سابق وزیر اعظم کاروٹ تبدیل، موٹر وے کی بجائے، جی۔ٹی روڈ سے ، آج فیض آباد سے راولپنڈی میں داخل ہوں گے
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے گرم موسم میں قومی سیاست میں گرما گرمی بھی عروج پر پہنچی ہوئی ہے،تحریک انصاف کی منحرف ایم این اے عائشہ گلالئی کی جانب سے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان پر الزامات کے بعد پی ٹی آئی کے رہنماؤں کی جانب سے جوابی الزاما ت کاسلسلہ جاری ہے ،قومی اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں پیر کے روز عائشہ گلا لئی کیخلاف تحریک انصاف نے احتجاجاً ڈیسک پیٹ ڈالے ، حکومتی بنچوں پر اراکین بشمول پاکستان پیپلزپارٹی ودیگر جماعتیں خاموش تماشائی بنی رہیں ، ڈاکٹر شیریں مزاری نے عائشہ گلا لئی کو اجنبی قراردے کر ان سے تحریک انصاف کا مینڈیٹ واپس مانگ لیا،دوسری جانب قومی اسمبلی کی ایک باضابطہ خاتون رکن کو ایوان میں اجنبی قراردینے پر عائشہ گلالئی نے ڈاکٹر شیریں مزاری کے خلاف تحریک استحقاق لانے کا اعلان کیا، انکا موقف تھا کہ وہ میرٹ پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئی ہیں ، پارٹی کی نائب صدر تھیں انہوں نے یہ الزام بھی لگایا کہ ان کے برعکس پارٹی کی اراکین رشتہ داریوں کی بنیاد پر راتوں رات نامزد کر دی گئیں، رکن اسمبلی بننے والی اکثریت خواتین کی پارٹی میں بنیادی رکنیت بھی نہیں تھی،تحریک انصاف کی منحرف خاتون رکن نے پاکستان کے نوجوانوں سے گالم گلوچ کی سیاست سے بچنے کی اپیل کی انکا کہنا تھا کہ خواتین کو استحصال سے بچانے کیلئے جو کام ادارے اور این جی اوز نہ کر سکے انہوں نے کر دیا ۔ وہ مظلوم اور ستم زدہ خواتین کی آواز بن گئی ہیں اور پاکستان کے اس اعلیٰ ترین فورم کو مظلومین کے حق میں آواز بلند کرنے کیلئے استعمال کرنا چاہتی ہیں ،بعد ازاں انہوں نے پریس کانفرنس میں بھی یہی باتیں دہرائیں،تحریک انصاف کے اراکین نے عائشہ گلالئی کے خلاف زورزور سے ڈیسک بجانا شروع کردیے ، فائلوں اور کتابوں سے ڈیسک پیٹتے ہوئے انکی تقریر میں خلل ڈالتے رہے ۔،عائشہ گلالئی نے وزیراعظم منتخب ہونے پر شاہد خاقان عباسی کو مبارکباد بھی دی،پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی کی خواتین نے ان کی نشست پر جا کر یکجہتی کا اظہار کیا، اس دوران پاکستان تحریک انصاف کی بعض خواتین سے مسلم لیگ (ن) کی خواتین کی تلخ کلامی بھی ہوگئی ، ڈاکٹر شیریں مزاری نے عائشہ گلالئی سے مطالبہ کیا کہ وہ پبلک میں بھی مستعفی ہونے کا اعلان کرچکی ہیں ، پارٹی کے نظم وضبط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے وزیراعظم کیلئے ووٹ ڈالنے بھی نہیں آئیں اس لئے وہ تحریک انصاف کے مینڈیٹ کو واپس کریں تاکہ ہم اس مخصوص نشست پر کسی اور خاتون کو نامزد کر سکیں ۔ عائشہ گلالئی یاد رکھیں کہ وہ جنرل نشست نہیں بلکہ تحریک انصاف کے کوٹے پر ایم این اے منتخب ہوئی ہیں ۔ تحریک انصاف کے اس نقطہ اعتراض کا ڈپٹی سپیکر مرتضیٰ جاوید عباسی نے کوئی جواب نہیں دیا۔
قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے سیاسی جماعتوں سے سیاسی مقاصد کیلئے خواتین کے کندھے استعمال نہ کرنے کی اپیل کی،اپوزیشن لیڈر نے خواتین کی عزت و حیاء پر حرف آنے والی سیاست کی سخت الفاظ میں مذمت کی، انہوں نے پاکستان کو درپیش خطرات پر بریفنگ کیلئے پارلیمنٹ کا ان کیمرہ مشترکہ اجلاس طلب کرنے کا مطالبہ بھی کیا ۔ انکا کہنا تھا کہ نواز شریف کا بیان آیا کہ حالات بہت خراب ہیں، بولنا پڑا تو بولوں گا،چارسالوں میں واویلا کر رہے ہیں کہ پارلیمنٹ سے سیاست شروع ہوتی ہے، اس کو طاقت سمجھیں مگر باہر کی طاقت کو محور سمجھا گیا، جب کہ طاقت پارلیمنٹ دیتی ہے، کہا تھا کہ جو بوئیں گے وہی کاٹیں گے، انہوں نے بھی ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کو عدالتی قتل اور بے نظیر بھٹو شہید کے ساتھ زیادتیوں کو تسلیم کیا،30سال سے اس پارلیمنٹ میں ہوں، ہم نے کبھی اقتدار کیلئے سیاست نہ کی اگر وزیراعظم بننے کی سیاست کرنا چاہتے تو بھٹو پھانسی نہ چڑھتے، محترمہ بے نظیر بھٹو باہر سے واپس نہ آتیں، اگر انسانیت نہیں ہے تو ہم میں اور حیوان میں کوئی فرق نہیں ہے، یہ مقدس ہاؤس ہے، وزیر داخلہ پاکستان کو درپیش خطرات سے آگاہ کریں
سابق وزیراعظم محمدنوازشریف نااہلی کے بعد مری چلے گئے جہاں سے انہوں نے کابینہ مکمل ہونے کے بعد براستہ موٹروے لاہور واپسی کا پروگرام بنارکھا تھا مگر شاہد خاقان عباسی کے وزیراعظم بننے اور کابینہ کی تشکیل کے بعد گزشتہ دنوں جب وہ مری سے اسلام آباد کیلئے روانہ ہوئے تو شیڈول کے مطابق اگلے روز انہوں نے موٹروے سے لاہور جانا تھا اس کیلئے تمام تیاریاں بھی مکمل تھیں مگر مری سے اسلام آباد آتے ہوئے جس طرح جگہ جگہ انکا والہانہ استقبال کیا گیا خصوصاً کر بھارہ کہو کے اٹھال چوک میں مسلم لیگ ن کے کارکنان اور عام لوگوں نے انکی گاڑی کاراستہ روک کر استقبال کیا جس پر عوام کی محبت دیکھ کر نوازشریف کو گاڑی سے باہر بھی نکلنا پڑ گیاوہیں سے انہوں نے اپنے شیڈول میں تبدیلی کرلی اور موٹروے کے بجائے جی ٹی روڈ سے جانیکا اعلان کردیا جس پر ن لیگ کے کارکنان میں تو جوش و خروش پیدا ہوگیا مگر اپوزیشن پارٹیوں خصوصاً تحریک انصاف کی قیادت نے ان کے اس فیصلے کو تنقید کانشانہ بنانا شروع کردیا اوران کے اس فیصلے کو اداروں سے تصادم سے تعبیرکیا، شیڈول کے مطابق نوازشریف نے آج بدھ کے روز اسلام آباد کے ڈی چوک سے اپنے سفرکاآغاز کرنا ہے فیض آباد سے وہ راولپنڈی میں داخل ہونگے اور بینظیر بھٹو روڈ(مری روڈ)سے ہوتے ہوئے راولپنڈی کچہری اور وہاں سے روات ٹی چوک پہنچیں گے جہاں سے انکا اگلا سفرجی ٹی روڈ پر ہوگا،وزیرمملکت مریم اورنگزیب کا اکہنا ہے کہ عوام کے دلوں کے وزیراعظم محمدنواز شریف جی ٹی روڈ کے ذریعے واپس اپنے گھر جا رہے ہیں، اس جی ٹی روڈ پر جس پر اعلیٰ عدلیہ کی بحالی کیلئے لانگ مارچ کیا، جو اداروں کو فعال بنانے اور بحالی کیلئے کوششیں کرتے ہیں وہ اداروں پر دباؤ نہیں ڈالتے، عمران خان نے پارلیمنٹ، پی ٹی وی پر حملہ کیا اور وزیراعظم ہاؤس پر دھاوا بولامگر محمد نوازشریف نے آئین اور قانون کی پاسداری کی، اداروں کا احترام کیا اور اپنی تین نسلوں کا حساب دیا۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں شاہ محمود قریشی،جہانگیر ترین کا کہنا ہے کہ نواز شریف بتائیں ان کے خلاف سازش کون کر رہا ہے، ہمت ہے تو نام لیں، نام نہیں لے سکتے تو خاموش ہو جائیں، پاکستان کے دو اہم اداروں پر حملے شروع کر دیئے گئے ہیں اور یہ کس کے اشارے پر کر رہے ہیں، نیب میں ٹرائل کی تیاری کریں، اب آپ کو بتانا ہو گا کہ اتنے وسائل کہاں سے لائے گئے، جس انداز کی اخلاقیات کی کمیٹی بنائی جا رہی ہے وہ ہمیں قبول نہیں اور اس میں غیر جانبداری نظرنہیں آ رہی اور تحریک انصاف اس کا حصہ نہیں ہوگی، تحریک انصاف تحقیقات سے نہیں گھبراتی۔