کیلیفورنیا میں خالصتان کے قیام کیلئے ریفرنڈم
امریکی ریاست کیلیفورنیا میں خالصتان کے قیام کیلئے ریفرنڈم میں ووٹنگ کا دوسرا مرحلہ مکمل ہوگیا جس میں مجموعی طور پر 2 لاکھ سکھوں نے ووٹ ڈالا۔ سکھ فار جسٹس کے زیراہتمام ریفرنڈم کے پہلے مرحلے میں ایک لاکھ 27 ہزار اور دوسرے مرحلے میں 60 ہزار ووٹ پڑے، ریفرنڈم میں حصہ لینے والے سکھوں کی حفاظت کیلئے امریکی پولیس کے علاوہ سنائپرز بھی موجود رہے۔
ووٹنگ کا پہلا مرحلہ خالصتان کی تحریک کے رہنما گرپتونت سنگھ پنوں کے قتل کی سازش کے چند ہفتوں بعد ہی منعقد ہوا تھا، پہلے مرحلے میں وقت ختم ہوجانے کے سبب کئی ہزار سکھ اپنا ووٹ نہیں ڈال سکے تھے۔ 31 مارچ کو پہلے مرحلے میں ووٹ ڈالنے سے محروم رہ جانیوالے سکھوں کو ووٹ ڈالنے کا موقع فراہم کیا گیا تھا، کیلیفورنیا میں ریفرنڈم والے دن ووٹنگ کے آغاز سے قبل ہی 20 ہزار سکھ قطار لگا کر کھڑے تھے، ووٹ ڈالنے کے باوجود ہزاروں سکھ تمام دن سینٹر میں موجود رہے، دن بھر بھارت کے خلاف نعرے بازی کی جاتی رہی۔ 31 مارچ کو ہونے والی ووٹنگ سینٹر کا نام بھی شہید جتھے دار کانکے رکھا گیا تھا، شہید کانکے نے سکھوں کو حق خودارادیت دلانے کیلئے انتھک محنت کی۔
کونسل جنرل ایس ایف جے گرپتونت سنگھ پنوں نے کہاکہ شہید کانکے کے راستے پر چلتے ہوئے آزادی حاصل کریں گے۔ ہم جمہوری طریقے سے نریندر مودی کی سیاسی موت چاہتے ہیں۔ گرپتونت سنگھ پنوں نے کہا کہ بھارت سکھوں کی نسل کشی میں ملوث ہے۔ کانگریس کے دور میں شروع ہونے والی نسل کشی کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔بھارت سے آزادی حاصل کرنے کیلئے سکھ ہر ممکن کوشش کریں گے۔ پنجاب ریفرنڈم کمیشن کے مطابق ریفرنڈم کا اگلا مرحلہ 28 جولائی کو کیلگری کینیڈا میں ہوگا۔
خالصتان کا لفظ پہلی بار1940 میں سامنے آیا تھا۔ اسے ڈاکٹر ویر سنگھ بھٹی نے مسلم لیگ کے لاہور مینیفیسٹو کے جواب میں ایک پمفلٹ میں استعمال کیا۔اس کے بعد، اکالی رہنماؤں نے 1966 میں لسانی بنیادوں پر پنجاب کی تنظیم نو سے پہلے، 60 کی دہائی کے وسط میں پہلی بار سکھوں کی خودمختاری کا مسئلہ اٹھایا۔ 70 کی دہائی کے اوائل میں چرن سنگھ پنچی اور ڈاکٹر جگجیت سنگھ چوہان نے پہلی بار خالصتان کا مطالبہ کیا۔ ڈاکٹر جگجیت سنگھ چوہان نے 70 کی دہائی میں برطانیہ کو اپنا اڈہ بنایا اور امریکہ اور پاکستان بھی گئے۔ 1978 میں چندی گڑھ کے کچھ نوجوان سکھوں نے خالصتان کا مطالبہ کرتے ہوئے دل خالصہ تشکیل دی۔
سکھوں کی مسلح تحریک کا پہلا مرحلہ گولڈن ٹیمپل یا سری دربار صاحب کمپلیکس پر حملے کے ساتھ ختم ہوا، جو کمپلیکس کے اندر موجود عسکریت پسندوں کو بھگانے کے لیے کیا گیا تھا۔ اسے 1984 میں آپریشن بلیو سٹار کے نام سے جانا جاتا ہے۔مسلح جدوجہد کے دوران زیادہ تر عسکریت پسندوں نے جرنیل سنگھ بھنڈرانوالے کو اپنا لیڈر تسلیم کر لیا تھا۔ حالانکہ اس آپریشن کے دوران جرنیل سنگھ بھنڈرانوالے مارے گئے تھے۔
خالصتان کا پہلا باضابطہ مطالبہ 29 اپریل 1986 کو عسکریت پسند تنظیموں کی یونائیٹڈ فرنٹ پنتھک کمیٹی نے کیا تھا۔اس کا سیاسی مقصد یوں بیان کیا گیا: ’اس خاص دن پرمقدس اکال تخت صاحب سے، ہم تمام ممالک اور حکومتوں کے سامنے اعلان کر رہے ہیں کہ آج سے ’خالصتان‘ خالصہ پنتھ کا الگ گھر ہو گا۔ خالصہ اصولوں کے مطابق تمام لوگ خوشی اور مسرت سے زندگی گزاریں گے۔‘’ایسے سکھوں کو حکومت چلانے کے لیے اعلیٰ عہدوں کی ذمہ داری دی جائے گی، جو سب کی بھلائی کے لیے کام کریں گے اور اپنی زندگی پاکیزگی کے ساتھ گزاریں گے۔‘
اب خالصتان کا مطالبہ امریکہ، کینیڈا اور برطانیہ جیسے ممالک میں رہنے والے بہت سے سکھوں کی طرف سے اٹھایا جا رہا ہے۔ اگرچہ ان ممالک میں رہنے والے سکھوں کی بہت سی تنظیمیں جو اس مسئلے کو مسلسل اٹھا رہی ہیں، لیکن پنجاب میں انھیں زیادہ حمایت حاصل نہیں ہے۔سکھس فار جسٹس امریکہ میں مقیم ایک گروپ ہے۔ بھارتی حکومت نے 10 جولائی 2019 کو غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے ایکٹ (یو اے پی اے) کے تحت اس پر یہ کہتے ہوئے پابندی لگا دی تھی کہ اس تنظیم کا علیحدگی پسند ایجنڈا ہے۔اس کے ایک سال بعد 2020 میں بھارتی حکومت نے خالصتانی گروپوں سے وابستہ نو افراد کو دہشت گرد قرار دیا اور تقریباً 40 خالصتان نواز ویب سائٹس بند کر دیں۔سکھس فار جسٹس کے مطابق ان کا مقصد سکھوں کے لیے ایک خود مختار ملک بنانا ہے، جس کے لیے گروپ سکھ برادری کے لوگوں کا تعاون حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔سکھس فار جسٹس کا قیام سال 2007 میں امریکہ میں عمل میں آیا۔ اس گروپ کا مرکزی چہرہ گروپتونت سنگھ پنوں ہے۔
سوال یہ ہے کہ آخر اس وقت ہی کیوں خالصہ تحریک دوبارہ زور پکڑ رہی ہے۔ تو جواب بڑا سیدھا سا ہے کہ ہندوستان میں ایک بہت بڑی اور منظم تحریک ہے جو ہندوستان کی ریاست کو مذہبی انتہا پسندانہ پیرائے میں چلانا چاہتی ہے۔ یہی سوچ اور تحریک ہے جس کی وجہ سے پاکستان وجود میں آیا۔ یہی سوچ اور تحریک ہے جس نے کشمیر کو دھونس کے ذریعے ہندوستان میں شامل کر کے جنوبی ایشیاء کے امن کو تباہ کیا اور یہی سوچ اور تحریک ہے جس کے نتیجے میں سکھوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہندوستان میں رہنے کے لیے تیار نہیں ہے۔حد تو یہ ہے کہ وہ شخص جو ہزاروں مسلمانوں کے قتل کا ذمہ دار گردانا گیا، اْسے انتخابات میں تاریخی فتح حاصل ہوئی۔
نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے کے ساتھ ہی ایک انتہاپسندانہ جارحانہ مذہبی تاثر دیا گیا۔ اس جارحیت کا جواب کسی نہ کسی شکل میں آنا تھا۔ نریندر مودی کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اگر وہ ہندو مذہبی احیاء کے سہارے ریاست چلانا چاہیں گے تو پھر دوسرے مذاہب کے ماننے والے بھی مزید آزاد ریاستوں کا مطالبہ کریں گے۔