پا رلیمانی نظام میں صد ر کاانتخا ب اور کر دار
پچھلی چند صدیو ں سے دو نظام حکو مت زیا دہ مقبو ل ہو ئے ہیں ،ان میں ایک صدارتی نظام حکو مت اور دوسر ا پارلیما نی نظام حکومت ۔ صد ارتی نظام حکو مت میںانتظامی اختیا رات کا مرکز صد ر ہو تا ہے ،جبکہ پارلیما نی نظام حکومت میں انتظامیہ پارلیمینٹ سے ہی لی جاتی ہے اور پارلیمنٹ کو جوابدہ ہو تی ہے ۔ حکومت کی کابینہ کے ارکان پارلیمنٹ کے ممبر ان ہو تے ہیں ۔ پارلیمنٹ کے باہرسے کو ئی بند ہ حکومتی کابینہ کا حصہ نہیں بن سکتا ۔ بر طانیہ ،ہند وستا ن اور کئی دوسر ے ملکو ں کی طر ح پاکستا ن میں بھی پارلیما نی نظام حکومت ہے،لیکن ہما رے ہا ں پارلیما نی نظام میں ہمیشہ سے صد ر کے اختیا را ت کا تعین کر نا دشو ار رہا ہے ۔اسی اختیارات کی لڑائی کی کھو کھ سے 1962ءمیں صدارتی نظام کے آئین نے جنم لیا، لیکن یہ فر د واحد کا بنا یا ہو آئین اس فر د واحد کے ساتھ قصہ پارینہ بن گیا ہے اور پاکستان کی 65سالو ں کی تاریخ میں بننے والے تین آئینوں میں کمزور تر ین آئین ثابت ہو ا ۔
صدارتی نظام کی ناکامی اور ملک کے دولخت ہو نے کے بعد بننے والے1973ءکے آئین نے صد ر کو ایک کو نے میں مقید کر دیا تھا، لیکن بعد میں اسی آئین میں ہو نے والی پے درپے تر امیم اور ایک سے زیا دہ کئی بار معطلیو ں نے صد رکو جمہوری ڈکٹیٹر بنا دیا، پھرہماری چھوٹی سی پارلیما نی تاریخ میں کئی منتخب اسمبلیاں اپنی مد ت پور ی ہو نے سے پہلے ہی جمہوری ڈکٹیڑ وں کے ہاتھو ں ختم ہو گئیں ، جبکہ بر طانیہ اور بھا رت میں ایسا نہیں ہوتا۔ بر طانیہ میںتو صد ر کی جگہ ملکہ یا بادشاہ نے لی ہو ئی ہے ، ان کے پاس کوئی اختیا را ت نہیں ہیں اور محض دکھا وے کے عہد ے ہیں ۔بر طانیہ میں لو گ چو نکہ بر طانو ی شا ہی خا ند ان سے محبت کر تے ہیں، اس لئے انہو ں نے شا ہی نظام کو قا ئم رکھا ہو ا ہے، ورنہ تو نظام حکو مت چلا نے کے اختیا را ت عو ام کے منتخب نما ئندو ں کے پا س ہی ہیں اور وہی ملک چلا رہے ہیں ۔
بر طانو ی بادشاہ نے کس طر ح اپنے اختیارات عو ام کے سپر د کئے، یہ ایک بہت لمبی تاریخ ہے اور بر طانو ی پارلمینٹ جو کہ دنیا بھر کی پارلیمنٹو ں کی ماں کا درجہ رکھتی ہے۔پارلیمنٹ کا مضبو ط ہو نا اور بادشاہ کا اختیارات سے دستبر دار ہو نا، یہ کئی صد یو ں پر محیط تاریخ ہے۔ بادشاہت کے زوال کے بعد دنیا بھر میں جہا ں بھی برطانیہ کی کی نما ئند گی کر نی ہو تو وہ ملک کا وزیر اعظم ہی کر تا ہے۔ بر طانیہ کا بادشاہ یا ملکہ کہیں بھی سر کا ری طو ر پر جا کر اپنے ملک کی نما ئند گی نہیں کرتے ۔ وہا ں پر اختیا رات کا منبع وزیراعظم ہی ہے ۔ بر طانیہ میں کئی موا قع پر بادشاہت ختم کرنے کا اعلان کیا گیا اور ایک بادشاہ چارلس Iجس کا اختیارات پر بر طانو ی پارلیمنٹ سے جھگڑ ا ہو گیا تھا، پارلیمنٹ نے 1649میںچارلس Iکو پھا نسی چڑھا دیا تھااور بادشا ہت کا خاتمہ کر دیا تھا،لیکن بعد میں پھر برطانوی پارلیمنٹ نے بادشا ہت کو بحا ل کر دیا تھا جو آج تک قا ئم ہے، لیکن سارے اختیا رات بر طانو ی پارلیمنٹ کے پا س ہیں۔
برطانوی پارلیمان کا تاریخ سازقانو ن جو 1707ءمیں پاس ہو ا اس نے بادشاہ سے تما م اختیارات چھین لئے۔ اس کے بر عکس اگر ہم امر یکی نظام حکومت کا جائز ہ لیں تو وہا ں پر صدراتی نظام ہے اور صد ر ہی ملک اور حکومت کا سر براہ ہے ۔ بھارت اور ہم ایک جیسا نظا م حکومت رکھتے ہیں، لیکن بھارت کے مقا بلے میں ہمارے ہا ں صد ر کے اختیارات پر زیا دہ مسائل رہے ہیں۔جس کی وجہ یہ ہے کہ ہما رے ہا ں فو جی حکو متیں اور بار بار آئینی معطل ہوتے رہے ۔ اب یہ ایک اور مسئلہ ہے کہ ہم نے بر طا نیہ سے آزادی حاصل تو کی، لیکن بر طا نو ی پا رلیمنٹ کے بنا ئے ہو ئے قوانین سے آزاد ی حا صل نہیں کی ۔صد ر کا عہدہ ہما ری مجبور ی ہے تو اس کا جو اب اتنا آسا ن نہیں ہے۔ پارلیما نی نظام میںوزیر اعظم صر ف حکو مت کاسر بر ہ ہو تا ہے، ملک کانہیںہو تا ۔ ملک کا سر براہ صد ر ہو تا ہے۔ پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 41(1)کچھ یو ں ہے.... There shall be President of Paksitan who shall be the Head of State and shall represent the unity of the Republic.....اس آرٹیکل سے صا ف ظا ہر ہے کہ صد ر مملکت کا سر بر اہ ہے اور اس کے ساتھ ساتھ صد ر کما نڈ ر انچیف بھی ہو تا ہے، جہا ں تک یہ دونوں باتیں ہیں تو ان اختیا رات پر تو کسی کو کو ئی اعتر اض نہیں ہے اور کسی بھی ریاست میں ایک ایسا عہد ہ جو سر بر اہ مملکت اور افواج کا کمانڈر انچیف ہو انتہا ئی لا زمی ہیں ، لیکن بات پھر سیاست پر آجا تی ہے کہ صد ر سیا سی کیو ں بن جا تا ہے تو اس بات کا جو اب صد ر کا الیکشن ہے ۔ اگر پاکستا ن کے صدارتی انتخابات کے طریقہ کا ر کو دیکھا جا ئے تو یہ ممکن ہی نہیں کو ئی بھی غیر سیا سی شخص صد ر پا کستا ن بن سکے ۔ صدر پاکستا ن اور ملکہ بر طا نیہ میں آئینی طو ر پر زمین آسما ن کا فرق ہے، کیونکہ ملکہ بر طا نیہ کو کسی اسمبلی سے ووٹ لینے کی ضرورت نہیں ہوتی، جبکہ ہمارے ہا ں وہی شخص صدر پاکستان کے عہد ے پر بر اجما ن ہو سکتا ہے جو تما م اسمبلیوں سے اکثر یتی ووٹ حاصل کر ے ۔ اس کے علا وہ پاکستان کے 1973ءکے آئین کے مطابق صد ر پاکستان کی پارلیمنٹ کا حصہ ہے ۔
آئین پاکستان کا آرٹیکل 50اس بارے بڑ ا واضح ہے ۔"There shall be majlis -e-shura ( parliament ) of Pakistan consisting of President and two houses to be known respectively as the National Assembly and the Senate"پاکستان کی پارلیمنٹ قو می اسمبلی ،سینٹ اور صدر پاکستان پر مشتمل ہے۔ اگر اٹھا رہویں تر میم کی رو سے دیکھا جا ئے تو صد رکے اکثر اختیا ر ات پارلیمنٹ کو واپس مل گئے ہیں۔ ہم نے مئی 2013ءکے انتخا بات میں دیکھا ہے کہ بیسو یں تر میم کے بعد اس بات کے امکا نا ت بھی نہ ہو نے کے بر ابر ہیں کہ صد ر نگر ان حکو مت یا نگر ان وزیر اعظم پر اثر انداز ہو سکیں ۔اب تو یہ ثابت ہو چکا ہے کہ اٹھا رہویں اور بیسو یں ترمیم کی وجہ سے نگر ان دور حکو مت میں صد ر کی سیا سی وابستگی بے معنی ہو گئی ہے ۔ اگر اب مستقبل میں کو ئی صد ر اختیارات پر قبضہ کر نے کی کو شش نہ کر ے تو صد ر کی سیا سی وابستگی والا مسئلہ ختم ہو گیا ہے، لیکن یا د رہے ہما رے جمہوری ادوار میں ایسی کو ششیں نہیں کی گئیں، ایسی کو شش زیا دہ تر فو جی حکمرانوں کی طر ف سے کی گئیں۔ ٭