”ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا“ یورپی ملک کا چینی مسلمان کو نکالنے کے بعد اظہارافسوس

”ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا“ یورپی ملک کا چینی مسلمان کو نکالنے کے ...
”ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا“ یورپی ملک کا چینی مسلمان کو نکالنے کے بعد اظہارافسوس

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

برلن (ڈیلی پاکستان آن لائن)جرمن حکام نے سیاسی پناہ کے درخواست گزار ایک چینی ایغور مسلمان کو ’انتظامی غلطی‘ کے باعث ملک بدر کر کے واپس چین بھیج دیا۔ حکام کا کہنا ہے کہ اس شخص کو ’پناہ کے حق‘ نہ ملنے پر افسوس ہے۔
جرمن نیو ز ایجنسی کے بعد صوبہ باویریا کے حکام کا کہنا ہے کہ چین کی ایغور مسلم اقلیت سے تعلق رکھنے والے تارک وطن کو ایک انتظامی غلطی کے باعث غلطی سے ملک بدر کر دیا گیا۔ یہ واقعہ رواں برس اپریل میں پیش آیا تاہم حکام نے اس غلطی کا اعتراف رواں ہفتے کیا ہے۔
بائیس سالہ چینی مسلمان نے جرمنی میں حکام کو سیاسی پناہ کی درخواست جمع کرائی تھی اور اس کا ابتدائی انٹرویو رواں برس اپریل میں ہونا تھا۔ تاہم بی اے ایم ایف کے حکام اس انٹرویو کے بارے میں غیر ملکیوں سے متعلق مقامی جرمن دفتر کو اطلاع دینا بھول گئے۔ اسی وجہ سے تین اپریل کے روز اس ایغور مسلمان شخص کو جرمنی سے ملک بدر کر کے بیجنگ بھیج دیا گیا۔
جرمنی میں پناہ کے متلاشی اس شخص کے وکیل لیو بورگمان نے پبلک براڈکاسٹر بی آر کو بتایا کہ ملک بدر کر دیے جانے کے بعد سے اس چینی تارک وطن سے کسی قسم کا کوئی رابطہ نہیں ہو سکا۔ وکیل نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا کہ ممکنہ طور پر چینی حکام نے اسے حراست میں لے رکھا ہے۔
چین میں ایغور مسلمان پر بہت سختی کی جاتی ہے۔ اس مسلمان اقلیت کو چین میں مذہبی آزادی بھی حاصل نہیں ہے۔
گزشتہ ماہ بھی بی اے ایم ایف کے حکام نے اعتراف کیا تھا کہ ان کے اہلکاروں کی غلطی کے باعث بیس سالہ افغان مہاجر کو سیاسی پناہ سے متعلقہ ملکی ضوابط کے خلاف ملک بدر کر کے واپس افغانستان بھیج دیا گیا تھا۔ جرمن حکام اب اس افغان مہاجر کو واپس جرمنی لانے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔
جولائی کے مہینے ہی میں جرمنی کی ایک مقامی عدالت نے اسامہ بن لادن کے ایک محافظ کو ملک بدر کر کے تیونس بھیج دینے کے احکامات جاری کیے تھے۔ تاہم اس شخص کو ملک بدر کر دیے جانے کے چند گھنٹوں بعد ہی حکام نے اس بات کا اعتراف بھی کیا تھا کہ تیونس میں اس شخص کو تشدد کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے اس لیے ملک بدری کا فیصلہ جرمن قوانین کے مطابق درست نہیں تھا۔