لندن پلان

 لندن پلان
 لندن پلان

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 سابق وزیراعظم اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ایک بار پھر  ”لندن پلان“ کا ذکر کیا اور کہا ہے کہ جھوٹے مقدمات اور گرفتاریوں سے تحریک انصاف کو کچلنا لندن پلان کا حصہ ہے، کپتان اس سے قبل یہ بھی کہہ چکے کہ ان کو سزا دلانا اور نااہل کرنا بھی لندن پلان کا حصہ ہے جبکہ خود پر قاتلانہ حملے سے قتل کے منصوبے تک کا بھی ذکر کرتے رہے ہیں۔ عمران خان کی طرف سے لندن پلان کے عنوان سے سازش کا ذکر کیا گیا تو یہ کوئی پہلی بار نہیں اور نہ ہی لندن پلان کا ذکر کوئی پہلا ہے۔اس کی روائت 1972-73ء سے شروع ہوئی اور اب تک جاری ہے۔
آج اس لندن پلان کے پس منظر کی بات کر لیتے ہیں۔ 1970ء کی بے روزگاری کے بعد جولائی 70ء میں محمد حنیف رامے کی ادارت میں روزنامہ ”مساوات“ کا اجراء ہوا تو دوسرے دوستوں کے ساتھ میں بھی رپورٹنگ سٹاف میں شامل ہوا۔ منو بھائی چیف رپورٹر تھے اور اخبار میں محترم بشیر احمد، بشیر الاسلام عثمانی اور شفقت تنویر مرزا کے علاوہ مسعود اشعر بھی شریک سفر تھے۔ انتخابی عمل کی تکمیل کے بعد جو ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے اور اس کے ہم لوگ بھی شاہد ہیں، منقسم پاکستان کے موجودہ پاکستان میں اقتدار کی منتقلی کی کشمکش تھی، اس دوران ذوالفقار علی بھٹو باقی ماندہ ایوان میں اکثریت کے باعث وزارت عظمیٰ کے دعویدار تھے جبکہ جنرل یحییٰ کی طرف سے تاخیر کی جا رہی تھی، اس دوران پیپلزپارٹی مخالف سیاست دان بھی بوجوہ حامی تھے اور یہ کشمکش جاری تھی۔
لندن پلان کے ذکر سے پہلے ایک اور واقعہ دہرا دوں کہ تاخیر ہوئی تو بھٹو صاحب نے کراچی میں پیپلزپارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ (سی ای سی) کا اجلاس فائیو سٹار ہوٹل میں طلب کیا، اجلاس شروع ہونے سے قبل ان کی طرف سے اس اجلاس کو انتہائی خفیہ قرار دیا گیا اور اس کی کوریج پر بھی پابندی عائد کر دی، صحافی حضرات کو معذرت کرکے باہر نکال دیا گیا، اس اجلاس میں ذوالفقار علی بھٹو نے بہت زور دار تقریر کی اور ان کا لہجہ بھی دھمکی آمیز تھا، مراد یہی کہ اقتدار منتقل کیوں نہیں کیا جا رہا؟ بہرحال یہ اجلاس اس حوالے سے مفید رہا کہ جنرل یحییٰ کے ساتھی حضرات کی طرف سے اقتدار کی منتقلی کا عمل کرا ہی دیا گیا اور یوں ذوالفقار علی بھٹو صدر، سی ایم ایل اے بن گئے۔ اقتدار منتقل ہو گیا،ان کا صدارتی عمل 1973ء کے آئین کی منظوری تک چلا۔ اس دوران جو سیاست دان حزب اختلاف میں تھے ان میں کونسل لیگ کے مرکزی صدر اور سابق وفاقی وزیر اور پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں محمد ممتاز دولتانہ بھی شامل تھے۔
روزنامہ ”مساوات“ میں ہم نے ورکرز یونین کا اجراء کیا، پہلے ہی انتخابات میں 1972-73ء کے عرصہ کے لئے میں صدر منتخب ہو گیا تھا، اس عرصہ میں محمد حنیف رامے صوبائی حکومت میں شامل ہوئے اور ان کی جگہ روزنامہ ”مساوات“ کے مدارالہام میاں محمد اسلم بنے۔ یونین کی مجلس عاملہ اور جنرل کونسل نے مطالبات کی فہرست مرتب کی اور میاں اسلم کو پیش کر دی گئی۔ اس حوالے سے بیگم نصرت بھٹو سے بھی خط و کتابت ہوئی جو بورڈ کی چیئرپرسن تھیں مذاکرات میاں محمد اسلم سے ہوئے انہوں نے بعض انتظامی مطالبات پورے کر دیئے اور مالی مطالبات کے حوالے سے اعلیٰ انتظامیہ کا ذکر کیا۔ مختصراً یہ کہ اس حوالے سے اس وقت پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین اور صدر مملکت ذوالفقار علی بھٹو سے ملاقات طے کرا دی گئی، گورنر ہاؤس لاہور میں میاں اسلم کے ساتھ بھٹو صاحب  سے یونین کے وفد نے ملاقات کی۔اس میں میرے ساتھ مسعود سلمان، جنرل سیکرٹری وجاہت حسین ڈار اور الطاف حسین قریشی بھی تھے۔ بھٹو صاحب سے ملاقات کا دورانیہ پندرہ منٹ طے تھا، لیکن یہ ڈیڑھ گھنٹے تک چلی، جہاں تک مطالبات کا تعلق تھا تو بھٹو صاحب نے ابتداء ہی میں منظوری دے دی تاہم بات اخبار کے حوالے سے آگے بڑھائی ان کا موقف تھا کہ اخبار انہوں نے اپنے ویژن کی تشہیر کے لئے نکالا ہے، اگرکارکنوں کو صرف روزگار دینا ہی مقصود ہوتا تو وہ (بھٹو) کوئی مل لگاتے۔ ان کا کہنا تھا کہ اخبار میں جھلک ہونا چاہیے، ہم نے گزارش کی کہ پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کا بھی دباؤ ہوتا ہے اور پالیسی بھی، بھٹو صاحب نے کہا آپ لوگ آزادی سے کام کریں، اخلاقیات اور آداب کو ملحوظ رکھیں اور چاہیں تو میری پالیسی کو بھی مثبت تنقید کے زمرے میں شمار کریں،اس  کے ساتھ ہی انہوں نے سوال کیا کہ آپ لوگ کیا کر رہے ہیں۔ آپ کو تویہ بھی علم نہیں کہ لندن میں کیا ہو رہا ہے۔ ان دنوں میاں محمدممتاز دولتانہ اور ولی خان کے علاوہ بعض اور مرکزی سیاست دان لندن میں تھے اور ان کے درمیان ملاقاتیں ہوئی تھیں اس پر گفتگو ہوئی اور واپسی پر ہم نے کارکنوں کو تو مطالبات منظوری کی خوشخبری دی، جبکہ الطاف حسین قریشی نے خبر لکھی جو روزنامہ ”مساوات“ میں ”لندن پلان“ کی شہ سرخی کے ساتھ شائع ہوئی۔ خبر کے حوالے سے یہ پہلا لندن پلان تھا، یہ الگ بات ہے کہ بعد ازاں ”لندن پلان“ کے محرک میاں محمد ممتاز خان دولتانہ اسی برطانیہ میں پاکستان کے ہائی کمشنر (سفیر) متعین ہوئے جس ملک کا دارالحکومت لندن ہے۔ قارئین! یہ ہے وہ لندن پلان جو پہلی مرتبہ سامنے آیا اور اس کے بعد کئی بار ایسا کہا گیا، اب محترم عمران خان بھی یہی کہہ رہے ہیں۔اگرچہ انہوں نے نام تو نہیں لیا، لیکن روئے سخن مسلم لیگ (ن) کے قائد سابق وزیراعظم محمد نواز شریف ہی کی طرف سے ہے کپتان نے بھی لندن پلان کے حوالے سے اپنے طور پر تفصیلات سے آگاہ کیا ہے۔ یہ یاددہانی کے لئے عرض کیا ورنہ حقائق  تو یہی ہیں کہ ماضی کے پہلے لندن پلان کے محرک مورد الزام تو کیا ٹھہرتے وہ عزت پا گئے تھے اور محترم بھٹو صاحب ہی کے حکومت کے ترجمان بن کر لندن میں مقیم رہے۔
عرض اس لئے کیا کہ سیاست خصوصاً ہماری ملکی سیاست بے یقینی کے عملی دور سے گزرتی رہتی ہے، کپتان نے کہا کہ وہ ”چوروں اور ڈاکوؤں“ کے ساتھ نہیں بیٹھیں گے لیکن اب تو ان کے معتمد حضرات اسد قیصر اور فواد چودھری نے بھی مذاکرات کی تجویز دی ہے۔ اگرچہ انداز مختلف ہے، اسد قیصر کہتے ہیں کہ مذاکرات ہوں تو بیک وقت  قومی اور صوبائی انتخابات کے اکتوبر تک التواء کے حوالے سے تحریک انصاف ترمیم (خواہ آئین میں ہو) میں بھی ساتھ دے سکتی ہے جبکہ فواد چودھری کی تجویز زمانہ حال کے مطابق ہے وہ کہتے ہیں، اتحاد، تحریک انصاف اور اسٹیبلشمنٹ  کے درمیان مذاکرات ہونا چاہئیں، سینیٹ میں کھڑے ہو کر دانشور سینیٹر مشاہد حسین نے جو مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر ہوئے فریقین کو صلح کن انداز اختیار کرنے کی تلقین کی اور مسلم لیگ(ن) سے کہا کہ وہ تحریک انصاف سے مذاکرات کریں کہ دونوں آپس میں لڑ رہے ہیں اور تحریک انصاف اسٹیبلشمنٹ کے پیچھے پڑی ہوئی ہے، یہ جھگڑا طے ہونا چاہیے، دیکھتے ہیں، کیابنتی ہے قطرے پہ گوہر ہونے تک!
میں اس تنازعہ سے گریز پا ہوں جو آئینی اور قانونی موشگافیوں کے حوالے سے چل رہا اگرچہ میرا اپنا  موقع ہے تاہم ہم سب کو تحمل کامظاہرہ اور دعا کرنا چاہیے کہ اللہ سب اچھا کرے۔

مزید :

رائے -کالم -