وہ کون تھا ؟ایک خنّاس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 28ویں قسط
اس نے قمیص شلوار کے ساتھ بڑا سا دوپٹہ اوڑھا ہوا تھا اور ساتھ حجاب بھی پہنا ہو اتھا۔ اس نے اپنا ہینڈ بیگ اٹھایا اور انتہائی شائستگی سے گویا ہوئی۔’’آپ لوگ تیار ہیں تو چلتے ہیں۔‘‘
رخسانہ نے ساحل کو آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارہ کیا کہ وہ حوریہ کا یہ روپ بھی دیکھ لے۔ ساحل کی نظروں میں حیرانی تھی اس نے پہلی بار حوریہ کو اس روپ میں دیکھا تھا۔ یوں لگ رہا تھا کہ وہ حوریہ ہے ہی نہیں۔ توقیر نے رخسانہ کو ساتھ جانے کے لیے منا لیا اور وہ سارے سیر و تفریح کے لیے نکل گئے۔
لونگ ٹریک پر چہل قدمی کرتے ہوئے وہ جوڑوں میں تقسیم ہوگئے ان کے پاس ایک دوسرے سے رابطے کے لیے موبائل تھے اس لیے جس کو جو سائیڈ پسند آئی وہ اس طرف نکل گیا۔ ہینڈی کیم ساحل اور حوریہ کے پاس تھا وہ دونوں چڑھائی کی طرف چڑھتے ہوئے کسی پہاڑ پر پہنچ گئے یہاں سے اطراف کا نظارہ بہت خوبصورت دکھائی دے رہا تھا۔
ساحل ہنڈی کیم سے ویڈیو بنا رہا تھا نچلی سڑک پر چلتے ہوئے ظفر نے اسے ہاتھ سے اشارہ دیا۔’’Take care۔‘‘
وہ کون تھا ؟ایک خنّاس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 27ویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ساحل کیمرہ پیچھے کرکے مسکرا دیا۔ اس نے حوریہ کی طرف دیکھا جو اردگرد کے نظاروں کی خوبصورتی میں محو تھی۔ ساحل نے کیمرہ اس کی طرف بڑھایا۔’’یہ لو اپنی پسند کے نظارے کو اس میں محفوظ کر لو۔‘‘
حوریہ کندھے اچکا کر انتہائی معصومیت سے بولی’’مجھے اسے استعمال کرنا نہیں آتا۔‘‘
ساحل نے حیرت سے کہا’’کیا۔۔۔تم ویڈیو بنانے میں بہت مہارت رکھتی تھی۔۔۔؟‘‘
حوریہ متذبذب سی کیفیت میں گھاس پر بیٹھ گئی۔’’پتہ نہیں میں کیا تھی اور کیا بن گئی ہوں مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آتا۔‘‘
ساحل نے دیکھا کہ حوریہ باتیں کرنے کے موڈمیں ہے تو وہ اس کے قریب بیٹھ گیا۔’’کبھی ایسا ہوا ہے کہ کوئی چیز یا جگہ دیکھ کر تمہارے ذہن میں دھندلے سے سائے ابھرنے لگے ہوں۔‘‘
حوریہ نے ساحل کی طرف دیکھا۔ ’’امی ابو کہتے ہیں کہ میں اپنی یادداشت کھو چکی ہوں مگر میرے ذہن میں کوئی تو ایسا عکس ہو جس سے مجھے لگے کہ یہی میرے ماں باپ ہیں۔‘‘
’’تمہیں کون سی چیز اپنی طرف کھینچتی ہے مجھے بتاؤ شاید میں تمہاری مدد کر سکوں۔‘‘
ساحل کی بات سن کر حوریہ کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی’’مجھے ایسا لگتا ہے کہ انکل توقیر اور آنٹی رخسانہ میرے والدین نہیں ہیں۔ وہ گھر بھی میرا نہیں ہے۔ مگر مجھے اپنے والدین اپنا گھر صاف صاف یاد کیوں نہیں آتا۔ میں کہیں کوئی لکڑی کٹتے دیکھتی ہوں تو لکڑی کے آرے کا دھندلا سا منظر میرے ذہن میں دکھائی دینے لگتا ہے پھر ایک گاؤں میں کچا سا مکان اس میں ہنسنے اور رونے کی آوازیں اور پھر کلہاڑی سے لکڑی پر ضرب لگانے کی مسلسل آوازیں میرے ذہن میں گونجنے لگتی ہیں۔ میں اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ کر سر پر تکیہ رکھے اس تکلیف دہ کیفیت سے چھٹکارا پانے کی کوشش کرتی ہوں۔‘‘
حوریہ نے اپنے گھنٹوں پر سر رکھ لیا۔ ساحل نے اس کا ہاتھ تھاما’’تم زیادہ نہ سوچو ادھر آئی ہو تو انجوائے کرو۔ واپس جائیں گے تو ڈاکٹر سے یہ ساری باتیں کریں گے۔‘‘
حوریہ کو سمجھا کے ساحل خود سوچ میں پڑ گیا۔ حوریہ جو کچھ کہہ رہی ہے وہ نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ حوریہ کی شخصیت کے دو پہلو اور پھر یہ باتیں ضرور، ان کے پیچھے کوئی بڑا راز ہے۔ ساحل نے حوریہ کی آنکھوں میں جھانکا جن میں وہ سفاکی نہیں تھی جو اکثر حوریہ کی آنکھوں میں نظر آتی تھی۔
’’کبھی خود میں اچانک بدلاؤ محسوس کیا ہے۔‘‘
حوریہ نے اپنے خشک لبوں کو تر کیا’’ہاں اچانک ہی چھوٹی چھوٹی باتوں پر غصہ آنے لگتا ہے ۔ایسا لگتا ہے کہ میں یکسر بدل گئی ہوں پلیز آپ مجھ سے اور کچھ نہ پوچھیں میرے سر میں درد ہو رہا ہے۔‘‘
’’اوکے۔۔۔آؤ آگئے چلتے ہیں۔‘‘ ساحل نے حوریہ کا ہاتھ تھام کر اسے کھڑے ہونے کے لیے سہارا دیا کیونکہ پہاڑ کی سطح غیر ہموار تھی۔
***
رات کے گیارہ بج رہے تھے۔ سبحان ہوٹل کے باہر ابھی تک لوگوں کی گہما گہمی تھی۔ ظفر توقیر اور دوسرے لوگوں کے ساتھ اسی ہوٹل میں ٹھہرے تھے۔ ساحل نے بالائی منزل میں کمرہ لیا تھا۔ اس کی کھڑکی سے باہر کا نظارہ بہت خوبصورت تھا۔
آسمان ٹمٹماتے ستاروں سے بھرا ہوا تھا۔ ساحل کھڑکی کھولے آسمان کی طرف دیکھ رہا تھا۔ یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ ان ستاروں کو چھو سکتا ہے اپنی اس ناممکن سی خواہش پر اسے وشاء کا خیال آگیا۔ باہر کے نظارے اچانک غائب ہوگئے اور اس کی نظروں کے سامنے وشاء کا چہرہ چھا گیا۔ ساحل خود سے باتیں کرنے لگا۔’’ہماری آنکھوں کے کچھ خواب بس خواب ہی رہتے ہیں کبھی حقیقت کا روپ نہیں دھارتے۔‘‘ میں نے وشاء کی خوشی کے لیے اسے ٹھکرایا اور تقدیر نے مجھ سے میری خوشیاں ہی چرالیں۔ حوریہ کی باتیں کوئی راستہ دکھانے کے بجائے ہمیں الجھا دیتی ہیں۔
’’کیوں ہمیں کوئی نشان نہیں مل رہا۔ ہمارے اردگرد ہونے والے واقعات کے پیچھے کوئی تلخ حقیقت چھپی ہے۔‘‘
ایسے ہی سوچوں میں کھوئے کھوئے ساحل بستر پر لیٹ گیا۔ اسے کافی تھکاوٹ محسوس ہو رہی تھی۔ آنکھیں نیند سے بوجھل ہونے لگیں۔ جلد ہی وہ نیند کی آغوش میں چلا گیا۔ کمرے کی کھڑکی کھلی ہوئی تھی ہوٹل کے بارہ اور مال روڈ پر لوگوں کی گہما گہمی تھی۔ رات میں بھی دن کا سا سمان تھا۔ رنگوں سے بھری ایک خوبصورت تتلی کھڑکی سے اڑتی ہوئی کمرے میں آئی۔
ساحل گہری نیند سو رہا تھا۔ چیڑ کے درختوں سے جنگلی جانوروں کی مہین سی آوازیں مل کر عجیب سا تاثر دے رہی تھیں جیسے وادی نے اپنے سیاہ بال کھولے ستاروں کو آنچل میں سجائے ماتھے پر چاند کی بندیا سجائے اپنی سریلی آواز میں گا رہی ہو۔ خوبصورت تتلی ساحل کے چہرے کے قریب اڑنے لگی پھر اس کی دونوں بھنوؤں کے درمیان میں بیٹھ گئی۔
ساحل نے جھرجھری سی لی مگر اس نے آنکھیں نہیں کھولیں پھر اس کی آنکھیں کوئی خواب دیکھنے لگیں۔ وہ ایک خوبصورت وادی میں ہے ۔جہاں ہر سو سبزہ ہی سبزہ ہے جو خوبصورت پھولوں سے بھرا ہوا ہے۔ تاحد نظر باغات ہی باغات ہیں۔ اس خوبصورت ماحول میں ساحل کو اپنے علاوہ کوئی دوسرا دکھائی نہیں دے رہا۔ پھر اچانک ہی پازیب کی جھنکار کی آوا اس کی سماعت سے ٹکراتی ہے۔ وہ آواز کی سمت کا تعین کرنے لگتا ہے۔(جاری ہے)
وہ کون تھا ؟ایک خنّاس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 29 ویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں