شجر کاری اور ہماری ذمہ داریاں!

شجر کاری اور ہماری ذمہ داریاں!
 شجر کاری اور ہماری ذمہ داریاں!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

میں ہر روز صبح لاہور چھاؤنی میں واقع، عسکری ون کالونی سے نکلتا ہوں تو دس پندرہ منٹ کی مسافت کے بعد جیل روڈ آ جاتی ہے۔ یہ لاہور کی ان سڑکوں میں سے ہے جو سگنل فری ہیں۔پھر اسی روڈ پر واقع اپنے اخبار ’’پاکستان‘‘ کے دفتر پہنچ جاتا ہوں۔ یہ فاصلہ بھی دس پندرہ منٹ میں طے ہو جاتا ہے۔ یوں آمد و رفت کا کل فاصلہ 20،22کلومیٹر سے زیادہ نہیں ہوتا۔ واپسی براستہ مال روڈ ہوتی ہے۔ جیل روڈ اور مال روڈ لاہور شہر کی اسی طرح کی دو پرائم سڑکیں ہیں جس طرح چھاؤنی کی شامی، سرور، طفیل اور سرفراز رفیقی سڑکیں ہیں۔۔۔ دو طرفہ۔۔۔ صاف ستھری۔۔۔ ہموار اور۔۔۔ سایہ دار۔۔۔


آج کل موسمِ برسات ہے۔ بِلّیوں اور کتوں بارشیں ہو چکیں۔ رِم جھم پھوار بھی آئے روز پڑتی ہے لیکن ’’نِت کا پیار‘‘ کہیں دیکھنے میں نہیں آتا۔ مجھے یاد نہیں کافی برس بیت گئے، وہ پہلی سی باہمی محبتیں ،یگانگیاں اور الفتیں بھی رفتہ رفتہ عنقا ہوتی جاتی ہیں۔پَون کے جھولوں میں بہار ایک عرصے سے غائب ہو چکی، نہ پیار چھلکتا ہے اور نہ کسی کی چُنریا سینے سے ڈھلکتی ہے۔۔۔ جب سرے سے چُنریا ہی غائب ہو تو کیا ڈھلکنا اور کیا احساسِ نشیب و فراز کی پابندی۔۔۔


اس برسات کے موسم کو شجر کاری کا موسم بھی کہتے ہیں۔ میں ہر سال مال روڈ پر گزرتے ہوئے دائیں بائیں اردو زبان میں لکھے شجر کاری کی ترغیب دلانے والے بینرز لگے دیکھتا ہوں تو لکھاریوں کی شاعرانہ تُک بندی کا نتیجہ ء فکر ہر بینر پر کسی نہ کسی مصرع کی صورت میں لکھا ہوتا ہے جس میں صرف قوافی کا خیال رکھا جاتا ہے، وزن اور رِدم شائد محکمہ جنگلات کے اہلکاروں کے نصیب میں نہیں جو بینرز کی یہ شاعری فرماتے ہیں۔ اول تو گزشتہ سال کے استعمال شدہ بینرز کی رسیاں اور ڈوریاں تبدیل کرنے کے بعد ان کو دوبارہ لٹکا دیا جاتا ہے اور اگر کوئی چند نئے مصرعے موزوں ہوجائیں تو ان کی نمائش کر دی جاتی ہے۔ خیال تھا کہ مشتے نمونہ از خردارے کے مصداق بعض بینرز کے مصرعے نذرِ قارئین کروں لیکن کالم کی تنگ دامانی مانع ہو رہی ہے، اس لئے صرف ایک پر اکتفا کرتا ہوں:


درختوں کے یہ والدینی روپ
بانٹیں سایہ، جھیلیں دھوپ


مجھے معلوم نہیں ان سالانہ شجر کاری مہموں کا کوئی مثبت اور ٹھوس نتیجہ بھی ’’زمین پر‘‘ کبھی نظر آیا ہے یا نہیں۔ لیکن یہ حقیقت تو آپ کے سامنے ہے کہ پاکستان میں جنگلات کی کمی ہو رہی ہے۔
میں جب 1999ء میں لاہور آیا تھا تو اپنے پائیں لان میں سنبل کا ایک درخت لگایا تھا جو اتنی تیزی سے بڑھا اور پھلاپھولا کہ گھر کے کمروں کے فرشوں سے اس کی جڑیں باہر پھوٹتی نظر آئیں۔ اس کی اونچائی 70فٹ ہوگئی تو میں نے اس کالونی کی ریذیڈنٹس ایگزیکٹو کمیٹی (REC) سے درخواست کی کہ وہ اس کو کٹوا دیں وگرنہ مکان کی دیواروں کو خطرہ ہو جائے گا۔ انہوں نے فرمایا کہ اسٹیشن کمانڈر سے رجوع کیا جائے۔ میں بریگیڈیئر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ جس بوٹے کو میں نے اپنے ہاتھوں سے کاشت کیا تھا اس کو کٹوانا چاہتا ہوں۔ انہوں نے انٹرکام پر ایک سٹاف آفیسر کو کچھ کہا اور 5منٹ بعد کور کمانڈر صاحب کا ایک خط میرے سامنے رکھ دیا، جس میں حکم دیا گیا تھا کہ کنٹونمنٹ کی حدود میں واقع کسی سبز درخت کو کاٹنے سے پہلے کورہیڈکوارٹر سے منظوری لی جائے گی۔ اس حکم کی خلاف ورزی پر خاصی ’’اندوہناک کارروائی ‘‘ کی بشارت بھی دی گئی تھی۔۔۔ اس کے بعد کی داستان دراز ہے۔کورکمانڈر کے اس حکم نامے کا مختصر پس منظر یہ تھا کہ سردیوں کے موسم میں کئی برسوں سے لاہور کے علاوہ پورے ملک میں جو دھند (سموگ) کا راج ہو جاتا ہے اس کی ایک وجہ درختوں کی کمی ہے۔ جنگل کے جنگل صاف کر دیئے گئے ہیں اور ان کی جگہ از سرِ نو شجر کاری نہیں کی گئی جس کی وجہ سے آب و ہوا اور موسم میں تبدیلیاں آنا شروع ہو گئی ہیں۔۔۔لہٰذا اشجار کی کٹائی کا حکمِ امتناعی نادر شاہی ہے۔


وہ تو خدا بھلا کرے ایک حاضر سروس بریگیڈیئر صاحب کا جن کی شناسائی میرے بیٹے سے تھی۔ وہ پی ایم اے میں اکٹھے تھے۔ ان کو بلایا گیا اور موقع ملاحظہ کرا یا گیا اور انہوں نے بہ نفیس جا کر کورکمانڈر کو بریف کیا کہ کرنل جیلانی کے گھر کی دیواریں واقعی اس دیوہیکل درخت کی جڑوں کی زد پر ہیں۔ انہوں نے مہربانی فرمائی اور ایم ای او (ملٹری اسٹیٹس آفیسر) کو ہدائت کی جنہوں نے پانچ سات ماہرینِ شجر کُشی کی ڈیوٹی لگائی اور تب جا کر پورے ایک ہفتے کے اندر اس ’’شجرِ سایہ دار‘‘ سے نجات ملی۔۔۔ معلوم نہیں آتش لکھنوی نے درختوں کو ’’مسافر نواز‘‘ کس حوالے سے کہا تھا!
ویسے برسبیلِ تذکرہ، شجر کاری سے فوجی افسروں کا پرانا یارانہ ہے۔ اپنی 29،30برس کی سروس میں میری پوسٹنگ جس جس جگہ بھی ہوئی میں نے شجر کاری کا ’’ارتکاب‘‘ ضرور کیا۔۔۔ مردان، میرپور آزاد کشمیر، خضدار، گلگت، اسلام آباد، کوئٹہ ، ایبٹ آباد اور راولپنڈی میں جو جو مکان فوج کی طرف سے الاٹ ہوئے ان میں نہ صرف پھلدار درختوں کی کاشت کی بلکہ ان کو پروان بھی چڑھایا۔ ان کے علاوہ گھاس کے سبزہ زار اور موسمی اور سدا بہار پھولوں کی کیاریوں کا بطور خاص اہتمام کیا۔ یہ صرف مجھ اکیلے کا اشتیاق (Passion)نہیں تھا بلکہ آس پاس جتنے بھی آفیسرز کے گھر تھے، ان سب کے مکین اس ’’مرض‘‘ کا شکار تھے۔ شجر کاری کا ہماری فوج سے پرانا رشتہ ہے۔ آپ کسی یونٹ میں چلے جائیں، کسی ملٹری ہسپتال کو وزٹ کریں، کسی ملٹری ہیڈکوارٹر کا دورہ کریں آپ کو ہر سو گل و گلزار اور طرح طرح کے اشجار دیکھنے کو ملیں گے۔ برصغیر میں اس ذوق کی پرورش مسلمان حکمرانوں نے بالعموم اور خاندان مغلیہ نے بالخصوص کی جن کی دیکھا دیکھی جب انگریز یہاں آئے تو انہوں نے بھی اس شغل (Hobby) کو جاری رکھا۔ اس حوالے سے افواجِ پاکستان میں شجر کاری کا ذوق و شوق اور روائت، مسلمان اور انگریز حکمرانوں کا ورثہ ہے۔


شجر کاری کا مفہوم صرف موسمِ برسات میں درخت لگانا ہی نہیں بلکہ درخت اگانا بھی ہے۔۔۔آپ موسم برسات میں جتنے درخت کاشت کریں گے ان میں سے 80فیصد تک دوسری برسات نہیں دیکھ پائیں گے۔ اس لئے ان کی دیکھ بھال ان کی کاشت سے زیادہ اہم بن جاتی ہے۔ آج بڑے بڑے شہروں میں آپ جو پرانے ادوار کے فلک بوس درخت دیکھتے ہیں ان کو پروان چڑھانے کے لئے سالہا سال محنت و مشقت کرنا پڑی تھی۔
گزشتہ چند برسوں سے لاہور میں پارک اینڈ ہارٹی کلچر اتھارٹی (PHA) نے جتناکام کیا ہے وہ لائقِ صد تحسین ہے۔پھولوں اور درختوں کو کاشت کرنا، پھولوں کے بیجوں کو محفوظ کرنا، ان کی پنیری لگانا اور پھر ان کو سڑک کنارے اور پارکوں میں منتقل کرنا، ان کو وقت پر پانی دینا، ان سے گھاس پھونس نکالنا اور صفائی کرنا، مالیوں کے انتظامی معاملات، ٹرانسپورٹ اور آلاتِ کشاورزی کی ترمیم و مرمت، شاخ تراشی اور اس طرح کے دوسرے کئی مراحل ہیں جن سے PHA بحسن و خوبی گزری ہے اور اہلیانِ لاہور کو قلب و نظر کی بالیدگی کے مواقع فراہم کئے ہیں۔ دوسرے بڑے شہروں کا بھی یہی عالم ہو گالیکن اسلام آباد اور لاہور کو بطور ماڈل پیش کیا جا سکتا ہے!


میں جب 19،20 برس پہلے لاہور آیا تو گھر کے سامنے والے حصے اور پچھواڑے میں آٹھ آٹھ دس دس مرلے کی زمین خالی تھی۔ میں نے ان دونوں پلاٹوں کو پہلے دو دو فٹ تک گہرا کھدوایا، پھر دریائے راوی سے ’’بھل‘‘ منگوا کر ان کو پُر کروایا، ڈھاکہ گھاس لگوائی،باڑھ (Hedge) لگوائی، درخت بوئے( از قسم اسٹوینا، ایروکیریا، نیم، بکائن اور سنبل وغیرہ جس کا ’’ذکر خیر‘‘ پہلے کر چکا ہوں)۔ راکری (Rockery) بنوائی، مالی کو ہائر کیا اور اسے مطلوبہ اوزار (گھاس کاٹنے کی مشین، کھرپے، درانتی ، گینتی، بیلچہ، آری وغیرہ) لے کر دی۔ درختوں کے گرد اس وقت تک آہنی جنگلے لگائے جب تک وہ ’’خودسر‘‘ نہ ہوگئے۔ ان کی ہر سال ماہ نومبر میں شاخ تراشی (Pruning)وغیرہ پر ذاتی توجہ دی اور کرم کش ادویات کا سپرے کروایا۔ یہ سب درخت، پودے، پھل، پھول آپ سے بچوں کی طرح نگہداشت مانگتے ہیں۔


جہاں تک پھلدار درختوں/پودوں کا تعلق ہے تو میں نے ٹبہ سلطان پور سے بے دانہ اناروں کے چار پودے منگوا کر کاشت کئے۔ جب انار لگے تو ان کا سائز چھوٹے کینو سے نہ بڑھ سکا، اس لئے ان کو تلف کروا دیا۔ دیسی اور چینی لیمووں کے پودے جو آج خوب پھل دے رہے ہیں۔ مسمّی، کینو، مالٹا اور میٹھے کے درجن بھر بوٹے منگوائے جو سب کے سب ماشا اللہ پھل دے رہے ہیں۔ اسی طرح پھولوں میں رات کی رانی، چنبیلی، موتیا، دن کا راجہ اور کئی قسم کے سدا بہار چھوٹے بڑے پھول گملوں میں لگوائے جو اپنے اپنے موسم میں سارا آنگن مہکا دیتے ہیں۔
چار چھ ماہ پہلے کسی ٹی وی چینل پر میں نے ’’سہانجنے‘‘ کے درخت کے فوائد پر ایک پروگرام دیکھا۔ میرے بچپن اور لڑکپن کے زمانے میں سہانجنے کی پھلیوں اور ڈیلوں کا اچار بہت عام ملتا تھا اور گھروں کی خواتین بڑے اہتمام سے یہ اچار ڈالتی تھیں۔لیکن پھر یہ اچار مارکیٹ سے ایسا غائب ہوا کہ ڈھونڈے سے نہیں ملتا تھا۔۔۔۔ اس ٹی وی پروگرام کو دیکھ کر میں نے شہر کی مختلف نرسریوں کے چکر لگائے تو ماہ مارچ میں اس کے دو بوٹے لا کر لان میں کاشت کردیئے۔ کسی نے کہا یہ بوٹے سرکاری نرسریوں سے مفت ملتے ہیں لیکن مجھے تلاشِ بسیار کے بعد بھی نہ ملے اور ناچار 300روپے فی بوٹا ایک نرسری سے خریدے جن کا قد صرف دس انچ تھا اور بمشکل دس بارہ پتے تھے۔ آج ماشاء اللہ ان کا قد تین فٹ سے بڑھ چکا ہے اور پتوں پر بھی خوب بہار آئی ہوئی ہے۔


میں نے یہ کالم خودستائی کی غرض سے نہیں لکھا۔۔۔ قارئین کو یہ بتانا مقصود تھا کہ شجر کاری کے فائدے کیا ہیں، یہ شغل کتنی محنت اور دلسوزی مانگتا ہے اور بے وجہ شجر بریدگی کے نقصانات کیا ہیں۔ ہم نے موخرالذکر عادت کو اپنا کر اپنے ماحول اور ملک کا خاصا نقصان کرلیا ہے۔ عمران خان جو اپنی انتخابی مہم میں خیبرپختونخوا میں ایک ارب 18کروڑ درختوں کی شجر کاری کا ذکر کرتے رہے ہیں تو اگر اس تعداد میں مبالغہ بھی ہو تو پھر بھی لاکھوں درخت تو کے پی میں واقعی لگائے اور اگائے گئے ہیں! اس کی توثیق میں نے خود کئی دوستوں سے کروائی جو نتھیا گلی، مری، سوات، مانسہرہ، ایبٹ آباد اور ہری پور میں پوسٹ تھے۔ انہوں نے تصدیق کی کہ واقعی یہ کارِ خیر انجام دیا گیا ہے۔ اگر آپ کو کبھی لاہور کی ٹمبر مارکیٹ میں جانے کا اتفاق ہو اور وہاں پر تل، چیر، بیار اور دیودار وغیرہ کا بھاؤ پوچھیں تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ سرحد سے ان درختوں کی کٹائی واقعی ختم کردی گئی ہے۔۔۔جو ہوچکا، وہ ہوچکا۔۔۔۔ وقت کو واپس نہیں لایا جاسکتا۔ لیکن ویسا ہی نیا وقت تو از سر نو تشکیل ضرور کیا جاسکتا ہے!

مزید :

رائے -کالم -