ڈالر نیچے آیا ہے
کہیں سنا تھا کہ شادی ایک ایگریمنٹ ہے جس میں ایک کمانے والا اور ایک اڑانے والا ساتھ رہنے پر اتفاق کرتے ہیں بالکل اسی طرح ہمارے جیسے ملکوں میں الیکشن ایک ایگریمنٹ ہے جس میں کمانے والا اڑانے والا کا انتخاب کرتا ہے ۔شادی کی صورت میں ہنی مون پیریڈ دونوں فریقین کا ہوا کرتا ہے مگر الیکشن کی صورت میں صرف حکومت کا ۔ شادی کی صورت میں دونوں فریق ساتھ جینے مرنے کی قسمیں کھاتے ہیں اچھے برے حالات میں ساتھ دینے کی قسمیں کھاتے ہیں اور خوشی ہو یا غم تنگدستی ہو یا خوش حالی ساتھ جھیلنے کا عہد کرتے ہیں الیکشن کی صورت میں حکومت عوام سے قربانیاں مانگتی ہے ۔ شادی کی صورت میں دونوں فریقین دوست احباب کی ضیافتوں میں ساتھ جاتے ہیں ۔ الیکشن کی صورت میں حکمران دنیا گھومتے ہیں اور فریق پس ماندہ کو بتاتے ہیں کہ دعوت ہماری ہوئی ہے مگر بے فکر رہنا ضیافت تمہاری ہوگی ۔ شادی کے ایگریمنٹ کا ٹوٹنا بے وفائی ، بے رخی ، بے حیائی اورایک معلوم ناقابل بیان وجہ کے تحت ہوسکتا ہے ۔جبکہ الیکشن کے ایگریمنٹ کا ٹوٹنا عوام سے بے وفائی ، بے رخی کرپشن کی بے حیائی ایک معلوم قابل بیان وجہ کے تحت ہوا کرتا ہے ۔
شادی کا ایگریمنٹ ٹوٹنا مطلقہ بنادیتا ہے جبکہ الیکشن کا ایگریمنٹ ٹوٹنا جوبناتا ہے وہ بنا توجاسکتا ہے یہاں بتایا نہیں جاسکتا اورشادی دوبارہ کی جاسکتی ہے عدت کے بعد نئے فریق کے ساتھ بھی اور حلالے کے بعد سابقہ فریق کے ساتھ بھی ۔ الیکشن کا ایگریمنٹ بھی دوبارہ کیا جاسکتا ہے عدت کی عبوری مدت کے بعد نئی حکومت کے ساتھ بھی اور نگراں حکومت کے حلالے کے بعد سابقہ حکومت کے ساتھ بھی ۔ شادی کے ایگریمنٹ سے دونوں فریق امت مسلمہ میں اضافے کا باعث بنتے ہیں اسے سیانے خوشی کہتے ہیں ۔ الیکشن کے ایگریمنٹ میں فریق اگر خوشی حاصل کرپائیں تو اسے گروس ڈومیسٹک پروڈیوس کا اوپر جانا کہتے ہیں ۔
ہماری اور حکومت کی شادی کو تقریبا دس ماہ ہوچکے ہیں اس ایگریمنٹ کے بعد دو الگ الگ تصویریں فریقین کی نظروں میں ہیں۔
پہلی تصویر میں حکومت کو نظر آرہا ہے کہ ہمیں خوشی ملی ہے ۔ ہماری معیشت مستحکم ہوئی ہے ۔ دودھ کی نہریں اگر بہہ نہیں رہیں تو ان کی کھدائی ضرور ہوچکی ہے ۔ ڈالیاں پھلوں سے لدی ہوئی ہیں ۔ حکمرانوں کی نظر میں بے داغ سبزے کی بہار ہے ۔ روشنیاں ہیں ۔ خوش حالی کا دور دورہ ہے ۔ حکمرانوں کو دکھائی دے رہا ہے کہ خودمختاری کی منزل اتنی دور ہے کہ ہاتھ لگاکر اسے چھوا جاسکتا ہے ۔مہنگائی کے جن کو بوتل میں بند کرکے راوی میں پھینکا جا سکتا ہے ۔ذلت اور معاشی غلامی کا طوق گلے سے اتارا جاسکتا ہے ۔حکومت کو دکھائی دے رہا ہے کہ وہ دن دور نہیں جب ہم آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک سے کہیں گے یہ پکڑ اپنے پیسے اور آیندہ تیری صورت نہ دکھائی دے اور آئی ایم ایف ہم سے کہے گا حضور آرام سے دے دیجیے گا آپ تو ناراض ہوگئے سود کم کرلیں اور ہماری دکان چلنے دیں سرکار اور ہم ٹخنے کے پاس موجود اس کی تھوتھنی پر جوتے کی ٹھوکر کے ساتھ کہیں گے ہش ۔
پہلی تصویر میں حکومت کو نظر آرہا ہے ہمارا روپیہ ڈالر کو ایک بار گرانے کے بعد اب اس کی کمر پر پر پیر رکھ کر کھڑا رہے گا ۔ دونوں ہاتھ فضا میں بلند کیے اپنی برتری کا جشن مناتا رہے گا ۔ ہماری ملوں کا پہیہ ایسا گھومے گا کہ مزدور بھنگڑے ڈالیں گے ۔
ایک طرف ڈار صاحب کو نظرآ رہا ہے کہ اقتصادی ماہرین سات فی صد کی ترقی کی خوشامدی پیش گوئیاں کررہے ہیں اور دوسری طرف ایشیائی بینک تجارتی راہداری کے لیے دو سو ملین ڈالر فراہم کرے گا ۔ ایک طرف ڈار صاحب کو کپاس کی پیداوار میں اضافہ دکھ رہا ہے اور دوسری طرف وہ صرف دو ہزار پچاس تک پاکستان کو دنیا کی اٹھارہویں بڑی معیشت دیکھ رہے ہیں عالمی بانڈ مارکیٹ دیکھ رہے ہیں ۔وہ دیکھ رہے ہیں کہ آئی ایم اعتراف کررہا ہے کہ ہماری معیشت درست سمت میں گامزن ہے ۔
اور دوسرا فریق کیا دیکھ رہا ہے کیا بھگت رہا ہے وہ یکسر مختلف ہے ۔ دوسر ے فریق کی نگاہ میں خوف ہے ۔ بھوک ہے غربت ہے بیماری ہے ۔ دوسرے فریق کو دکھ رہا ہے کہ ڈالر بارہ روپے نیچے دھڑام سے گرا مگر پٹرول کی قیمت نیچے صرف سرکی ہے ۔ دوسرے فریق کو دکھ رہا ہے کہ آٹا روز گیلا ہورہا ہے ۔ دوسرے فریق کو دکھ رہا ہے کہ مالیاتی اداروں کے کھاتے کچھ اور بتارہے ہیں اور انسانی حقوق کے اداروں کے کھاتے کچھ اور بتارہے ہیں ۔ دوسرے فریق کو یہ بھی دکھ رہا ہے گندم کی امدادی قیمت کے معاملے پر عدالت کو درمیان میں کودنا پڑا ہے اور فاضل جج کہہ رہے ہیں کہ بے حسی اور عیاشی کی انتہا ہے حکومت غریب کو چوہے مار گولیاں ہی لے دے ۔ ہفتہ وار اعداد و شمار سناتے ہوئے وفاقی ادارہ شماریات جس طرح کی خبریں دیتا ہے بازار سے لوٹنے والا اس کا مذاق اڑاتا ہے ۔
مگر یہ بھوکے ننگے کیا جانیں کہ معیشت کس بلا کا نام ہے ۔ گرانی کو قابو کرنے کے لیے کتنے پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں ۔ دبئی جاکر آئی ایم ایف کے حکام کو بتانا پڑتا ہے کہ سخی تیرا فنڈ جیوے ، اللہ تجھے بہت دے ۔ میرے گھر میں بیس کروڑ چھوٹے چھوٹے بھوکے ہیں۔ کھانے کو کچھ نہیں ۔ سخی تیرے بھاگ لگے رین ۔ یہ کمزور فریق کچھ جانے یا نہ جانے مگر ایک حقیقت ڈار صاحب جانتے ہیں ۔
کیسا داو¿ لڑایا ہے
ہر کوئی چلایا ہے
چین کہاں پر آیا ہے
ڈار نے کر دکھلایا
ڈالر نیچے آیا ہے
................................
بھوکے بچے روتے ہیں
خالی پیٹ ہی سوتے ہیں
جانتے کب یہ کھوتے ہیں
مایا ہے سب مایا ہے
ڈالر نیچے آیا ہے
................................
آٹا اور ترکاری مہنگی
غربت میں بیماری مہنگی
سڑکوں پر سواری مہنگی
کیا کچھ اچھا لایا ہے
ڈالر نیچے آیا ہے
................................
خودکشیاں ہیں تنگی ہے
حالت اپنی جنگی ہے
جیب تو اس کی چنگی ہے
جو حمزہ کا تایا ہے
ڈالر نیچے آیا ہے
ہمیں تو ڈار صاحب کو یہ بتانا ہے کہ ڈار صاحب اگر شادی کے دو فریق الگ الگ تصویریں دیکھ رہے ہوں تو شادی زیادہ دیر چلتی نہیں ۔ ٭