جناتی، جنات کے رازداں اور دوست کے قلم سے۔..قسط نمبر 40

Aug 09, 2018 | 07:37 PM

شاہد نذیر چودھری

جنات میرے لئے نئی مخلوق نہیں تھے لیکن علمی بنیادوں پر میں انکے بارے میں زیادہ کچھ نہیں جانتا تھا ۔میرے باپ اور اسکے گرو نے مجھے جس دنیا کی دلدل میں غرق کیا تھا اس میں سمجھانے سے زیادہ دکھانے اور گرو بنانے پر زور دیا جاتا ہے ۔
حافظ عبداللہ کو ملنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ میں جس دنیا میں رہتا آرہا ہوں وہ کالی دنیا ہے ،اس کی مخلوق جنات میں سے ہے لیکن شیطان کہلاتی ہے ۔اسکے اپنے وچاراور علوم ہیں ۔وہ انسانوں کے دماغوں میں چھپی ان قوتوں تک ایسے علوم سے رسائی حاصل کرتی ہیں جنہیں ہم عام طور کالا جادو کہہ لیتے ہیں یا نوری علوم کہتے ہیں ۔ہر انسان کے دماغ میں ماورائی دنیا سے رابطوں کا پورا نظام موجود ہوتا ہے،جب انسان عقل سے محروم تھا تو اس پر یہی خوابیدہ حصہ غالب ہوگا۔ہزارہا صدیاں گزر چکی ہیں ۔انسان ابھی صرف دماغ کا پانچ سے آٹھ فیصد حصہ ہی استعمال کرپایا ہے ۔باقی حصے میں کیا کچھ چھپا ہوا ہے یہ انسان ابھی تک کھوج رہا ہے لیکن عالم ا رواح و برزخی دنیا کے باشندوں کے غیر انسانی وجود خاکی انسان کی صلاحیتوں سے اچھی طرح باخبر ہیں ۔انہیں معلوم ہے انسان اپنی دماغ کے راز نہیں جان پارہا اس لئے وہ انسان کے دماغ تک پہنچنے کے لئے اس پر عملیاتی لہروں سے حملہ کرتے اور اسکی روح کو ڈی کوڈ کرتے ہیں۔

جناتی، جنات کے رازداں اور دوست کے قلم سے۔..قسط نمبر 39 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
شاہد بھائی آپ حیران ہورہے ہوں گے کہ میں یہ کیا فلسفہ لے بیٹھا ،بس یہ بات جان لیں کہ جب ہم حقیقت کی طرف کسی علمی بات کا اشارہ کرتے ہیں تو اس راز کو راز ہی رکھنے اور انسان کو جاہل مطلق بنائے رکھنے پر مامورشیطانی قوتیں اسکو فرسودہ خیالی اور وہم پرستی کہنا شروع کردیتی ہیں اور اسکے لئے لاجک مانگتی ہیں۔۔۔لاو بھائی لاجک ،ڈھونڈتے رہو منطق ،یہ گرہ یونہی نہیں کُھلتی ۔پس جو جان لیتا ہے وہ اسکو کھول لیتا اور اپنی زبان بند کرلیتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اسکی بات کو کوئی نہیں مانے گا ۔۔۔ میرے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا ۔بچپن میں کیسا جوشیلا ،ضدی ،حرامخور ،متکبر اور باولا تھا ،اس وقت ماورائی طاقتیں میرے پاس تھیں اور مجھے کسی چیز کو علمی طور پر منوانے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ میں تو کسی کو خاطر میں لاتا ہی نہیں تھا ۔مجھے کسی کی کیا پرواہ تھی ۔۔۔
ہاں ۔۔۔ مگر جب حافظ عبداللہ میری زندگی میں آیا تو بہت کچھ علم میں آنے لگا ،عقلی طور پر چیزوں کو پرکھنے لگا ۔تجربات اور مشاہدات کا نیاجہاں میرے سامنے کھل پڑا ۔۔۔علم کو بہتر طریقے سے استعمال کرنے کا سلیقہ آگیا۔
یہ اس روز کے بعد تیسرے دن کا واقعہ ہے ،جمعرات تھی۔ حافظ صاحب نے عبداللہ کو طلب کیا اور کہا ’’ شیخ صاحب نے کل فون کیا تھا لیکن میں بھول گیا ۔باقی بچوں کو بھی ساتھ لے جانا ۔کہہ رہے تھے کہ آیت کریمہ پڑھوانا ہے ،مغرب تک فارغ ہوجانا اور نماز آکر مسجد میں ہی پڑھنا ‘‘ 
’’ جی حضور ،حکم کی تعمیل ہوگی ‘‘حافظ عبداللہ نے سعادت مندی سے جواب دیا۔اس سمے اسکو دیکھ کر کوئی مائی کا لعل اندازہ نہیں لگا سکتا تھا کہ حافظ عبداللہ دراصل ایک جنّ زادہ ہے ،اسکی سعادت مندی اسکے پورے بدن سے مترشح ہورہی تھی ۔جو بھی دیکھتا یہی دعا کرتا کہ اتنا سعادت منداور فرمانبردار شاگرد خدا ہر کسی کو دے ۔کئی ساتھی اسکی سعادت مندی پر رشک بھی کرتے تھے ۔ظاہر ہے جو شاگرد پلک جھپکتے میں اپنے استاد کے ہر حکم کی بجاوری کرتا ہو،اس جیسا اور کون خوش نصیب ہوسکتاہے۔وہ جنّ تھا تو کیا ہوا ،اس وقت تو انسانی روپ میں شاگرد ہی تھا ناں۔
عصرکی نماز پڑھتے ہی حافظ عبداللہ ہم سب کو لیکر شیخ صاحب کے گھر لے گیا ۔مسجد سے دو محلے پار شیخ صاحب کی حویلی تھی،اسکے آثار بتا رہے تھے کہ یہ کم از کم سو سال پرانی ہوگی۔گیٹ جہازی سائز کا تھا۔ایسا لگتا تھا اس گیٹ سے کسی زمانے میں ہاتھی گزرتے ہوں گے۔بڑی عالی شان حویلی تھی۔ کھلے کھلے دالان ،صحن میں باغیچہ تھا جس کے ایک جانب باورچی دیگیں پکا رہے تھے ۔سالن کے مسالے کی خوشبو پوری حویلی میں پھیلی ہوئی تھی۔
ہم حافظ عبداللہ کی معیت میں حویلی کے اندر داخل ہونے لگے تو اچانک ایک جانب سے انتہائی دردناک آواز میں غراتی ہوئی بلی نے جمپ لگایا اور ہم سب کے اوپر سے گزرتی ہوئی کمرے کی اونچی کھڑکی میں جابیٹھی،میں نے اس سے پہلے اتنی موٹی اور سیاہ بلی نہیں دیکھی تھی۔وہ حافظ عبداللہ کو گھورنے لگی اور غرغرانے لگی۔
میں نے حافظ عبداللہ کی جانب دیکھا تو اسکے چہرے پر ہلکی سی مسکان نمودار ہورہی تھی۔وہ نظریں بچا کر بلی کی جانب دیکھ رہا تھا ۔ اسکی آنکھوں میں تیز چمک تھی ،ادھر بلی بھی حافظ عبداللہ کو دیکھے جارہی تھی ۔اسکے تیور بتا رہے تھے کہ وہ کسی بات پر خفا ہے ۔
اچانک شیخ صاحب کی نظر بلی پر پڑ گئی ۔انہوں نے بلی کو پچکارااور ہاتھ سے ایسے اشارہ کیا جیسے کسی شرارتی بچے کو منع کیا جاتا ہے ۔اس وقت باقی ساتھی طالب علم حویلی کے بڑے ہال میں داخل ہوچکے تھے ۔بلی نے شیخ صاحب کو بھی گھور کر دیکھا اور لمبی چھلانگ لگا کر ہال میں داخل ہوگئی ۔
ہال میں سرخ قالین بچا ہوا تھا ۔اگربتی سے ماحول معطر تھا ۔سوندھی سوندھی انہتائی لطیف مہک میں اک سرور رچابسا تھا ۔ سفید چادر بچھا کر اس پر آیت الکریمہ پڑھنے کے لئے کھجور کی گٹھلیاں رکھی گئی تھیں جو ایک ڈھیر کی صورت درمیان میں تھیں ۔ساتھی سفید چادر کے اردگرد بیٹھ گئے ۔صرف میں ہی اناڑی تھا کہ اسے کچھ پتہ نہ تھا کہ اس کا حفظ مراتب کیا ہے ۔کیسے یہاں بیٹھ کر کیا کرنا ہے ۔لیکن جب باقیوں کو بیٹھے دیکھا تو میں نے بھی ان کے انداز میں نشست سنبھال لی ۔
اس وقت حیران کن منظر دیکھنے کے قابل تھا ۔سیاہ بلی عین سفید چادر پر آبیٹھی تھی۔وہ کسی اور کو دیکھنے کی بجائے حافظ عبداللہ کوگھورتی جارہی تھی ،ایک آدھ بار اس نے میری جانب بھی نظر اٹھائی میں نے یہ منظر دیکھ کر حافظ عبداللہ کی طرف دیکھا تو اس نے میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر تسلی کے انداز میں گویا اشارہ کیا اور پھر مجھے آیت الکریمہ کے کلمات سکھانے لگا ’’ دیکھو اسکو اس انداز میں پڑھنا ہے ‘‘ حافظ عبداللہ نے مٹھی بھر گٹھلیا ں پکڑیں اور ایک گٹھلی کو پکڑ کر اس پرآیت الکریمہ پڑھی اور اسکو نیچے ایک طرف رکھ دیا ۔دوسرے ساتھی بھی اسی انداز میں میکانکی انداز میں پڑھنا شروع ہوگئے تھے ۔
میں نے حافظ عبداللہ کے سکھائے ہوئے طریقہ سے گٹھلیوں سے مٹھی بھر لی اور دوسروں کی نسبت قدرے آہستہ سے آیت الکریمہ پڑھنے لگا ۔اس وقت شیخ صاحب بلی کی طرف بڑھے اور پیار سے اسکو پکارا’’ پرنسس اٹھو میری جان ،اچھے بچے ایسا نہیں کرتے ۔یہ اللہ کا نام لے رہے ہیں اور تم پاک چادر پر چڑھ کر بیٹھ گئی ہو ‘‘ انہوں نے سیاہ بلی کا نام پرنسس رکھا تھا۔وہ اپنے نام سے مانوس بھی تھی۔پرنسس نے ناگواری سے شیخ صاحب کو دیکھا ،اسکے اندازابھی تک غضب ناک اور جارحانہ تھے۔شیخ صاحب نے ہاتھ آگے بڑھا کر اسکو پکڑنا چاہا تو وہ زور سے غرائی اور انکے ہاتھ پر اسقدر زور سے پنجہ مارا کہ شیخ صاحب کی بھی چیخ نکل گئی ۔انہیں شاید امید نہیں تھی کہ انکی پرنسس ایسا بھی کرسکتی ہے۔ 
’’ کیا ہوگیا ہے تمہیں پرنسس ،کس بات پر خفا ہو‘‘ شیخ صاحب نے ہاتھ سہلا تے ہوئے اسکو پکارا’’ پہلے تم نے کبھی ایسی بدتمیزی نہیں کی ‘‘شیخ صاحب کے ہاتھ سے خون بہہ نکلا تھا اور اسکے قطرے سفید قالین پر گرنے لگے ۔یہ دیکھتے ہی سیاہ بلی نے خون کے تازہ قطروں کو دیکھا تو مجھے نہ جانے کیوں شبہ ہوا کہ اسکے خدوخال انتہائی مکروہانہ انداز میں پھیل گئے اور خباثت پورے وجود سے کھل کر سمانے آگئی تھی ۔شاید یہ منظر میں نے ہی دیکھا تھا کیونکہ باقی ساتھی بلی کو ایک نظر دیکھنے کے بعد ذکر میں ہی مصروف تھے ۔لیکن حافظ عبداللہ پر سب عیان ہوگیا تھا ۔باقی ساتھی مجھ سمیت اُس وقت اچھل کر رہ گئے جب سیاہ پرنسس نے شیخ صاحب کے خون کے قطروں کو چاٹنے کی کوشش کی تو حافظ عبداللہ نے یکایک آیت الکریمہ پڑھی ہوئیں چند گٹھلیاں اسکی جانب اس تیزی سے پھینیکیں کی گٹھلیاں پرنسس کے وجود سے ٹکراتے ہی ایک دہشت ناک آواز سے پوری حویلی تھرا اٹھی۔حافظ عبداللہ یکدم اٹھ کھڑا ہوا تھا اور اتنی تیزی سے وہ شیخ صاحب اور بلی کے درمیان آن کھڑا ہوا تھا کہ کوئی اسکا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا ۔(جاری ہے ) 

جناتی، جنات کے رازداں اور دوست کے قلم سے۔..قسط نمبر 41 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

مزیدخبریں