نیچے سانپ کی طرح بل کھاتی قراقرم ہائی وے صاف نظر آتی ہے،گلگت بلتستان میں بدھ مت کے زمانے کی سینکڑوں یادگاریں اور آثار قدیمہ ہیں
مصنف:محمد اسلم مغل
تزئین و ترتیب: محمد سعید جاوید
قسط:219
ہمارا اگلا دن بلتت فورٹ اور اس کے نواح میں گزرا۔ یہ ایک بہت بلند پہاڑی پر بنایا گیا ہے جہاں سے نیچے سانپ کی طرح بل کھاتی قراقرم ہائی وے صاف نظر آتی ہے۔ ہم نے وہاں ایک گائیڈ کی خدمات حاصل کیں اس نے ہمیں اس قلعے کی تاریخ بیان کی اور وہ اس کو مزید دلچسپ بنانے کے لیے اس میں اپنی طرف سے گھڑے ہوئے رنگ برنگے شگوفے چھوڑتا رہا۔ جیسا کہ اس نے بتایا کہ یہ دو بھائیوں کا قصہ ہے جن میں ایک التت تھا اور دوسرا بلتت۔ پھر یوں ہوا کہ ان کے بیچ جھگڑا ہوا اور بلتت نے التت کو قتل کر کے اس کو کھڑی حالت میں ہی اس قلعے میں دفن کر دیا تھا۔ آگے چل کر بتایا گیا کہ پھر بلتت یہاں کا راجہ بن گیا اور اس نے اپنی بہترین نظا مت کی اور فوری اور بہتر انصاف کا نظام متعارف کروایا جس کی وجہ سے وہ جلد ہی اپنی عوام میں مقبول ہو گیا۔ اس قلعے کے ساتھ ہی ایک بہت ہی عمدہ اور دنیا بھر میں مشہور ریسٹورنٹ ہے جہاں گھریلو خواتین گلگت کے روایتی کھانے تیار کرتی ہیں۔ ہم نے بھی وہاں برآمدے میں بیٹھ کر اس بہترین کھانے کا لطف اٹھایا اور اپنے ہوٹل کی طرف روانہ ہو گئے۔ اسی شام ہم سب ایک اور ریسٹورنٹ ہڈن پیرا ڈائز میں جمع ہوئے اور وہاں ہم نے ہنزہ کے خصوصی کھانے کھائے جو تازہ بنائے جاتے تھے اس لیے ہمیں کچھ دیر انتظار کرنا پڑا مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ کھانے بلا شبہ نہایت لذیذ تھے۔ ایک اور چھوٹی سی جگہ کیفے ڈی ہنزہ تھا جو وہاں جانے والے سیاحوں میں اپنے اخروٹ کے کیک اور کافی کے لیے مشہور تھا۔ یہ چونکہ اسی ہوٹل کی پہلی منزل پر تھا اس لیے ہم نے وہاں سے کیک حاصل کیے اور اپنی گاڑیوں میں ہی بیٹھ کر کھانے کو ترجیح دی۔
گلگت سے رخصتی کے دن ہم کریم آباد قصبے کے باہر دوپہر کے کھانے کے لیے ٹھہرے۔ یہ ایک کمپلیکس تھا جس کا نام ماؤنٹین اسٹوری تھا، یہ انفرادی ہٹ تھے جو ایک خوبصورت انداز میں بہت ہی دلکش باغ جیسے ماحول میں بنائے گئے تھے۔ یہ ہوٹل اونچی نیچی ایک وادی کی سی شکل میں ہے جس میں یا تو آپ کو اوپر چڑھنا ہوتا ہے یا نیچے اتر کر آنا پڑتا ہے۔ حتیٰ کہ ریسٹورنٹ بھی ٹیرس کی طرح بنا ہوا تھا جہاں سے پہاڑوں کا شاندار منظر سامنے ہی ہوتا ہے۔ یہاں کی انتظامیہ کے افراد بہت ہی اچھے تھے اور انتہائی دوستانہ انداز میں ملتے تھے۔ اس لیے ہم نے وہاں کافی وقت گزارا۔ اور پھر سر شام ہی ہنزہ سے بہت خوبصورت یادیں لیے ہم گلگت کی طرف روانہ ہوگئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہنزہ پاکستان کا انتہائی خوبصورت سیاحتی مقام ہے جہاں ہر کوئی بہترین اور ناقابل فراموش وقت گزار کر رخصت ہوتا ہے۔ شام ڈھلتے ہی ہم گلگت میں اپنے ہوٹل میں لوٹ آئے۔ جہاں ہمیں ابھی مزید 2 راتیں قیام کرنا تھا۔
گلگت بلتستان میں بدھ مت کے زمانے کی سیکڑوں یادگاریں ہیں، جن میں ان کے آثار قدیمہ اور کندہ کاری اور نقش و نگار موجود ہیں۔ بدھ مت،گلگت بلتستان میں چین کی طرف سے کوئی 200 قبل مسیح میں متعارف ہوا تھا۔ ہمیں پتہ چلا تھا کہ گلگت کے نواح میں ہی کہیں اس زمانے کی ایک یادگار موجود ہے۔ لہٰذا ہم اسے دیکھنے کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ یہ بدھا کا ایک بہت بڑا مجسمہ تھا جو ایک پہاڑی کے بلند ترین ڈھلوان پر تراشا گیا تھا۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔