کچھ غلطیاں اور غلط بخشیاں!

کچھ غلطیاں اور غلط بخشیاں!
 کچھ غلطیاں اور غلط بخشیاں!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

آئے روز مختلف موضوعات پر اور مختلف انداز میں مفکرِ پاکستان علامہ اقبالؒ پر مضامینِ نو کے انبار لگتے رہتے ہیں۔ اس کا ایک فائدہ بلا شبہ یہ ضرور ہوا ہے کہ اقبالؒ کا نام آج بچے بچے کی زبان پر ہے یعنی غالب کے دعوے!
ایسا بھی کوئی ہے کہ جو غالب کو نہ جانے
کے مصداق ایسا بھی کوئی ہے کہ جو آج اقبال کو نہ جانے، نہ مانے؟ تاہم ہماری خصوصی گزارش یہ ہے، جو ہمیشہ سے رہی ہے کہ کلام اقبالؒ کی ترسیل کے ساتھ صحیح صحیح تفہیم بھی ہونی چاہئے۔ موجودہ صورتِ حال اس معاملے میں ناگفتہ بہ ہے۔ اقبالؒ ہی کیا، مختلف مستند شعراء کے غلط سلط استعمال کئے گئے اشعار کی جو پکڑ دھکڑ ہم کرتے رہتے ہیں اس سے متاثرین کی کیفیت پر مشہور بزرگ شاعر، قطعہ نگاررُوحی کنجا ہی نے روز نامہ ’’نئی بات‘‘ میں ہمارے حوالے سے ایک قطعہ اس صورت میں چھپوایا کہ!
شعر لکھیّ جاتے ہیں جیسے ٹرکّوں پر غلط
لکھ رہے تھے کالموں میں یوں کئی کالم نویس
ان کا نوٹس کیا لیا زیدیؔ نے باصد معذرت
چھوڑ بیٹھے شعری استعمال ہی کالم نویس
قطعہ میں چھوڑی درفنطنی سے قطعِ نظر واللہ ہمارا منشا یہ ہرگز نہیں تھا کہ سوشل میڈیا، یا پرنٹ میڈیا اور نشری اداروں کے ’’فاضل‘‘ اینکر حضرات و خواتین شعر کا استعمال ہی یکسر ترک کر دیں اور میرو غالب، میر انیس یا علامہ اقبالؒ اور فیض و فراز کے اشعار سے استفادہ ہی نہ کریں۔ عرض ہے تو صرف اتنی کہ جس شاعر کا بھی شعر استعمال کریں شاعر کے نام کے ساتھ صحیح استعمال کریں۔ بخدا: اور کوئی طلب ابنائے زمانہ سے نہیں۔
ماہنامہ ’’ادب دوست‘‘ لاہور کے شمارہ جولائی 2016ء میں شوکت علی شاہ نے اپنی خودنوشت کی قسط 22 میں مشہور صحافی، ادیب و شاعر وقار انبالوی کے بارے میں اپنی یادیں تازہ کرتے ہوئے مرحوم کا ایک مشہورِ زمانہ شعر جو اکثر اقبالؒ سے بھی منسوب ہو جاتا ہے اس طرح تحریر کیا ہے:
اسلام کے دامن میں اور اس کےِ سوا کیا ہے؟
اک سجدۂ شبیریؑ اِک ضربِ یدَّاللہی
ترتیب بدل جانے سے مصرع وزن میں تو رہا جبکہ شعر کے دوسرے حصے میں شاعر نے خیال رکھا ہے کہ ضرب یدَّاللہی پہلے ہے اور سجدۂ شبیریؑ بعد میں مگرشعر، معنوی لف ونشر سے محروم کر دیا گیا۔ وقار انبالوی کا صحیح شعر یوں ہے:
اسلام کے دامن میں اور اس کے سوِا کیا ہے؟
اک ضربِ یدَّاللہی، اک سجدۂ شبیریؑ
انجمن ترقی اُردو کراچی کے تحت شائع ہونے والے ماہنامہ ’’قومی زبان‘‘ کے شمارہ جون 2016ء کے ایک مضمون میں فاضل مضمون نگار، انتہائی بزرگ ترقی پسند دانشور جناب مسلم شمیم نے ایک بہت ہی مشہور شعر فراق گورکھپوری کو بخش دیا ہے، شعر یہ ہے:
یہ اُڑی اُڑی سی رنگت یہ کُھلے کُھلے سے گیسو
تری صبح کہہ رہی ہے تری شام کا فسانہ
یہ شعر جناب احسان دانش کا ہے، فراق گورکھپوری کا ہرگز نہیں۔ شعر کی غلط بخشی یعنی حامد کی پگڑی محمود کے سر باندھنے کے علاوہ شعر غلط سلط شکل میں لکھا گیا ہے، جبکہ صحیح شکل متذکرہ بالا ہی ہے جو میں نے لکھی ہے۔
ماہنامہ ’’ہم سخن‘‘ (انٹرنیشنل) شمارہ جولائی 2016ء کے اداریئے میں فاضل مُدیر عما نو ایل ظفر (سابق رکن قومی اسمبلی) نے ایک مشہور زمانہ شعر اس طرح رقم کیا ہے:
میر ہم بھی کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اُسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
متذکرہ شکل میں خدائے سخن میر تقی میر کے شعر کا پہلا مصرع غلط سلط درج ہو کر بے وزن بھی ہو گیا ہے اور دوسرے مصرے میں حسبِ دستورِ عام ’’لونڈے‘‘ کو ٹھونس دیا گیا ہے، جبکہ میر نے ہرگز اس طرح نہیں کہا، میر کا صحیح شعر یوں ہے:
میر کیا سادے ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اُسی عطاّر کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں
روزنامہ ’’جنۂ‘‘ کی اشاعت اتوار 10 جولائی 2016ء میں ایک با تصویر تجزیہ کار سینئر صحافی طاہر خلیل نے عبدالستار ایدھی کے سفرِ آخرت کا احوال لکھتے ہوئے آخر میں ایک مشہور غزل کا مطلع جون ایلیا (مرحوم) کو بخش دیا جبکہ عابدہ پروین کی گائی ہوئی یہ مقبول غزل شاد عظیم آبادی کی ہے یعنی:
ڈھونڈوگے ہمیں ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
انجام ہے جس کا حسرت و غم اے ہم نفسووہ باب ہیں ہم
ڈاکٹر انور سدید پر ایک مضمون بعنوان: ’’مشفق، شفیق، مہربان انور سدید‘‘ ماہنامہ ’’ادب دوست‘‘ لاہور اور ماہنامہ ’’الحمراء‘‘ لاہور کے جولائی کے شماروں کے علاوہ روزنامہ جرأت میں بھی پڑھا۔ تینوں جگہ ایک شعر اس شکل میں چھپا ہوا ملا:
چراغ بجھتے چلے جا رہے ہیں سلسلہ وار
مَیں خود کو دیکھ رہا ہوں فنا ہوتے ہوئے
ممتاز شاعر اعزاز احمد آزر مرحوم کے چھوٹے بھائی افتخار مجاز پی ٹی وی سے کنٹرولر کرنٹ افیئرز کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے اور خود بھی شاعر ہونے کا اِدعا رکھتے ہیں، مگر شعر کا دوسرا مصرع خارج از وزن ہوتے ہوئے محسوس نہ کر سکے۔ شعر نجانے کس کا ہے؟ اور صحیح کس طرح ہے، مگر وزن کے لحاظ سے دوسرے مصرع میں فنا نہیں آ رہا۔ باوزن یوں ہو سکتا ہے:
چراغ بجھتے چلے جا رہے ہیں سلسلہ وار
مَیں خود کو دیکھ رہا ہوں غروب ہوتے ہوئے
ٹی وی چینل ’’24‘‘ پر 6 اپریل 2016ء کو رات 12-50 پر پٹی چل رہی تھی کہ اعتزاز احسن کا شعر ہے:
لائے اس بت کو التجا کر کے
کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے
جبکہ یہ شعر دیا شنکر نسیم کا ہے، اعتزاز احسن کا نہیں!
روزنامہ ’’فائنل نیوز‘‘ کی اشاعت 19 جنوری 2015ء میں محمد حسین مصطفائی نامی مضمون نویس نے اپنے مضمون ’’بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا‘‘ میں ایک مشہور شعر توڑ مروڑ کر غلط سلط یوں شاعر کے نام کے بغیر لکھا ہے:
رُکا تو سمندر چلا تو ہواؤں جیسا تھا
وہ ایک شخص جو دھوپ میں چھاؤں جیسا تھا
جبکہ ناصر صدیقی کا یہ شعر ایک غزل کا مطلع ہے اور اس طرح صحیح ہے:
رُکے تو چاند چلے تو گھٹاؤں جیسا ہے
وہ شخص دھوپ میں دیکھو تو چھاؤں جیسا ہے
ناصر صدیقی کی یہ غزل میں نے اپنے دورِ ادارت میں ’’ادب لطیف‘‘ کے خاص نمبر 1966ء میں چھاپی تھی۔ جب یہ غزل ناصر صدیقی کی وجۂ شہرت بن گئی تو وہ نام بدل کر محمد ناصر ہو گئے، پھر سے گمنام۔
سما ٹی وی پر جمعہ 10 جون 2016ء کو 9-05 بجے صبح نوید علی جمشید علی صابری اور ہمنوا نے ایک بہت ہی مشہور فلمی نعت، پرانی طرز سے ہٹ کر نئے انداز میں قوّالی کی صورت میں پیش کی ’’یثرب کے والی، شاہِ مدینہ، شاہِ مدینہ سارے نبی تیرے در کے سوالی‘‘۔۔۔! یثرب کا لفظ کیونکہ آنحضورؐ نے نا پسند فرمایا تھا کہ اس کے معنی دکھوں کا گھر ہے، اس لئے یہ بات جاننے والے ’’یثرب‘‘ کے بجائے ’’مدینہ‘‘ یا ’’بطحا‘‘ استعمال کرتے ہیں، مگر حضرت علامہ اقبالؒ نے یثرب استعمال کر رکھا ہے چنانچہ متذکرہ نعت میں تنویر نقوی مرحوم نے بھی برتا۔ کہنا یہ تھا کہ نعت خوانوں نے ’’یثرب کے والی‘‘ کی جگہ’’ مدینے کے والی‘‘ لگا کر مصرع پڑھا جس سے وزن ہی بگڑ گیا۔

مزید :

کالم -