شاہین سیریز جیت گئے
پاکستان کرکٹ ٹیم کو مبارک ہو کہ اس نے جنوبی افریقہ کی ٹیم کو اسی کی سرزمین پر 2-1 سے ہرا کر تین ایک روزہ میچوں کی سیریز جیت لی۔ سب خوش ہیں کہ یہ واقعہ سات سال کے بعد وقوع پذیر ہوا، کرکٹ ٹیم نے پہلے دونوں میچوں والی ٹیم میں چار تبدیلیاں کیں،ایک تو مجبوری تھی، تاہم باقی تین کھلاڑیوں کو بری کارکردگی کی بنا پر تبدیل کیا گیا،اور یہ مثبت فیصلہ ثابت ہوا، میچ کی خصوصیت فخر زمان، بابر اعظم، امام الحق اور حسن علی کی کارکردگی تھی،جبکہ باؤلر حضرات نے اس فائنل میچ میں نسبتاً بہتر باؤلنگ کی،پہلا ون ڈے کھیلنے والے عثمان قادر نے جنوبی افریقہ کی جم کر کھیلنے والی اوپننگ جوڑی توڑی، تو محمد نواز نے بھی تین وکٹیں لے کر اپنا حصہ ڈالا، سابقہ میچوں کی نسبت شاہین آفریدی نے بھی فنشنگ اوور اچھے کئے۔یہ درست ہے کہ سیریز جیت لی اور داد کے ڈونگرے بھی برسائے جا رہے ہیں،لیکن سوال پھر وہی ہے کہ ٹیم مینجمنٹ کی اپنی ساکھ بہت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ آصف علی کو بار بار آزمانا ایک چڑ بن چکی ہے، جبکہ دانش کو اگر ڈومیسٹک میں اچھی کارکردگی کی بنا پر شامل کیا گیا تو اس کے لئے پہلا میچ ہی کافی تھا اور نظر آ گیا تھا کہ وہ دباؤ کا شکار ہیں، جبکہ آصف علی نے اپنی روایت برقراررکھی اور میچ جتوانے کی بجائے دوسرا میچ ہروا دیا،حالانکہ فخر زمان اور بابر اعظم کی جوڑی کی رفاقت میچ وننگ تھی،لیکن بابر کے بعد کسی بھی کھلاڑی نے فخر کا ساتھ نہ دیا اور وہ اکیلے ہی تاریخی اننگ کھیل گئے،لیکن میچ نہ بچا سکے کہ ان کے سامنے کوئی کھڑا نہ ہوا، دوسرے ایک روزہ میچ نے یہ سوال بھی پیدا کیا کہ ٹیم کے باؤلنگ کوچ وقار یونس کیسے کوچ ہیں کہ اب تک باؤلروں کو فنشنگ اوورز کے باؤلر نہیں بنا سکے، محترم یوں بھی طویل مدت سے وابستہ ہیں اس کے ساتھ ہی یہ بھی پوچھا جا رہا ہے کہ مصباح الحق کی افادیت کیا ہے کہ بیٹنگ کی کوچنگ کے لئے تو یونس خان ہیں اور فیلڈنگ کی مشق کے لئے الگ کوچ ہے۔دعویٰ یہ ہے کہ نوجوانوں کو آگے لا کر ورلڈ کپ کے لئے ٹیم تیار کی جا رہی ہے اِس لئے تجزیہ بہت ضروری ہے۔