یوسف رضاگیلانی ،سرائیکی صوبے کے نعرہ کو دوبارہ کیش کروائیں گے

یوسف رضاگیلانی ،سرائیکی صوبے کے نعرہ کو دوبارہ کیش کروائیں گے
یوسف رضاگیلانی ،سرائیکی صوبے کے نعرہ کو دوبارہ کیش کروائیں گے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پیپلز پارٹی کے گزشتہ دور میں جنوبی پنجاب میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کے جتنے بھی ضمنی انتخابات ہوئے وہ زیادہ تر پیپلز پارٹی نے ہی جیتے تھے۔ حالانکہ پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت تھی اور عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ضمنی انتخاب حکومت وقت ہی جیتا کرتی ہے لیکن یہاں یہ فارمولا غلط ثابت ہوا اور پیپلز پارٹی کلین سویپ کرتی رہی اس کی بنیادی وجہ جنوبی پنجاب میں علیحدہ صوبے کا وہ نعرہ تھا جسے اس وقت کے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے نہ صرف اپنا لیا بلکہ ضمنی انتخابات میں پیپلز پارٹی کا اصل نعرہ روٹی ‘ کپڑا اور مکان چھوڑ کر سرائیکی صوبے کا نعرہ اپنا لیا اور اس تواتر اس کا ذکر کرنے لگے کہ یقین سا آنے لگ گیا تھا کہ شاید اب یہ صوبہ بن ہی جائے۔ کیونکہ یہ بات کوئی عام نہیں بلکہ ملک کا وزیراعظم کہہ رہا ہے اور لوگوں کو اس پر یقین کرنے کے علاوہ کوئی صورت نہیں دکھائی دیتی تھی۔ دکھائی بھی کیسے دیتی حکومت وقت کا وزیراعظم لوگوں کو ہر تقریب میں یقین دلاتا پھر رہا تھا کہ اب سرائیکی صوبہ صرف پیپلز پارٹی ہی بنائے گی اور تو اور اس وقت کے وزیراعظم نے اپنی حیثیت کو خود ہی چیلنج کر دیا اور مسلم لیگ ن کی پنجاب حکومت کو برملا تخت لاہور کہنا شروع کر دیا۔ نہ صرف یہ بلکہ انہوں نے مقامی سرائیکی دانشوروں ‘ سرائیکی رہنماﺅں اور صوبے کے حامی افراد کو فرداً اسلام آباد میں بلا کر ان سے تجاویز بھی طلب کر لیں جبکہ جنوبی پنجاب میں ہونے والے تمام انتخابات سرائیکی ایشو کلین سویپ کئے۔ مگر کیا ہوا؟ پیپلز پارٹی کی حکومت ختم ہو گئی لیکن نہ تو سرائیکی صوبہ بن سکا اور نہ اس پر کوئی پیش رفت ہو سکی اور آج جبکہ 2013ءکے انتخابات کی رسم چل رہی ہے تو کچھ کچھ لوگ سید یوسف رضا گیلانی اور ان کی اولاد عبدالقادر گیلانی ‘ علی موسیٰ گیلانی اور بھائی احمد مجتبیٰ گیلانی سے یہ سوال کرتے نظر آتے ہیں کہ سرائیکی صوبے کا کیا ہوا؟ وہ کون سی مجبوری تھی کہ آپ حکومت ہوتے ہوئے یہ کام نہیں کر پائے حالانکہ تین ضمنی انتخابات میں آپ نے وعدہ کیا تھا اور اس وعدے پر ووٹ لیا تھا کہ سید یوسف رضا گیلانی سرائیکی خطے کا سپوت ہے اور وہ ہی سرائیکی صوبہ بنا سکتا ہے لیکن اب آپ کس منہ سے دوبارہ ووٹ مانگنے آئے ہیں۔ پھر کچھ کچھ لوگوں کے یہ سوال بھی کھڑے ہو جاتے ہیں کہ آپ (سید یوسف رضا گیلانی) کے دور اقتدار میں ریکارڈ کرپشن ہوئی۔ پھر کارکن اور چھوٹے پارٹی عہدےدار بھی پوچھ لیتے ہیں کہ سابق وزیراعظم کیا آپ کچھ ایسے لوگوں کی لسٹ ہمیں دیں گے جن کو آپ نے نوکریاں دی ہوں اور ان کا تعلق جیالا طبقے سے ہو لیکن یقیناً ان کے پاس ان سوالوں کے جواب نہیں ہیں کہ وہ کارکنوں اور ووٹروں کو مطمئن کر سکے کیونکہ ان تمام سوالیوں کو سب کچھ معلوم ہے کہ وزارت عظمیٰ کا عہدہ اس علاقے اور خصوصاً اپنے حلقے کی ”کاٹن فیملیز“ کو فائدہ پہنچانے کےلئے استعمال کیا گیا۔ انہیں کارپوریشنوں اور خود مختار اداروں کی سربراہی دی گئی حالانکہ انہوں نے میٹرک بھی نہیں کیا تھا۔ انہیں گریڈ 20 اور اس سے زیادہ عہدوں پر تعینات کیا گیا۔ کماﺅ قسم کے اداروں میں انہیں اہم پوسٹوں پر بٹھایا گیا۔ ملتان یونیورسٹی میں محض میٹرک اور بعدازاں جعلی ڈگری کے ذریعے اپنے آپ کو گریجوایٹ ظاہر کرنے والوں کو گزیٹڈ پوسٹوں پر سابق وائس چانسلر سے زبردستی تعینات کروایا گیا ایسے ایسے نابغوں کو نوازا گیا کہ خود پیپلز پارٹی کے عہدےدار اور کارکن منہ چھپاتے پھرتے تھے۔ ایسے ایسے سرکاری ملازمین کو ان علاقوں میں تعینات کرایا گیا جو بڑے شہرت یافتہ تھے اور گیلانیوں کی خدمت گزار تھے۔ ان تمام سوالوں کے جواب بھی سابق وزیراعظم اپنی پچھلی کارکردگی کی طرح ہی دیتے ہیں کہ کیا یہ سب کچھ صرف میں نے ہی کیا ہے۔ کیا کسی اور نے کرپشن نہیں کی بلکہ ان کے الفاظ ہیں کہ بہتی گنگا میں سب نے ہاتھ دھوئے نام میرا بدنام ہو رہا ہے یا کیا جا رہا ہے۔ کتنے شرم اور افسوس اور ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا سابق وزیراعظم خود اپنے منہ سے کرپشن کا اعتراف کر رہا ہے اور عوامی اجتماعات میں بڑے فخر سے کہتا پھر رہا ہے کہ میں نے کرپشن کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے ہیں اور صرف میں نے نہیں بلکہ ان کے ساتھیوں نے بھی یہ عمل کیا ہے تو کیا اب کچھ اور باقی رہ جاتا ہے اور کیا یہ کافی نہیں ہے ان کےلئے جو کہتے ہیں کہ کرپشن میں ملوث لوگ آئندہ الیکشن پراسس سے باہر ہوں گے مگر یہ تو نہ صرف موجود ہیں بلکہ پورے سرکاری پروٹوکول کے ساتھ موجود ہیں اور سابق وزیراعظم کے طور پر انہیں جو سکیورٹی ملی ہے اس میں انہوں نے خود ہی کچھ اپنی کاریگری سے اضافہ کروا لیا ہے اور اب پورے کروفر کے ساتھ وہ انتخابی مہم چلا رہے ہیں اور نام نہاد جھوٹی سکیورٹی کے نام پر پولیس ‘ کمانڈوز اور ایلیٹ کی سرکاری گاڑیاں ان کے ساتھ ہیں کیا الیکشن کمیشن کو یہ بالکل نظر نہیں آ رہا ہے کہ ایک طرف تو ایسا امیدوار ہے جو بمشکل دو یا تین گاڑیوں کے قافلے کے ساتھ مہم چلا رہا ہے جبکہ دوسری طرف یہ بیسیوں گاڑیوں کے ساتھ ووٹروں پر رعب ڈالتے پھر رہے ہیں۔ ان کے اس رویے اور سرکاری و پرائیویٹ سکیورٹی گارڈز کی اسلحہ کی نمائش سے ان تینوں حلقوں 148 ‘ 150 اور 151 میں صورت حال ابھی سے کشیدہ ہو چکی ہے اور کوئی بھی ناخوشگوار وقوعہ رونما ہو سکتا ہے لیکن لگتا ہے کہ الیکشن کمیشن کے پاس بھی ابھی تک وہ عینک نہیں پہنچی جس سے وہ ان پر نظر ڈال لیں یا تدارک کر لیں۔

مزید :

تجزیہ -