خوف و ہراس،پکڑ دھکڑ سے یوم آزادی کی تقریبات کا حسن گہنانے لگا

خوف و ہراس،پکڑ دھکڑ سے یوم آزادی کی تقریبات کا حسن گہنانے لگا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ ،شہباز اکمل جندران
طاہر القادری کا یوم شہدا ، حکومت اور تحریک انصاف کے لیے ٹیسٹ کیس بن گیا ہے۔14اگست کو کیا حکمت عملی اپنائی جائیگی اس کا فیصلہ یوم شہدا کے نتائج سے اخذ کیا جائیگا۔ مذاکرات نہ ہوئے تو فریقین بند گلی میں ہونگے۔14کے بعد15اگست کا لائحہ عمل کیا ہوگا۔ نواز شریف اور عمران خان دونوں ہی خاموش ہیں۔ لاہور شہر میں خوف و ہراس اور پکڑ دھکڑ سے سرکاری سطح پر یوم آزادی کی تقریبات کا حسن گہنانے لگا ہے۔ پی ٹی آئی اور عوامی تحریک کے کارکنوں کی نسبت ن لیگی کارکنوں کا جوش و جذبہ بھی پھیکا نظر آنے لگا ہے۔ملکی تاریخ میں ہنگامہ خیزیوں کو جلو میں لیے ماہ اگست رواں دواں ہے۔ ایک طرف حکومت نے سرکاری سطح پر شہر شہر یوم آزادی کی تقریبا ت کے انعقاد کی ہدایات جاری کررکھی ہیں۔ تو دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف نے 14اگست کو آزادی کے دن کی مناسبت سے اسلام آباد میں آزادی مارچ کا اعلان کررکھا ہے۔ جسے ابتدا میں اگرچہ حکومت نے سنجیدہ نہ لیا لیکن گزرتے دنوں کے ساتھ ساتھ حکومت کو پی ٹی آئی کے اس شو کوسنجیدگی سے لینا پڑا ، آزادی مارچ کے اس شور میں اچانک ہی عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر علامہ طاہر القادری نے اپنے اتحادیوں کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس میں 10اگست کو یوم شہدا منانے کا اعلان کردیا۔ جس پر حکومت اس دوہر ی پریشانی سے بے چین دکھائی دینے لگی ۔ یہی وجہ ہے کہ یوم شہدا کے اعلان کے جواب میں حکومت نے 7اگست سے ہی تحریک منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ کو جانے والے تمام راستوں پر کنٹینر کھڑے کرکے یہ راستے عوام کے لیے بھی بند کردیئے جس سے شہریوں اور ہسپتالوں میں جانے والے مریضوں کو سخت دشواری کا سامنا کرنا پڑا ۔ یہ عمل 8اگست کو اس وقت مزید تیز ہوگیا جب عوامی تحریک کے کارکنوں کی گرفتاریوں اور پکڑ دھکڑ کا سلسلہ تیز کردیا گیا اور شہر کے داخلی و خارجی راستوں اور اندرون شہر سے گرفتار ہونے والے ان کارکنوں کو شہر کے مختلف تھانو ں میں بند کیا جانے لگا۔ شہرکے تمام تھانوں میں پولیس کی اضافی نفری اور ریزور زطلب کرنے کے ساتھ ساتھ پولیس کو شہر بھر میں تعینات کردیا گیا۔ فیول سٹیشنوں پر پٹرول اور ڈیزل کی قلت ہونے لگی ہے۔ سی این جی اور پٹرول کی بندش کاشور بھی سنائی دینے لگا ہے۔ یہ سب تیاریاں طاہر القادری اور ان کے اتحادیوں کے یوم شہدا کو روکنے کے لیے کی جارہی ہیں۔یوم شہدا پر کیا ہوگا۔ کیا طاہر القادری اور ان کی اتحادی جماعتیں یوم شہدا منا پائینگی۔ کیا حکومت یوم شہدا کے انعقاد کو روک پائیگی۔اس کا فیصلہ تو کل 10اگست ہی کو ہوگا لیکن یہ بات حتمی ہے کہ ڈاکٹر قادری کا یوم شہد اخود ڈاکٹر قادری اور حکومت کے لیے امتحان بن گیا ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ ساتھ عمران خان اور حکومت کے لیے ٹیسٹ کیس کی حیثیت بھی اختیار کرگیا ہے۔ یوم شہدا کی کامیابی اور ناکامی دونوں صورتوں میں حکومت اور پی ٹی آئی یوم شہدا پر حکومتی اور عوامی تحریک کی حکمت عملی، کمی بیشی ،نقائص اور حالات کی روشنی میں 14اگست کے آزادی مارچ کا لائحہ عمل ترتیب دینگے۔تحریک انصاف ، عوامی تحریک اور حکومت کی خامیوں سے سبق سیکھے گی۔ جبکہ حکومت اپنی خامیوں کو دور کرنے کی کوشش کریگی۔سراج الحق کے ذریعے حکومت اور عمران خان کے مابین مذاکرات شروع ہوسکتے ہیں۔ لیکن کامیاب مذاکرات نہ ہوئے تو دونو ں ہی بند گلی میں ہونگے۔ 14اگست کے بعد کا لائحہ عمل کیا ہوگا۔ اس پر دونوں ہی فریق خاموش ہیں۔نوازشریف جانتے ہیں کہ فوج کو بلانے میں مسائل پیش آسکتے ہیں۔ جبکہ آزادی مارچ کامیاب نہ ہوا تو عمران کے لیے مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔اسی طرح یوم شہدا اور آزادی مارچ کے اعلانات کے بعد حکومتی سطح پر لاہور شہر میں یوم آزادی کی تقریبات کا حسن بھی گہنانے لگا ہے۔ اور ان تقریبات کی روح رواں سیاسی شخصیات یوم شہدا اور آزادی مارچ کے سلسلے میں حالات کی سنگینی کے پیش نظر دیگر انتظامات میں مصروف نظر آتی ہیں۔دوسری طرف ماہ اگست میں یوم آزادی کی تقریبات حکومتی سطح پر منانے کے اعلان اور حکومت کو مشکل میں دیکھنے کے باوجود ن لیگی کارکنوں میں بیداری کو لہر نہیں دوڑ رہی اوران میں وہ جوش و جذبہ نظر نہیں آرہا۔ جس کا مظاہر ہ پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے کارکن کررہے ہیں۔

مزید :

تجزیہ -