پاکستانی افراد بے گھر، ہزاروں وفات پا گئے گاؤں کے گاؤں زمین بوس ہوئے۔ سڑکیں بہہ گئیں، ریلوے لائنیں ٹوٹ کر بکھر گئیں، راستے مسدود اور سفر بھی مشکل ہو گیا۔ یہ وقت اسی جذبے کا تقاضہ کرتا ہے جو دشمن کی طرف سے جنگ مسلط کرنے پر ہوا۔دکھ تو یہ ہے کہ آج ہماری سیاسی جماعتیں اور اکابرین ان کے دکھ بھول کر اپنی انا کی تسکین کے لئے برسر پیکار ہیں۔ آئین و قانون اور قومی یکجہتی کا مذاق اڑایا جا رہا ہے کپتان کو فکر نہیں اس پر کوئی دلیل اثر نہیں کرتی وہ جلسے پر جلسے کئے جا رہا ہے۔ جو منہ میں آتا ہے کہہ دیتا ہے معلوم نہیں کہ بنی گالا کے محل میں رہتے ہوئے ہمیں کس آزادی کی نوید سنا رہا ہے جبکہ اس کے عمل سے ہماری افواج کی توہین ہو رہی ہے۔ یہ وقت مکمل اتحاد و یکجہتی کا ہے اگر یہ ممکن نہیں تو خاموشی بہتر ہے۔ متاثرین کی مدد زبانی نہیں عملی کی جائے بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے صرف یہ درخواست کر کے ختم کرتا ہوں کہ اللہ کے واسطے قوم و ملک پر رحم کرو!