باجوڑ ایجنسی کی بادام زری کی جرات

باجوڑ ایجنسی کی بادام زری کی جرات

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

قبائلی علاقے باجوڑ ایجنسی میں موسم بہار میں جب ہر طرف پھول کھلتے ہیں۔ دُور دراز علاقوں سے لوگ پھول دیکھنے کے لئے یہاں کا رُخ کرتے ہیں ۔ شاعر اپنی غزلوں میں ”باجوڑگلونہ“کا ذکر بھی کرتے ہیں۔آج کل موسم بہار کی آمد ہے ۔ باجوڑ ایجنسی میں بھی ہر طرف خوبصورت پھول کھلے ہوئے ہیں، جن کی خوشبوئیں فضاءمیں بکھر رہی ہیں ۔ پھولوں کی وجہ سے باجوڑ ایجنسی خاص شہرت رکھتی ہے ۔بہار کے موسم میں الیکشن کی آمد ہے۔ پورے ملک کی طرح فاٹا میں بھی الیکشن کی تیاریاں شروع ہیں۔ امیدوار وں نے اپنے کاغذات نامزدگی داخل کرا کے اپنے پارٹی منشور سے لوگوں کو آگاہ کرنا شروع کر دیا ہے ۔فاٹا میں 65سال کے بعد پہلی مرتبہ پولیٹیکل پارٹی ایکٹ کانفاذ کیاگیا اور پہلی مرتبہ سیاسی جماعتوں نے امیدواروں کو ٹکٹ جاری کئے ہیں، جس کی وجہ سے الیکشن میں جوش و خروش پایا جاتا ہے۔ ایسے میں جہاں فاٹا میں خواتین کے ووٹ ڈالنے پر پابندی عائد ہے اور وہ ووٹ نہیں ڈال سکتیں ، باجوڑ ایجنسی کی تحصیل اتمان خیل سے بادام زری نے حلقہ این اے 44سے فاٹا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ خاتون امیدوار کی حیثیت سے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں اور جنرل الیکشن میں خاتون امیدوار کی حیثیت سے حصہ لیں گی۔ فاٹا میں خواتین کی مخصوص نشستیں نہیں ہیں۔
باجوڑ ایجنسی گزشتہ پانچ سال سے عسکریت پسندی کا شکار رہی ہے اور امن وامان کی بگڑتی ہوئی صورت حال کی وجہ سے ہزاروں لوگوں نے یہاں سے نقل مکانی کی،سکولوں کو بموں سے اُڑایا گیا۔ کاروباری مراکز بند کئے گئے، پاک فوج کے آپریشن کی وجہ سے اب حالات معمول کے مطابق ہیں، لیکن پھر بھی افغانستان سے عسکریت پسند سرحد پار کر کے حملے کرتے ہیں اور خودکش حملے بھی کئے جاتے ہیں، جس میں بے گناہ مرتے ہیں، ایسے حالات میں بادام زری کا الیکشن میں حصہ لینا خوش آئند امر ہے۔ خواتین کو بھی سیاست میں حصہ لینا چاہئے۔
فاٹا کے عوام کو قیام پاکستان کے بعد بھی سیاسی آزادی اور بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا، یہاں سیاست کو جرم سمجھا جاتا ہے، کوئی بھی فرد اپنے حقوق کے لئے آواز نہیں اٹھا سکتا ۔انگریزوں کے کالے قوانین ایف سی آر آج بھی نافذ العمل ہیں، جن کے تحت ہر ایک ایجنسی میں گریڈ18کا آفیسر پولیٹیکل ایجنٹ براجمان ہے، جس کے پاس انتظامیہ اور عدلیہ کے اختیارات ہیں، ایسے کالے قوانین کی مثال دُنیا کے کسی کونے میں نہیں ملتی، کیونکہ انتظامی افسر کو عدلیہ کے اختیارات حاصل ہونے سے عام آدمی کو انصاف نہیں ملتا اور پولیٹیکل ایجنٹ لوگوں کو سو سو سال قید کی سزائیں سناتے ہیں۔ ان سزاﺅں کے خلاف اپیل کا حق ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں نہیں ہے ۔پولیٹیکل ایجنٹ کے فیصلے کے بعد ملزم متعلقہ ڈویژن کے کمشنر کو اپیل کر سکتا ہے، لیکن کمشنر سے بھی انصاف کی فراہمی کی توقع نہیں کی جا سکتی ۔ کمشنر بھی انتظامی افسر ہوتا ہے ۔ایف سی آر کے قوانین کی وجہ سے قبائلیوں کو اپنے حقوق سے آگاہی بھی حاصل نہیں، جس کی وجہ سے قبائل آج بھی بد ترین پسماندگی اور ناخواندگی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔
فاٹا کے عوام میں سیاسی شعور بیدار ہو چکا ہے۔ سیاسی آزادی ملنے کے بعد مختلف قبائلی ایجنسیوں میں مطالبات کے حق میں مظاہرے بھی کئے گئے اگر فاٹا کے عوام کو پہلے سیاسی آزادی دی جاتی، انگریزوں کے فرسودہ نظام کو ختم کر دیا جاتااور انہیں بنیادی حقوق دیئے جاتے توپورے ملک کی طرح فاٹا کے عوام بھی ترقی اور خوشحالی کے دور میں شامل ہو گئے ہوتے ۔الیکشن کمیشن نے ضابطہ اخلاق کا اعلان کیا، لیکن اب تک اس کا عملی نفاذ نہیں ہو سکا اور آزاد امیدوار اور سابقہ ایم این ایز کروڑوں روپے خرچ کر رہے ہیں ۔لوگوں میں بھاری رقوم کی تقسیم جاری ہیں ۔پیسوں کے بل بوتے پر اسمبلی تک پہنچنے والے امیدواروں کا راستہ نہ روکا گیا تو اہل لوگ اسمبلیوں میں نہیں پہنچ سکیںگے۔
آزاد امیدوار جو کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری کرتے ہیں، علاقے کی خدمت نہیں کرتے، بلکہ اپنی جیبیں بھرتے ہیں، جبکہ سینیٹ کے الیکشن میں بھی کروڑوں روپے کے عوض ووٹ فروخت کرتے ہیں۔ ترقیاتی سکیمیں بھی کرپشن کی نذر ہو جاتی ہیں ۔فاٹا میں پولیٹیکل ایجنٹ ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر ہوتا ہے ۔الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق پر فاٹا کی تمام قبائلی ایجنسیوں میں عمل کیا جائے اور کروڑوں روپے خرچ کرنے والے امیدواروں کو نااہل قرار دیا جائے تاکہ پور ے ملک کی طرح فاٹا سے دیانتداراور حقیقی نمائندے اسمبلیوں تک پہنچ سکیں اور پیسوں کے کلچر کا خاتمہ ہو ۔فاٹا کے مستقبل کے لئے ان انتخابات کا شفاف ،آزادانہ اور منصفانہ ہونا بہت ضروری ہے ۔فاٹا کی خواتین کو مخصوص نشستوں سے محروم نہ رکھا جائے ۔الیکشن کمیشن آف پاکستان کو اس سلسلے میں اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ بادام زری کی طرح دیگر خواتین بھی اسمبلیوں تک پہنچ سکیں اور فاٹا کی خواتین کے حقوق کے لئے آواز اُٹھا سکیں ۔      ٭
مکرمی! قوموں کی ترقی میں قومی زبان نے بھی ایک خاص کردار ادا کیا ہے۔اردو تاحال وہ مقام حاصل نہیں کرسکی، جو اس کو ملنا ضروری ہے۔یقینا اس سلسلے میں بے شمار کام بھی ہوا ہے، مگر اب بھی صرف گنجائش ہی نہیں، بلکہ ضرورت ہے۔آپ سے گزارش ہے کہ اپنی کوشش اس حد تک جاری رکھیں کہ نسلیں آپ پر فخر کریں۔سب سے اولین کوشش یہ ہونی چاہیے کہ اردو کو خالص کیا جائے،یعنی انگریزی، ہندی، عربی یا کسی بھی دوسری زبان کے الفاظ کو بولنے یا لکھنے میں شامل نہ کیاجائے۔
مشتاق احمد اصلاحی
P.325گلی نمبر6نثار کالونی فیصل آباد

مزید :

کالم -