ہم نے گلگت کیلیے اُڑان بھری جلد اپنے آپ کو بلند چوٹیوں کے اوپر سے گزرتے دیکھا، پھر برف سے ڈھکے کے ٹو، نانگا پربت اور راکا پوشی نظر آنے لگے

Sep 08, 2024 | 12:47 AM

مصنف:محمد اسلم مغل 
تزئین و ترتیب: محمد سعید جاوید 
 قسط:218
ہمارا اگلا سفر گلگت کا تھا، فواد نے وہاں تک پہنچنے اور ٹھہرنے کا ایک بہترین منصوبہ بنایا تھا جسے بہت احتیاط اور ذمہ داری سے ترتیب دیا گیا تھا۔ ہم 17 لوگ اپنے اہل خانہ کے ساتھ اس میں ہمسفر تھے، جن میں فواد، اکرم شیخ، فیصل، میں اور سامعہ شامل تھے۔ ہم نے اسلام آباد کے نئے ائیرپورٹ سے گلگت کے لیے اُڑان بھری اور جلد ہی ہم نے اپنے آپ کو بلند چوٹیوں کے اوپر سے گزرتے دیکھا اور پھر برف کی چوٹیوں سے ڈھکے ہوئے 3بلندو بالا اور عظیم پہاڑ کے ٹو، نانگا پربت اور راکا پوشی نظر آنے لگے۔ پائلٹ نے کمال مہربانی سے ہم میں سے ایک وقت میں دو دو ساتھیوں کو کاک پٹ میں بلا کر باری باری یہ منظر دیکھنے کا موقع دیا۔ خوش قسمتی سے اس دن موسم بہت صاف تھا اور دھوپ میں سارے پہاڑ جگمگا رہے تھے یہ ایک دل مو ہ لینے والا نظارہ تھا جسے دیکھ کر ایک لمحے کے لیے تو سانس رک جاتا تھا۔ گلگت ائیرپورٹ پر اترنا پائلٹوں کیلئے ہمیشہ سے ایک چیلنج ہی رہا ہے کیونکہ یہ ایک تنگ سی وادی کے درمیان واقع ہے اور ماضی میں یہاں اس حوالے سے کافی حادثات بھی ہوئے ہیں۔ الحمدللہ ہم بحفاظت وہاں اتر آئے۔ باہر گاڑیاں ہمارا انتظار کر رہی تھیں جن میں سوار ہو کر ہم سیرینا ہوٹل روانہ ہوئے جہاں ہمیں شب بھر قیام کرنا تھا۔ اگلے دن ہم سحر انگیز اور خوبصورت وادیِ ہنزہ کی طرف روانہ ہوئے اور 2 گھنٹے بعد ہم وہاں کے مرکزی شہر کریم آباد پہنچ گئے یہ گلگت سے 100 کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے۔ میں اور سامعہ تو وہیں ہوٹل میں ٹھہر گئے جب کہ ہمارے دیگر ساتھی ایگل نیسٹ نامی ہوٹل میں جا پہنچے جو ہمارے ہوٹل سے بھی 1000 فٹ بلندی پر تھا۔ میں نے جان بوجھ کر سیرینا ہوٹل میں بکنگ کروائی تھی کہ زیادہ بلندی پر ٹھہرنا شاید سامعہ کے لیے مناسب نہ ہو۔
اگلے دن ہم نے اپنے گروپ کو 2 حصوں میں تقسیم کرکے الگ الگ پارٹیاں بنا لیں ان میں سے ایک پارٹی نے،جو نسبتاً جوان لوگوں پر مشتمل تھی، اعلیٰ صبح پاک چین سرحد پر واقع خنجراب پاس کا رخ کیا جو کریم آباد سے 179 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ یہ سارا راستہ قراقرم ہائی وے کے ذریعے طے ہونا تھا اور درہ خنجراب پر دنیا کی اس عجوبہ سڑک کا اختتام ہوتا  ہے۔ 
دوسری پارٹی، جن میں ہم بھی شامل تھے، عطا آباد جھیل کی طرف روانہ ہوئے جو کریم آباد سے زیادہ دور نہیں۔ کرسٹل کی طرح صاف اور  نیلے پانی کی یہ جھیل 21 کلومیٹر دور تک پھیلی ہوئی ہے اور بعض جگہ تو اس کی گہرائی 350 فٹ تک ہے، اس میں کوئی 330,000 ایکڑ فٹ پانی کا ذخیرہ موجود رہتا ہے۔ یہ کوئی قدرتی جھیل نہیں ہے بلکہ اللہ کی طرف سے ایک نعمت ہے۔ ہوا کچھ یوں تھا کہ 4 جنوری 2010 میں اس علاقے میں ایک خوفناک زلزلہ آیا تھا جس سے ایک بہت بڑی لینڈ سلائید ہوئی تھی ایک پورا پہاڑ ہی پھسل کر نیچے آن گرا تھا اور جس سے دریا کا راستہ مکمل طور پر بند ہو گیا اور یہ جھیل وجود میں آئی۔ اور ایک پورا گاؤں اِس میں ڈوب گیا۔ اِس حادثے میں جانی نقصان بھی ہوا تھا اور پانی کے بلند ہونے سے قراقرم ہائی وے بھی بند ہو گئی تھی۔ جس کو بعد ازاں قریبی پہاڑوں میں سرنگیں بنا کر گزارا گیا۔ اب یہ جھیل ایک زبردست اور مقبول ترین سیاحتی مقام بن چکی ہے جہاں کشتی رانی،واٹر سکیینگ اور مچھلی کے شکار کے بہترین انتظامات ہیں۔ اس کے دلکش مناظر اور ہر طرف پھیلے ہوئے پہاڑی سلسلے مجموعی طور پر ایک خواب سا لگتا ہے۔ہم نے بھی یہاں آنے کی ایک ریت نبھانے ا ور صحیح طور پر لطف اندوز ہونے کے لیے ایک کشتی کرائے پر لی اور جھیل کی خوب سیر کی۔ اس کے بعد ہم پانچ چھے کلومیٹر دور قراقرم ہائی وے پر ایک کافی شاپ میں گئے، جو ایک پہاڑی کی چوٹی پر قائم کی گئی تھی اور وہاں سے ارد گرد کے نظارے خوب لطف دیتے تھے۔ سن رکھا تھا کہ یہاں کا بنا ہوا خوبانیوں کا کیک ایک بہت ہی مزیدار اور مشہور چیز ہے۔ ہم نے بھی منگوایا اور اسے ویسا ہی پایا جیسا کہ اس کے بارے میں مشہور تھا۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزیدخبریں