رنجیت سنگھ نے پنجاب کو انگریزوں کے بعد برصغیر کی دوسری بڑی طاقت بنا دیا

 رنجیت سنگھ نے پنجاب کو انگریزوں کے بعد برصغیر کی دوسری بڑی طاقت بنا دیا
 رنجیت سنگھ نے پنجاب کو انگریزوں کے بعد برصغیر کی دوسری بڑی طاقت بنا دیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 مصنف: پروفیسر عزیز الدین احمد
قسط:38 
رنجیت سنگھ کا سنہری دور 
رنجیت سنگھ کے لاہور کے تخت پر بیٹھنے سے پہلے پنجاب ایک ایسے خطے کا نام تھا جس کی حدود اور سرحدوں کا تعین پوری طرح نہیں ہوا تھا۔ رنجیت سنگھ کے دور اقتدار میں تاریخ میں پہلی بار پنجاب ایک ایسا خودمختار علاقہ بن گیا جس کی باگ ڈور پنجاب کی سرزمین سے تعلق رکھنے و الے ایک مایہ ناز فرزند کے ہاتھ میں تھی۔ رنجیت سنگھ نے پنجاب کو متحد کیا، اسے مضبوط بنایا، اس کے دفاع کے لیے ایک جدید طرز کی فوج قائم کی اور پورے علاقے میں عدل و انصاف کی بنیادیں استوار کیں۔ اس موضوع پر مزید کچھ لکھنے سے پہلے مناسب ہو گا کہ اس زمانے کا جائزہ لیا جائے جس میں رنجیت سنگھ پنجاب کے خطے کو ایک سلطنت میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہوا۔ 
رنجیت سنگھ کے مہاراجہ بننے سے پہلے 92 سال کا عرصہ پنجاب میں افراتفری اور انتشار کا زمانہ تھا۔ سچ پوچھیں تو پوری اٹھارویں صدی پنجابیوں کے لیے مشکلات اور نقصانات کی صدی بنی رہی جس میں نادر شاہ کا حملہ، احمد شاہ ابدالی کے 9 حملے، مرہٹوں کی یلغار اور سکھ گردی کی لوٹ نے پنجاب کے عوام کا جینا حرام کر رکھا تھا۔ رہی سہی کسر اس صدی کی 2قحط سالیوں نے پوری کر دی کھیتی باڑی برباد ہو گئی اور لوگوں کے کاروبار چوپٹ ہو گئے۔ وہ کاشتکار اور تجارت پیشہ افراد جو نقل مکانی کر سکتے تھے علاقہ چھوڑ کر ملک کے دوسرے حصوں میں جا کر آباد ہو گئے۔ پروں والے اڑ گئے اور بے پروں کا خدا حافظ۔ انہیں دگرگوں حالات کو دیکھتے ہوئے بلھے شاہ نے پردرد الفاظ میں کہا تھا۔ 
جدوں اپنی اپنی پے گئی 
دھی ماں نوں لٹ کے لے گئی 
منہ بارھویں صدی پساریا 
سانوں آمل یار پیاریا 
درکھلا حشر عذاب دا 
برا حال ہو یا پنجاب دا 
ڈر ہاوئیے دوزخ ماریا 
سانوں آمل یار پیاریا
پنجاب کے عوام بیرونی حملہ آ وروں کے ہاتھوں بھی لٹتے رہے اور ملکی لٹیروں کے ہاتھوں بھی۔ ایک دن احمد شاہ ابدالی مالیہ وصول کرنے کے لیے آدھمکتا تھا تو دوسرے دن لٹیرے سکھوں کی کسی مسل کا سردار راکھی کے نام پر پیداوار کا پانچواں حصہ مانگنے آ جاتا۔ لاہور کے کئی مغل اور ترک حاکم بھی لوٹ مار کی وجہ سے بدنام تھے۔ 1755ءمیں لاہور کے گورنر خواجہ عبداللہ خان نے خالی خزانہ بھرنے کےلئے جو اندھیر مچایا اس کے نتیجے میں کہاوت مشہور ہو گئی۔ 
حکومت نواب عبداللہ 
رہی چکی، نہ رہیا چلھا 
اٹھارویں صدی کے نصف آخر میں پنجاب میں مسلسل لوٹ مار کی گئی۔ سکھوں کی 12مسلوں نے مختلف علاقے آپس میں بانٹ لیے۔ یہاں تک کہ پنجاب کے5 دو آبوں میں سے4 ان کے زیر تسلط آ گئے۔ طاقتور زمینداروں نے اپنے اپنے فوجی دستے بنا کر خود مختاری کا اعلان کر دیا۔ سندھ ساگر دوآب میں گکھڑ اور ٹوانے، چج دو آب میں وڑائچ، رچنا میں چیمے چٹھے، باجوے، بٹالہ میں رندھاوے، قصور میں افغان، کپور تھلہ میں راجپوت، جالندھر دوآب میں افغان، جھنگ میں سیال، اور ساہیوال میں بلوچ خود مختار بن گئے۔ پنجاب میں ہر طرف افراتفری اور نفسانفسی کا عالم تھا۔ 
ٹکڑوں میں بٹے ہوئے پنجاب کو رنجیت سنگھ نے انتہائی سوجھ بوجھ اور دانشمندی کے ساتھ متحد کیا۔ اس نے پرزہ پرزہ جوڑ کر پنجاب کو انگریزوں کے بعد برصغیر کی دوسری بڑی طاقت بنا دیا۔ جب تک وہ زندہ رہا نہ تو انگریزپنجاب پر قبضہ کر سکے نہ کابل کے افغانوں کو جرأت ہوئی کہ وہ نادر شاہ اور احمد شاہ ابدالی کی طرح پنجاب پر چڑھائی کریں۔ پنجاب میں ہر طرف امن و سکون کی فضا پیدا ہوئی۔ رنجیت سنگھ کے دو ر اقتدار کے میں حملہ آوروں کے لیے پنجاب کا دروازہ بند رہا۔ کسی کو ہمت نہ ہوئی اس کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھتا۔ رنجیت سنگھ کا پنجاب پر سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ اس نے اسے اکٹھا کر کے متحد کر دیا، امن و امان مہیا کیا اور پنجاب کے عوام کو لوٹ مار سے تحفظ فراہم کیا۔ پنجاب کو پہلی مرتبہ پنجابی قیادت مہیا کی۔ ( جاری ہے ) 
نوٹ : یہ کتاب ” بُک ہوم“ نے شائع کی ہے ۔ ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں )۔

مزید :

ادب وثقافت -