ابھی اُسے آئے4 مہینے ہی ہوئے تھے، وہ جوان تھا اور بہت جان والا بھی
مصنف : اپٹون سنکلئیر
ترجمہ :عمران الحق چوہان
قسط:10
یورگس کام کے متعلق ہمیشہ لاپروائی سے بات کرتاتھا کیوں کہ وہ جوان تھا۔ لوگ اسے شکاگو کے مویشی باڑوں(stockyards) میںکام کرنے والوں کی مصیبتوں اور بعد میں ان پر گزرنے والی صورت ِ حال کا بتاتے۔ ان کہانیوں کو سن کر کسی کے بھی رونگٹے کھڑے ہوجاتے لیکن یورگس انھیں ہنسی میں اڑا دیتا۔ابھی اسے آئے4 مہینے ہی ہوئے تھے، وہ جوان تھا اور بہت جان والا بھی۔اس کی جوانی پھٹی پڑتی تھی۔ اسے سمجھ نہیں آتا تھا کہ کیسے کوئی بے بس ہوکر ہار مان سکتا ہے۔ ” یہ تم جیسے کم زور لوگوں کی باتیں ہیں۔“ وہ انھیں جواب دیتا، ”میری پیٹھ تم سے بہت زیادہ چوڑی ہے۔“
یورگس ایک لڑکا سا تھا۔ گاؤں سے آیا ہوا ایک لڑکا۔اسے دیکھ کر کارخانے کے مالک اسے ملازم رکھنے کی خواہش کرتے تھے۔جب اسے کسی جگہ جانے کے لیے کہا جاتا، وہ بھاگتا ہوا جاتا۔ جب کسی وقت اس کے پاس کرنے کو کچھ نہ ہوتا تو بھی کچھ نہ کچھ اچھل کود کرتا ہی رہتا۔ اس کے اندر بھری طاقت اسے نچلا نہیںبیٹھنے دیتی تھی۔ اگر وہ ایسا کام کر رہا ہوتا جس میں اسے مردوں کی قطار میں کھڑا ہونا پڑتا تو اسے لگتا کہ قطار بہت آہستہ حرکت کر رہی ہے اور دیکھنے والا اس کی بے چینی اور بے صبری کی وجہ سے اسے دور ہی سے شناخت کر لیتا تھا۔ اسی وجہ سے ایک خاص موقع پر اسے چُنا بھی گیا تھا۔یورگس کو شکاگو آئے ابھی دوسرا دن تھا اور اسے براؤن اینڈ کمپنی کے ” سنٹرل ٹائم اسٹیشن“ کے باہر کھڑے آدھ گھنٹا ہی ہوا تھا کہ افسروں میں سے ایک نے اسے اشارہ کیا۔ اسے خود پر بہت غرور محسوس ہوا اور یاسیت پسند لوگوں پر ہنسی بھی آئی۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ جس بھیڑ میں سے اسے چنا گیا تھا اس میں بعض لوگ کئی کئی ماہ سے کھڑے تھے۔” ہاں ہاں، ان لوگوں کو دیکھا ہے ؟ مریل، کم زور اور بے کار لوگ۔ “ وہ جواب دیتا،” جو اپنی ساری کمائی شراب پر اڑا دیتے ہیں، اور پھر مزدوری کرنے چلے آتے ہیں تاکہ پھر شراب پی سکیں۔تم مجھے یقین دلا نا چاہتے ہو کہ ان بازوؤں کے ساتھ۔۔۔“ وہ اپنی مٹھیاں بھینچ کر بازو اٹھاتا اور اپنے ڈولے دکھاتا۔” کوئی مجھے یہاں بھوکا مرنے دے گا؟“
” تمھاری طاقت کی وجہ یہ ہے،“ وہ اسے جواب دیتے، ” کہ تم گاؤں سے آئے ہو اور بہت دور سے۔“ اور یہ بات سچ تھی کیوں کہ یورگس نے پیسا کمانے اور اونا کو حاصل کرنے کےلئے دنیا میں نکلنے سے پہلے کبھی کوئی شہر بلکہ کوئی قصبہ بھی نہیں دیکھا تھا۔اس کا باپ، باپ کا باپ اور اس سے پہلے جہاں تک خاندانی تاریخ جاتی تھی، وہ لیتھواینیا کے اس علاقے میں رہتے آئے تھے جسے بریلو وِچ یعنی شاہی جنگل کہا جاتا تھا۔یہ لاکھوں ایکڑ پر پھیلا علاقہ تھا جو صرف شرفاءکے شکار کےلئے مخصوص تھا۔ وہاں بہت تھوڑے سے کسان تھے جن کے پاس قدیم وقتوں سے اپنی ملکیتی زمین تھی۔ انہی میں آنٹاناس رَڈکس بھی تھا۔ اس نے اس جنگل میں تقریباً12 ایکڑ رقبے پر خود کو اور اپنے بچوں کو پالا تھا۔یورگس کے علاوہ بھی اس کا ایک بیٹا اورایک بیٹی تھی۔ بیٹے کو فوج میں جبری بھرتی کرلیا گیا اور دس سال سے اس کی کوئی خیر خبر نہیں آئی تھی۔ بیٹی کی شادی ہو چکی تھی اور جب بوڑھے آنٹاناس نے بیٹے کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا تو زمین اس کے داماد نے خرید لی تھی۔
ڈیڑھ سال پہلے گھر سے لگ بھگ 100 میل دور گھوڑوں کے میلے میںیورگس کی ملاقات اونا سے ہوئی تھی۔ یورگس نے کبھی شادی کا تصور بھی نہیں کیا تھا۔ وہ اسے آدمیوں کو پھانسنے کا احمقانہ پھندا سمجھتا تھا، لیکن وہاں، اونا سے کوئی بات بھی کیے بغیر، پانچ چھے بار مسکراہٹوں کے تبادلے کے بعد، لال سرخ چہرے، گھبراہٹ اور خوف کے عالم میں اس نے ان 2 گھوڑوں کے عوض، جو وہ بیچنے لایا تھا، اونا کے والدین سے اونا کا ہاتھ مانگ لیا۔اونا کا باپ پتھر دل تھا۔ لڑکی ابھی بہت چھوٹی تھی۔ وہ خود بہت امیر آدمی تھا اور اپنی بیٹی اس طرح کسی کے حوالے کرنے کو تیار نہیں تھا۔ یورگس بوجھل دل کے ساتھ گھر لوٹ گیا اور موسم ِ بہار اور گرمیوں میں محنت مشقت کر کے اسے بھولنے کی کوشش کرتا رہا۔سرما میں جب فصل اٹھ گئی اور اسے یقین ہو گیا کہ اسے بھولنا ممکن نہیں ہے تو پیدل2 ہفتوں کا سفر کر کے اونا کے گھر پہنچ گیا۔
جو حالات اس نے دیکھے وہ بہت غیر متوقع تھے۔ لڑکی کا باپ مر چکا تھا اور اس کی جائیداد قرضوں میں جکڑی پڑی تھی۔ یہ سوچ کر کہ اب انعام اس کی پہنچ میں ہے یورگس کے دل میں خوشی کی لہر اٹھی۔گھر میں اونا کی سوتیلی ماں آنٹ الزبیٹا تھی اور اس کے 6 بچے۔اس کے علاوہ اس کا بھائی یونس بھی تھا۔ ایک سوکھا سڑا آ دمی جو جائیداد کی دیکھ بھال کرتا تھا۔ جنگل سے نئے نئے نکلے ہوئے یورگس کو یہ لوگ بہت اہم اور خوش حال لگے۔ اونا کو لکھنا پڑھنا اور دیگر ایسے بہت سے کام آتے تھے جو اسے نہیں آتے تھے۔ ان کی زمین بک چکی تھی اور خاندان بے گھر ہو چکا تھا۔ ان کی کُل جمع پونجی700 روبل تھے جن کی مالیت ڈالروں میں نصف بنتی تھی۔ انھیں اس سے3 گنا رقم مل سکتی تھی لیکن معاملہ عدالت میں چلا گیا اور جج نے ان کے خلاف فیصلہ دے دیا اور اس کا فیصلہ بدلوانے کی لاگت بہت زیادہ تھی۔ ( جاری ہے )
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔