عقلِ کل اور ہمارے ادارے
پاکستان میں پہلے بھی کئی عقلِ کل آئے جن کا خیال تھا کہ پورا سسٹم وہ اکیلے ٹھیک کر لیں گے۔ ان میں وہ بھی تھے جو تنہا اپنی ذات میں انجمن تھے اور کسی سے مشاورت کو اپنی توہین سمجھتے تھے اور کچھ وہ بھی تھے جن کی ڈوریاں کہیں اور سے ہلائی جا تی تھیں۔
یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ پاکستان عقلِ کل کے معاملے میں زیادہ تر خود کفیل رہا، پاکستان کے ابتدائی برسوں کے گورنر جنرل ملک غلام محمد سے لے کر موجودہ دور تک دونوں طرح کے عقلِ کل لوگوں کی بہت سی روشن مثالیں سامنے ہیں ، اپنی ذات میں انجمن والے بھی اور کہیں اور ہلائی جانے والی ڈوریوں والے بھی۔
یہ ریاست کے تمام ستونوں کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھائے پھرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ آئین اور پارلیمنٹ سے لے کر بجلی، پانی، صحت اور تعلیم بھی صرف وہی ٹھیک کر سکتے ہیں، چنانچہ مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ ایک شخص میں مرکوز ہو جاتی ہیں اور باقی کا پورا ملک اور سسٹم چین کی بانسری بجاتا ہے۔ ہاں البتہ اہلِ نظر جانتے ہیں کہ کون سا عقلِ کل تنہا اپنی ذات میں انجمن ہے اور کس کی ڈوریاں کہیں اور سے ہلائی جا رہی ہیں۔
پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں اپنے آپ کو عقلِ کل سمجھنے والوں کا جائزہ لیا جائے تو جو بات انتہائی دلچسپ ہے وہ یہ کہ پاکستان کے ابتدائی دس برسوں میں بیوروکریٹ سب سے زیادہ طاقتور تھے جو نہ صرف اپنے آپ کو عقلِ کل سمجھتے تھے بلکہ حیلوں بہانوں سے انہوں نے اقتدار پر قبضہ بھی کر رکھا تھا، اس کی سب سے روشن مثال ملک غلام محمدکی تھی ، ایک انتہائی طاقتور بیوروکریٹ جو نہ صرف گورنر جنرل کی سیٹ پر قابض ہو گئے بلکہ دستور ساز اسمبلی بھی توڑ دی۔
پاکستان کے ان ابتدائی دس برسوں میں ملک غلام محمد کے علاوہ چودھری محمد علی اور اسکندر مرزا جیسے طاقتور بیوروکریٹ بھی آئے جنہوں نے اپنی سازشوں سے پاکستان میں جمہوریت کا پودا پنپنے ہی نہیں دیا۔
یہ وہ دور تھا جب ان سازشیوں نے آئے دن حکومتوں کا گلا گھونٹا اور اس وقت تک اپنی کارروائیوں سے باز نہیں آئے جب تک جرنیلوں نے پاکستان پر بار بار قبضہ نہیں کر لیا۔ ویسے تو فیلڈ مارشل (خود ساختہ) ایوب خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف بھی اپنے آپ کو پاکستان کا واحد مسیحا سمجھتے تھے لیکن جنرل یحییٰ خان تو اپنے آپ کو مکمل طورعقلِ کل سمجھتے تھے۔
مئی 1970ء میں مشہور امریکی جریدے ’’ٹائم‘‘میں ان کا ایک تفصیلی انٹرویو چھپا جس میں جب ان سے پوچھا گیا کہ اتنا بڑا ملک وہ بغیر کسی آئین کے کیسے چلا رہے ہیں تو جنرل یحییٰ خان نے شہادت کی انگلی اپنے سر پر رکھتے ہوئے کہا کہ ان کا دماغ ہی پاکستان کا آئین ہے۔
اس وقت انہیں اقتدار پر قبضہ کئے ہوئے 14 ماہ ہوگئے تھے، جنرل صاحب نے پوری رعونت سے کہا کہ جتنا اچھا ملک میں نے پچھلے ایک سال میں چلایا ہے ایسا پچھلے 22 سال میں کوئی نہیں چلا سکا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ پاکستان کے تمام سسٹم مکمل طور پر ٹھیک کر دئیے گئے ہیں اور اب پشاور سے کراچی اور کراچی سے چٹا گانگ تک پورا سسٹم بہترین انداز میں پرفارم کر رہا ہے۔
جنرل یحییٰ خان نے زوردار قہقہہ لگاتے ہوئے کہا کہ ملک چلانے کے لئے آئین اور پارلیمنٹ کی نہیں بلکہ ایک اعلیٰ دماغ کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ وہ اعلیٰ دماغ موجود ہے ۔
اس کے بعد سب جانتے ہیں کہ کیا ہوا؟ پاکستان کا یہ عقلِ کل اس وقت تک مسلط رہا جب تک اس نے ملک کے دو ٹکڑے نہیں کر دئیے۔ آج سے دس سال قبل جنرل پرویز مشرف کی رخصتی میں عدلیہ بحالی تحریک نے کلیدی کردار ادا کیا تھا اور یہی وہ ٹرننگ پوائنٹ تھا جس کے بعد چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے عقلِ کل کا تاج آرمی ہاؤس سے اٹھا کر سپریم کورٹ میں سجا لیا تھا۔
ان سے پہلے ججوں کے فیصلے بولا کرتے تھے لیکن اس کے بعد جج حضرات فیصلوں کی بجائے خود بولنا شروع ہو گئے اور ان کا سارا دھیان انصاف دینے کی بجائے ٹیلی ویژن پر چلنے والے اپنے ریمارکس کے ٹکرز کی طرف چلا گیا۔
بیوروکریسی، فوج اور عدلیہ ملک کے تین اہم ادارے ہیں لیکن ہماری 70 سالہ تاریخ ثابت کرتی ہے کہ باری باری تینوں نے ہی اپنے آپ کو عقلِ کل سمجھتے ہوئے پاکستانی عوام کے مینڈیٹ کو اس قدر کاری ضرب لگائی کہ ووٹ کے ذریعے بننے والے ملک میں ووٹ ہی سب سے بے توقیر ٹھہرا۔ پاکستان میں عوام کی منتخب کردہ حکومتوں کو کبھی بیوروکریٹس نے اپنی سازشوں کی بھینٹ چڑھایا اور کبھی انہیں فوجی بوٹوں نے مسل کر رکھ دیا اور ہر موقع پر عدلیہ نے عوام کی بجائے ان کے حقوق غصب کرنے والوں کا ساتھ دیا۔
پاکستانی عوام کے لئے سب سے اہم بات ان کے بنیادی حقوق کی بحالی ہے۔ پاکستانی عدالتوں میں لاکھوں مقدمے عشروں سے لٹکے ہوئے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ ا نہیں نمٹا کر عوام کو جلد از جلد انصاف دینا اعلیٰ عدلیہ کی ترجیحات میں کبھی شامل ہی نہیں رہا۔
پاکستانی عوام کو آئین کی بال سے کھال اتارنے سے زیادہ دلچسپی اپنے ان مقدمات کی ہے جو کئی نسلوں سے عدالتوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ پچھلے دنوں ایک مقدمے کا فیصلہ پورے 100 سال بعد ہوا جو 1918ء سے چل رہا تھا۔
اسی طرح بہت سے مقدمات ایسے ہیں جو پچاس پچاس سال سے لٹکے ہوئے ہیں۔ ہمارے دانشور اور تجزیہ کار فلاں یا فلاں کے ڈاکٹرائن کی بحثوں میں الجھے رہتے ہیں، پاکستان کے عوام کی ڈاکٹرائن تو اس وقت ہو گی جب ان کے منتخب کئے ہوئے نمائندوں کو کام کرنے دیا جائے گا اور اس کا واحد طریقہ پارلیمان کی بالادستی ہے ۔
ساری دنیا کے ساتھ پاکستان بھی اکیسویں صدی میں داخل ہوا تھا لیکن ہمارے بہت سے لوگ ذہنی طور پر ابھی تک پچھلی صدی میں ہی رہ رہے ہیں۔ اگر پاکستان کو صحیح معنوں میں اکیسویں صدی میں باقی دنیا کے ساتھ چلنا ہے تو پہلا فیصلہ یہ کرنا ہو گا کہ کوئی فرد یا کوئی ادارہ عقلِ کل نہیں ، بلکہ ذمہ دار عہدے پر بیٹھا ہر فرد اپنی آئینی ذمہ داریوں کے مطابق اپنا کردار ادا کرے گا اور پاکستان کے تمام ادارے اپنی اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے کام کریں گے ۔
اس کے بعد دوسرا اہم ترین فیصلہ یہ کرنا ہو گا کہ عوام کے مینڈیٹ کو ہر قیمت پر مقدم رکھا جائے گا، پارلیمان کی بالادستی کو دل سے تسلیم کیا جائے گا اور کسی منتخب وزیراعظم کے خلاف سازشیں نہیں کی جائیں گی۔
تیسرا اہم فیصلہ یہ کرنا ہوگا کہ ہماری عدالتیں آئینی موشگافیوی اور بال کی کھال اتارنے کی بجائے ان کئی ملین مقدمات کو نمٹائیں گی جو سالہا سال سے زیرِ التوا ہیں۔
یہی واحد طریقہ ہے جس سے وفاقِ پاکستان مضبوط ہو سکتا ہے، ورنہ خود کو عقلِ کل سمجھنے والا تو جنرل یحییٰ خان بھی تھا جو کہا کرتا تھا کہ اس کا دماغ ہی پاکستان کا آئین ہے۔