لوگوں کو جینے دیں
پاکستان پیپلز پارٹی نے صوبہ سندھ میں اقتدار سنبھالنے کے بعد متحدہ قومی موومنٹ کو حکومت میں شمولیت کی دعوت دی۔ ایم کیو ایم نے اپنے حامیوں کے درمیان اس سوال پر کہ حکومت میں شمولیت کی جائے یا نہیں ؟ ریفرنڈم کرایا، جس کے نتائج کا اعلان بعض اسباب کی وجہ سے نہیں کیا گیا۔ حکومت سازی ہوئی۔ پیپلز پارٹی نے پہلے مرحلے پر بعض وزارتیں خالی رکھیں کہ مبادا ان کے سابق اتحادی آن ملیں۔ اس کے بعد بعض ایسے سیاسی بیانات کا تبادلہ ہوا جو فاصلے بڑھاتے نظر آئے۔ پھرصدارتی انتخاب کا مرحلہ آن پہنچا ، ایم کیو ایم نے وفاق میں برسراقتدار پاکستان مسلم لیگ(ن) کے امیدوار ممنون حسین کی حمایت کا اعلان کردیا۔ پیپلز پارٹی کو ایم کیو ایم کی نئی سیاسی کروٹ پسند نہیں آئی۔ اس کا خیال تھا کہ ایم کیو ایم اگر مسلم لیگ(ن) کے امیدوار کو ووٹ نہ دیتی تو صدر پاکستان وفاق کی علامت کے طور پر نہیں ابھر سکیں گے۔ بیانات میں پھر شدت آگئی۔ بارشوں کا دور شروع ہوا اور الزامات اورجوابی الزامات کا پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے درمیان ایسا سلسلہ شروع ہو گیا ہے جو اشارہ کرتا ہے کہ آگ سلگ رہی ہے۔ سندھ پاکستان کا ایسا دو لسانی صوبہ ہے، جہاں سندھی ، اردو، پنجابی اور پشتو بولنے والے رہائش رکھتے ہیں۔ ان کے درمیان پہلے ہی مختلف مواقع پر خون ریز تصادم ہوتے رہے ہیں، انسانی جانیں تلف ہوتی رہی ہیں، اس لئے اس صوبے کی سیاست کا تقاضہ ہے کہ سیاست کرنے والے تمام عناصر پھونک پھونک کر قدم اٹھائیں۔ اپنے اپنے بیانات میں الفاظ کا استعمال نہایت ہی احتیاط سے کریں کیونکہ ذرا سی بات بھی ان چنگاریوں کو ہوادے جائے گی جو لگائی جا چکی ہیں۔
کراچی جس خطر ناک دہشت گردی کا شکار ہے، کراچی میں بسنے والی آبادیاں جس خوف کا شکار ہیں اور حد تو یہ ہے کہ کراچی کی قدیمی کچھی آبادی کے باشندے اپنی جان کی امان کے لئے اپنے آبائی مکانات چھوڑ کر ضلع ٹھٹھہ اور بدین میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے ہیں ، جہاں وہ انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ لیاری کراچی میں ہونے والا اب تک کا آخری دھماکہ، جس میں ایک درجن بچے اپنی جانوں سے گئے، تقاضہ کرتا ہے کہ سب لوگ اپنی اپنی زبان بندی کریں۔ سخت الفاظ پر مبنی بیانات شدت ہی پیدا کرتے ہیں۔ شدت غم کو کم کرنے کی ضرورت ہے۔ لوگوں کو حوصلہ دینے کا وقت ہے۔ لوگوں کو جینے کا موقع دینے کی ضرورت ہے۔ یہ وقت سیاست کرنے کا نہیں ہے۔ صوبہ سندھ میں حکومت کرنا پیپلز پارٹی کا آئینی حق ہے اور اسے یہ حق پوری طرح استعمال کرنے دیا جانا چاہئے ،البتہ پیپلز پارٹی کواپنی اکثریت کی بنیاد پر مخالفین کے مفادات اور جذبات روند ڈالنے کی اجازت تو نہیں مل سکتی۔ بلدیاتی نظام کے نفاذ پر بھی دونوں کے درمیان خلیج ہے ۔ پیپلز پارٹی کو امتیازات سے بلند ہونا چاہئے۔ سفارش، رشتہ داری اور ہم زبان ہونے کی بنیاد پر نوازنے کی سیاست سے پرہیز کرنا چاہئے ۔ متحدہ قومی موومنٹ نے اپنی خواہش کی بنا پر صوبے میں حزب اختلاف میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا ہے اسے پیپلز پارٹی کو اطمینان سے حکومت کرنے کا موقع دینا چا ہئے اور اگر ممکن ہو تو اس کی مدد کرنی چاہئے۔
ہم نے دیکھا ہے کہ 1988ء سے1990ءتک سندھ جس خلفشار کا شکار رہا ہے اور خاندانوں کو جس طرح زخم لگے ہیں وہ ابھی تک مندملنہیں ہوئے ۔ 17جولائی 1988ءسے دل خراش واقعات کی ابتداءہوئی، جب ایم کیو ایم کے میئر آفتاب احمد شیخ پر قاتلانہ حملہ کیا گیا اور انتہا 1990ءمیں اڑھائی سو افراد مارے گئے تھے۔ دو گھنٹے بعد کراچی میں ایسی ہی سفاکانہ کارروائی دہرائی گئی تھی، جس میں کئی لوگوں کی جانیں تلف ہوئی تھیں۔ کئی حکومتیں آئیں اور گئیں، کسی نے آج تک عام لوگوں کو باضابطہ طور پر یہ نہیں بتایا کہ حیدرآباد اور کراچی کے واقعات کے ذمہ دار کون عناصر تھے۔ متاثرہ خاندانوں کے ساتھ سیاست دانوں اور اس وقت کی حکومت کے اکابرین نے ہمدردی کے دو بول ضرور بولے تھے، لیکن ایسی ہمدردی کس کام کی جو لوگوں کے دکھوں کا مداوا نہ کر سکے۔ بھوکا اور خالی پیٹ غصہ ہی پیدا کرتا ہے، خواہ ہمدردی کرنے کے لئے کتنے ہی پُراثر الفاظ کا استعمال کیوں نہ کیا جائے۔ کراچی اور حیدرآباد میں ہونے والی تازہ بارشوں کے بعد پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما بیانات سے کمر بستہ ہو کر نکلے ہیں۔ پیپلز پارٹی والوں کا خیال ہے کہ بارشوں کے دوران بلدیاتی اداروں میں ایم کیو ایم کے مقرر کردہ افسران اور اہل کاروں نے نکاسی آب میں رکاوٹیں کھڑی کیں اور سست رفتاری کا مظاہر کیا تاکہ صوبائی حکومت کو ناکام ثابت کیا جائے۔ بات بڑھی اور جا نکلی محکمہ بلدیات میں گزشتہ چار سال کے دوران کئے گئے ترقیاتی کاموں کے اخراجات کے حساب کتاب کا آڈٹ کرانے تک۔ نئی بحث کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو گیا۔
صوبے میں گزشتہ پانچ سال کے دوران سرکاری رقوم جس بے دریغ انداز میں خرچ کی گئی ہیں، ان کا باضابطہ آڈٹ ہر حال میں ہونا چاہئے۔ کوئی بھی سرکاری محکمہ اس آڈٹ سے بری نہیں ہونا چاہئے۔ محکمہ بلدیات کی وزارت آغا سراج درانی کے ماتحت تھی۔ بھرتیوں اور تقرریوں پر انہیں ہی دسترس حاصل تھی۔اپنی پسند کے افسران کو انہوں نے تلاش کر کر کے مقرر کیا۔ ان کی خواہش کے برعکس کچھ بھی ممکن نہیں تھا اور ان کی مرضی کو قانون پر بھی فوقیت حاصل تھی۔ ایم کیو ایم ہمیشہ شاکی رہی۔ بہت عرصہ ہوگیا ہے سندھ میں تقرری کا معیار کارکردگی یا اہلیت نہیں رہا ۔ سفارش، رشتہ داری اور سب سے بڑھ کر پیسہ تقرری کا معیار بن گیا ہے اور اس معیار سے تمام وزراءہی مستفید ہوئے۔ ایم کیو ایم کے وزرا ء کو کوئی استثنا حاصل نہیں ۔ کسی بھی محکمے کا کسی خورد بین کے بغیر بھی جائزہ لیں تو نظر آجائے گا کہ کیا کیا ہوا تھا۔ ایسے ایسے واقعات لوگوں کے علم میں ہیں کہ تقرریاں اس شرط پر کی گئیں کہ بجٹ کا آدھا حصہ متعلقہ وزیر صاحب کی نذر کر دیا جائے گا۔ افسران کی اکثریت نے اصول اور قانون کو بالائے طاق رکھ دیا تھا....” سیاں جی بنے کوتوال تو ڈر کاہے کا“۔
سندھ میں سیاسی عناصر کا ایک بڑا طبقہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان مفاہمت کی توقع رکھتا ہے۔ پیپلز پارٹی کے ووٹروں کی اکثریت سندھی زبان بولنے والوں پر مبنی قرار دی جاتی ہے، جبکہ ایم کیو ایم کے بارے میں پختہ تاثر ہے کہ اسے اردو زبان بولنے والوں کی حمایت حاصل ہے اور یہ جماعت ان کی ہی نمائندگی کرتی ہے۔ جب تقسیم اور تفریق کا اتنا زیادہ عمل دخل ہو تو سیاسی رہنماﺅں پر ذمہ داریاں بھی پہاڑ بن جاتی ہیں۔ ذرا سی لغزش، خواہ زبان میں ہو یا قدم میں، فاصلوں کو بڑھا دیتی ہے۔ پاکستان کے موجودہ حالات کا شدید تقاضہ ہے کہ سیاسی رہنما بلوغت کا عملًا ثبوت دیں ۔ اپنی زبان میں لرزش پر قابو رکھیں اور عام لوگوں کے لئے زندگی کا دائرہ محدود نہ کریں۔ بلوچستان میں جس طرح مسافر بسوں سے شناخت کر کے پنجابیوں کو اتارکرہلاک کیا گیا، اس میں سابق مشرقی پاکستان میں کی جانے والی کارروائیوں کا عکس نظر آتا ہے۔ سابق مشرقی پاکستان میں بھارت کی خفیہ ایجنسی را کا ہاتھ موجود تھا اور بلوچستان کے واقعات کے پس پشت بھی بھارت ہی سرگرم نظر آتا ہے۔ ملک ایک ایسی آگ میں دھکیل دیا گیا ہے اور خون کی جو بے دریغ ہولی کھیلی جارہی ہے، خوف آتا ہے کہ سب کچھ ہی جل کر بھسم نہ ہوجائے ۔ الآمان، الحفیظ۔ ٭