غداری کیس میں سابق فوجی صدر کا بنچ پر اعتراض ، پرویز مشرف کی گرفتاری کی درخواست مسترد ، ہمیں کسی کی کوئی پرواہ نہیں : سپریم کورٹ
وکیل صفائی کے توہین اور دھمکی پر مبنی ملے جلے دلائل ، وفاق اور وزارت قانون کی طرف سے کوئی پیش نہیں ہوا
اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) سابق فوجی صدر پرویز مشرف نے غداری کیس میں ججوں پر اعتراض کرتے ہوئے جواب داخل کرانے کے لیے چھ ہفتوں کی مہلت کی درخواست کردی جسے عدالت نے مسترد کرتے ہوئے ایک ہفتے کیلئے سماعت ملتوی کردی ۔ عدالت نے پرویز مشرف کو حراست میں لینے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے اپنے عبوری حکم نامے میں قراردیاہے کہ درخواست مسترد کرنے کا مطلب انتخابی عمل میں رکاوٹ نہ بنناہے ،جواب داخل کرانے کے لیے طویل مہلت کی ضرورت نہیں ، کیس بہت سادہ اورآسان ہے ۔دوران سماعت سپریم کورٹ کاکہناتھاکہ پنڈورہ باکس کھلتاہے تو کھلے ، ہمیں کوئی پرواہ نہیں ، درخواست کے تمام فریقین کو صرف نوٹس بھیجے ہیں ،ٹھوس وجہ بتائیں تو بنچ سے علیحدگی اختیار کرسکتے ہیں ۔ پرویز مشرف کے وکیل کاکہناتھاکہ اس کیس میں بہت سے لوگوں کے نام آئیں گے ، پرویز مشرف عدالتوں کے چکر لگاتے رہے تو انتخابی مہم نہیں چلاسکیں گے جبکہ توہین اور دھمکیوں پر مبنی ملے جلے دلائل پر درخواست گزاروکلاءنے اعتراض کردیاجبکہ غداری کیس کے ایڈووکیٹ آن ریکارڈ کو تبدیل کردیاگیا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس خلجی عارف پر مشتمل سپریم کورٹ کے دورکنی بنچ نے پرویز مشرف کیخلاف غداری کے مقدمے کیلئے دائر درخواستوں کی سماعت کی ۔
دوران سماعت وزارت قانون اور وفاق کی طرف سے کسی کے پیش نہ ہونے پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا ۔وزارت داخلہ نے سابق فوجی صدر کا نام ای سی ایل میں شامل کرنے سے متعلق رپورٹ پیش کی ۔ دوران سماعت پرویز مشرف کے وکیل احمد رضاقصور ی نے کہاکہ عدالت کا احترام کرتے ہیںلیکن اُن کے وکیل کو ججوں سے متعلق تحفظات ہیں جس پر جسٹس جواد نے کہاکہ آپ ابھی سے بتائیں کس جج پر اعتراض ہے ؟ہم نے کیس کو آگے چلاناہے، ٹھوس وجہ اور جج کا نام بتائیں ، بنچ سے الگ ہوجائیں گے جس پر قصوری کاکہناتھاکہ شاید آپ کیلئے ناپسندیدہ ہوں جس پر جسٹس جواد نے کہاکہ آپ ہماری ناراضگی کی فکر کیے بغیر اپنے موکل کا موقف پیش کریں ، ججوں کیلئے کوئی چیز ناپسندیدہ نہیں ۔
پرویز مشرف کے وکیل کاکہناتھاکہ وہ 1972ءمیں پارلیمنٹ کے رکن تھے ، اُس وقت آپ دونوں جج سکول میں ہوں گے جس پر درخواست گزار وکلاءنے اعتراض کردیا۔اُن کاکہناتھاکہ انٹرپول کے ریڈوارنٹ بھی غیر موثر ہوگئے ، مشرف پر واپسی کیلئے کوئی دباﺅ نہیں تھا ،رات بارہ بجے طلبی کا نوٹس ملا۔احمد رضاقصوری کاکہناتھاکہ وزیراطلاعات نے بیان دیاکہ نگران حکومت کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں جس پر جسٹس جواد ایس خواجہ کاکہناتھاکہ وہ بیان میڈیا کو دیاگیاہوگا، عدالت کے سامنے نہیں، فیڈریشن کی جانب سے کوئی آیا ہی نہیں ،ا س لیے اُن کا موقف معلوم نہیں ۔قصوری نے کہاکہ اپنی نوعیت کا واحد کیس ہے ، مشرف ایک ایک نقطے کا جواب دیں گے ، وہ ایک سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں اور انتخابات میں جارہے ہیں ، عدالت چھ ہفتوں کی مہلت دے ۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہاکہ مہلت ضروردیں گے لیکن چھ ہفتوں کی نہیں دے سکتے ۔
احمد رضاقصوری کاکہناتھاکہ پی سی او کیس میں جنرل کیانی کا نام بھی آیالیکن اُ نہیں نوٹس نہیں دیاگیا، کیس میں عجلت کا مظاہرہ کیاجارہاہے ، کیس میں بہت سے نام آئیں گے ، پرویز مشرف عدالتوں کے چکر لگاتے رہے تو انتخابی مہم کیسے چلائیں گے ؟عدالت کاکہناتھاکہ کیس اتنے عرصے سے زیرالتواءرہا، یہ عجلت غیر ضروری نہیں ،پنڈوراباکس کھلناہے تو کھلے ہمیں کوئی پرواہ نہیں ۔جسٹس خلجی عارف کاکہناتھاکہ عدالت کو آئین اور قانون کودیکھناہے ۔مزید سماعت 15اپریل تک ملتوی کرتے ہوئے عدالت کاکہناتھاکہ جواب داخل کرانے کے لیے طویل مہلت کی ضرورت نہیں، یہ کیس بہت آسان اور سادہ ہے ، پرویز مشرف 24مارچ کو وطن واپس آئے اورا ٓئندہ سماعت پر اُن کا ذاتی طورپر پیش ہوناضروری نہیں ۔
قبل ازیں سماعت کے آغاز پر سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے وکیل ”جناب “احمد رضاقصوری نے کہاکہ دلائل کیلئے خالی روسٹرم چاہیے ، سپریم کورٹ کا ماحول مجسٹریٹ کی عدالت جیسا ہے ، عدالت کی ہدایت پر درخواست گزار وکلاءنے روسٹرم چھوڑدیا۔بعدازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے احمد رضاقصوری کاکہناتھاکہ پرویز مشرف خود عدالت آئے ، درخواست گزار وکلاءبہت بے چین نظر آرہے ہیں ۔