دیکھنا گوادر یونورسٹی کہیں سیاسی نعرہ نہ بن کر رہ جائے
بلوچستان کے دیگر حلقوں کی نسبت گوادر کی صوبائی اسمبلی کی نشست کو اس وجہ سے زیادہ اہم قرار دیا جارہا تھا کہ گوادر سی پیک اور پورٹ سٹی کا شہر ہے۔مقتدر حلقے گوادر کو پاکستان کی شہ رگ سمجھتے ہیں۔جہاں سی پیک پروجیکٹ کے تحت بلین ڈالرز پروجیکٹ کے معاہدوں پر دستخط کے بعد گوادرکے مقامیوں کے لئے تو کوئی بڑا پروجیکٹ نہیں نظر آرہا ہے۔مگر یہ ضرور کہا جارہا ہے کہ گوادر میں بڑے منصوبوں پر کام شروع ہوگا۔ حالیہ انتخابات میں گوادر کی صوبائی اسمبلی کی نشست کو بلوچستان کی سیاست کرنے والے پارٹیوں نے جیتنے کے لئے اپنی تمام تر توانائیوں کو خرچ کرکے بازی لے جانے کے لئے سرتوڑ کوششیں کیں۔ گوادر کی یہ نشست گزشتہ 25 سالوں سے کلمتی اور سید فیملی کے پاس رہی ہے۔ اس مرتبہ سید فیملی کا ایک طبقہ کلمتی فیملی کے میر حمل کلمتی کی حمایت کی بجائے بی اے پی کے میر یعقوب بزنجو کی حمایت میں کام کررہا تھا۔جبکہ 2013 کے انتخابات میں ماضی کے حریف نوری خاندان اور کلمتی فیملی کے حلیف بننے کے بعد اس مرتبہ بھی بی این پی کے پلیٹ فارم پر یہ دونوں خاندان سیاسی حلیف بنکر میدان میں تھے۔
گوادر کے تاریخ میں جتنے بھی انتخابات ہوئے تھے۔ اس میں اتنا جوش وخروش نہیں تھا،جتنا حالیہ انتخابات میں نظر آیا۔ حالیہ انتخابات میں بظاہر تو کئی سیاسی جماعتوں کے امیدوار میدان میں تھے۔ مگر انتخابات سے قبل سیاسی مبصرین بی اے پی کے میر یعقوب بزنجو اور بی این پی کے میر حمل کلمتی کے درمیان ون ٹو ون مقابلے کی توقع کررہے تھے۔ لہذا بی این پی کے امیدوار کی جیت کی صورت میں میر حمل کلمتی کو مسلسل تیسری مرتبہ گوادر کی ایم پی شپ نصیب ہوگئی ۔
گوادر قبائلی علاقہ تو نہیں ہے۔ مگر یہاں بھی بلوچستان کے قبائلی علاقوں کی طرح سیاسی پارٹیوں سے زیادہ برادری کی سیاست میں اہم رول ہوتا ہے۔ گوادر کی سیاست میں ماضی میں بھی سیاسی پارٹیوں سے زیادہ اہم بااثر سیاسی اور مذہبی شخصیت ووٹوں کی بنا پر امیدوار جیتی تھی۔لیکن حالیہ الیکشن میں اہم بااثر سیاسی اور مذہبی شخصیت کے ووٹ ماضی کی طرح زیادہ اثر مند ثابت نہیں ہوئے۔ کیونکہ اس مرتبہ ایک چیز دیکھنے کو ملی تھی کہ ہر امیدوار ضلع گوادر کے دیہی علاقوں تک الیکشن کمپین کررہا تھا،شاید وہ پہلی بار ان علاقوں کی حالات زار کو اپنے آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔حالانکہ گوادر میں نیشنل پارٹی اور بی این پی کے سیاسی ورکروں کی اچھی تعداد موجود ہے۔ بی این پی کے امیدوار میر حمل کلمتی کی جیت کے بعد یہ گوادر کی تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ ایک امیدوار نے مسلسل تیسری مرتبہ گوادر کی صوبائی نشست پر کامیابی حاصل کرلی۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ نوجوانوں کے ووٹ بیلنس سے بی این پی کو فائدہ پہنچاہے۔ گوادر چونکہ رقبے کے لحاظ سے ایک بڑا ضلع ہے اور یہاں کے نوجوان پہلی مرتبہ تبدیلی کے لئے بڑی تعداد میں الیکشن کے دن گھروں سے باہر نکلے تھے۔ایک اچھے تعلیم کا خواب کے لئے گوادر کے نوجوانوں کی بڑی تعداد میں انتخابی عمل میں شریک ہونے سے یہ تاثر پیدا ہوگیاہے کہ اب آئندہ انتخابات میں گوادر میں جو بھی امیدوار الیکشن لڑے گا، اسکو ایجوکیشن پر فوکس کے ساتھ اچھے تعلیمی اداروں کے قیام کو اپنے سیاسی اور انتخابی منشور میں ڈالنا ہوگا۔ حالیہ انتخابات میں گوادر کے نوجوانوں نے پہلی بار خاندان اور برادری کی سیاست سے ہٹ کر بی این پی کو اس لئے سپورٹ کیا تھا کہ انکے ذہن میں ایک پڑھا لکھا گوادر کا خواب تھا۔
سی پیک اور پورٹ سٹی کا شہر گوادر میں اس وقت سب سے بڑا ایشو پینے کے صاف پانی کا ہے۔ گوادر میں بے روزگاری کے ساتھ تعلیمی سہولیات کا فقدان ہے۔ ضلع گوادر کے زیادہ تر علاقوں میں صحت کی ابتر صورتحال ہے۔ گوادر کے دیہی علاقوں میں سڑکوں کا نام ونشان نہیں ہے۔ گوادر کے زیادہ تر علاقوں میں منشیات سرعام ہے۔گوادر کے بہت کم طالب علم ملک کے دیگر تعلیمی اداروں میں پڑھ رہے ہیں۔ گوادر میں یونیورسٹی کے قیام کا خواب اب تک تو پورا نہ ہوسکا۔ تربت یونیورسٹی کے گوادر کیمپس میں چند ڈپارٹمنٹ کے کلاسز جاری ضرور ہیں۔
ان تمام ایشوز کے ہوتے ہوئے تعلیم یافتہ نوجوانوں کے ذہن میں بار بار ایک سوال گونج رہا تھا کہ ہمیں اچھے تعلیمی ادارے فراہم کویں نہیں کئے جاتے۔ گوادر کے نوجوانوں کی سب سے بڑی ڈیمانڈ گوادر یونیورسٹی کا خواب ہے۔ جہاں یونیورسٹی کا قیام عمل میں لاکر انکے اچھے مسقبل کے لئے پہلی منزل شروع کی جاسکتی ہے۔
بی این پی کے امیدوار نے انتخابی کمپین کے وقت تعلیم کے حوالے سے جس مثبت سوچ کے ساتھ کام کرنے کا عندیہ دیا تھا اور ماضی میں میر حمل کلمتی نے ضلع گوادر میں تعلیم کے بہتری کے لئے جو مثبت اقدامات کئے تھے، ان کاوشوں کو سراہتے ہوئے ضلع گوادر کے نوجوانوں کے بہتر مسقبل اور یہاں آنے والے ترقی سے مسفید ہونے کے لئے گوادر یونیورسٹی کا قیام بی این پی کی اوّلین ترجیح ہونا چاہئے۔ کئی ایسا نہ ہو کہ پانچ سال بعد پھر گوادر میں تعلیمی ایمرجنسی کا نعرہ لگے تو نوجوان ووٹرز اپنا رخ بدل چلے ہوں۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔