1999ء میں خوفناک زلزلہ آیا 40 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو گئے، اس خوفناک انسانی المیے کے باوجود ترکی معاشی حالت بہتر بنانے میں کامیاب ہو گیا

Sep 08, 2024 | 12:45 AM

مصنف:جسٹس (ر) بشیر اے مجاہد 
 قسط:16
ترکی میں فوج نے حکومت پر قبضہ کر لیا۔ جنرل جمال گرسل نے عدنان مندریس کو 1960ء میں پھانسی کی سزا دی اور ان کے ساتھیوں کو گرفتار کر لیا۔ پھر اس کے بعد ترکی میں اقتدار کی سیاسی رسہ کشی شروع ہو گئی اور 1979ء میں مزید 6  صوبے مارشل لاء کے زیر عتاب آ گئے۔ جنرل کنعان ایورن نے 11 ستمبر 1980ء کو اقتدار پر قبضہ کر لیا تاہم 1983ء میں جمہوریت کو بحال کر دیا گیا اور اس کے بعد 1989ء میں ترگت اوزال کو 7 سال کے لئے صدر بنا دیا گیا مگر اپریل 1993ء میں سابقہ وزیراعظم سلیمان ڈیمرل ملک کے صدر منتخب ہو گئے۔ اس طرح ملک میں وزارتوں اور سیاسی حکومتوں کی آمدورفت کا سلسلہ جاری رہا۔ ترکی میں 1999ء میں ایک خوفناک زلزلہ آیا جس میں 40 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو گئے۔ اس خوفناک انسانی المیہ کے باوجود ترکی اپنی معاشی حالت کو برقرار رکھنے بلکہ بہتر بنانے میں کامیاب ہو گیا۔ جنوری 1999 ء میں بلند ایجوت اور ان کے بعد طیب اردگان ترکی کے وزیراعظم بنے۔
اس وقت ترکی میں پارلیمانی جمہوری نظام حکومت ہے۔ عبداللہ گل صدر اور طیب اردگان وزیراعظم ہیں۔ ترکی کا دارالحکومت انقرہ ہے جبکہ ترکی کا سب سے بڑا شہر استنبول ہے۔ انتظامی لحاظ سے ترکی کو 81 صوبوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ جن میں سے 19 صوبوں کی آبادی 10 لاکھ افراد سے بھی متجاوز ہے جبکہ بقیہ صوبوں کی آبادی بھی تقریباً ایک ملین ہے۔ نسلی لحاظ سے ملک کے 80 فیصد افراد ترک النسل سے ہیں اور 20 فیصد افراد کُرد نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ ملکی آبادی میں 98 فیصد مسلمان ہیں۔ ملک کا موسم سردیوں میں شدید سرد اور درجہ حرارت منفی 30 سے 40 ڈگری تک بھی ریکارڈ کیا گیا ہے۔
ترک حکومت جمہوری ہے مگر وہاں سیکولر ازم ہے۔ مذہب عوام کا نجی معاملہ ہے۔ اس کا ریاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ تمام مذاہب اور عقائد کو آزادی ہے مگر وہاں اسلام ہی غالب ہے اور کہیں کوئی مذہبی یا فرقہ وارانہ فسادات نہیں ہوتے۔ ترکی اور پاکستان کے سیاسی اور سفارتی تعلقات ہمیشہ بڑے خوشگوار رہے ہیں۔ دونوں ممالک میں مثالی دوستی رہی ہے۔ پاکستان میں جنرل پرویز مشرف نے اپنی حکومت کے دوران کہا تھا کہ ترکی کا نظام حکومت اُن کا پسندیدہ نظام ہے اور مصطفی کمال اتاترک کو وہ عظیم مسلمان لیڈر سمجھتے ہیں۔ جس پر بہت سے لوگوں نے جنرل پرویز مشرف کی مخالفت کی اور کہا کہ مصطفی کمال پاشا ترکی کے لیڈر ہیں ہمارے لیڈر نہیں ہیں۔ مگر اس وقت پاکستان میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہے۔ مرکزی اور پنجاب کی حکومت کے ترک حکومت اور حکمرانوں سے گہرے دوستانہ مراسم ہیں اور لاہور شہر ہی نہیں پورے پنجاب میں ترکی کی کئی کمپنیوں کو ٹرانسپورٹ، صفائی اور تعمیرات کے بے شمار کام دیئے گئے ہیں جو یہ ترک کمپنیاں سرانجام دے رہی ہیں۔
لاہور شہر اور پنجاب کے کئی شہروں میں میٹرو بس سروس چلانے اور ٹرام کی طرز پر ریلوے کا کام بھی شروع کرنے کا ارادہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ لاہور شہر میں تقریباً 100 ارب روپے خرچ کر کے 30 کلومیٹر لمبا ایک اوورہیڈ برج تعمیر کیا گیا ہے جس پر ترک کمپنی کی میٹرو بسیں چلتی ہیں۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ کے مطابق وہ میٹرو بس سروس کا یہ جال پنجاب کے تمام بڑے شہروں تک پھیلانا چاہتے ہیں۔ ان مقاصد کے لئے پنجاب کے بڑے شہروں میں اور دیگر علاقوں میں سروے کیے جا رہے ہیں اور پُل بنانے یا میٹرو بسوں کے لیے سڑکیں تعمیر کرنے کے پروگرام جاری ہیں۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزیدخبریں