دی ٹیلی گراف کا پاکستان میں اقلیتوں کے عدم تحفظ سے متعلق جھوٹا پروپیگنڈا بے نقاب

    دی ٹیلی گراف کا پاکستان میں اقلیتوں کے عدم تحفظ سے متعلق جھوٹا پروپیگنڈا ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 لاہور(نامہ نگارخصوصی)نومسلم خاتون کی دارالامان سے بازیابی اور اسے اپنی مرضی سے جانے کی اجازت سے متعلق لاہورہائی کورٹ کے تفصیلی فیصلے نے غیر ملکی جریدے دی ٹیلی گراف کے پاکستان میں اقلیتوں کے عدم تحفظ کے حوالے سے جھوٹے پراپیگنڈا کا پول کھول دیا۔برطانوی جریدے دی ٹیلی گراف نے 5اگست کو اپنے نمائندے جوئی ویلن کی ایک خبر شائع کی جس میں کہاگیاکہ پاکستانی عدالت نے 14سالہ مسیحی لڑکی کی اس کے اغواء کار کیساتھ شادی برقراررکھتے ہوئے غم وغصہ پھیلانے والا فیصلہ جاری کیا،یہ خبر لڑکی کی والدہ کے وکیل اور مسلم لیگ (ن) کے سابق صوبائی وزیر خلیل طاہر سندھو اور ایک مسیحی رہنما لال روبن ڈینیل کے بیانات کی بنیاد پر بنائی گئی جبکہ عدالتی فیصلہ اس کے بالکل برعکس ہے،مقدمہ کی تفصیلات کے مطابق اپریل 2020ء میں نگہت شہباز نے تھانہ مدینہ  ٹاؤن فیصل آباد میں اپنی بیٹی ماریہ شہباز کے اغواء کے الزام میں نقاش طارق کیخلاف مقدمہ درج کروایا اور دعویٰ کیا کہ اس کی بیٹی کی عمر 14سال ہے، 23جولائی 2020ء کوایڈیشنل سیشن جج نے ماریہ شہباز کو دارالامان فیصل آباد بھجوا دیا،سیشن جج کے فیصلے کیخلاف نقاش طارق نے لاہورہائیکورٹ میں درخواست دائر کی جس میں اس نے دعویٰ کیا کہ اس نے ماریہ شہباز کیساتھ لو میرج کی ہے، جسٹس راجہ شاہد محمود عباسی نے 4اگست 2020ء کو اپنا فیصلہ سنایا،8صفحات پر مشتمل اپنے تحریری فیصلے میں فاضل جج نے قراردیاکہ ماریہ شہباز عاقل و بالغ ہے،وہ اپنی خواہش کے مطابق اپنے شوہر یا جہاں چاہے رہ سکتی ہے، عدالت نے اپنے فیصلے میں ایسی کوئی پابندی نہیں لگائی کہ وہ اپنے والدین کیساتھ نہیں جاسکتی اوریہ کہ لازمی طور پر اپنے مبینہ شوہر کیساتھ رہے،عدالت نے قراردیا کہ ماریہ شہباز بلوغت کی عمر کو پہنچ چکی ہے اور اس نے اپنی مرضی سے نکاح کیا ہے،ایڈیشنل سیشن جج فیصل آباد کا ماریہ شہبازکو دارالامان بھیجنے کا حکم سپریم کورٹ کے وضع کردہ اصولوں کی خلاف ورزی ہے، ما ر یہ شہباز نے عدالت میں پر اعتماد انداز میں کہا اس کی عمر 18 برس سے زائد ہے اور وہ عاقل وبالغ ہے، ماریہ شہباز نے کلمہ طیبہ پڑھا اور کہا اس نے اپنی آزاد مرضی سے اسلام قبول کیا اور نقاش طارق سے نکاح کیا،عدالت نے مزید قراردیاکہ ماریہ شہباز نے بیان دیا کہ اس کی والدہ نگہت شہباز نے مذہبی کلرک کے اشتعال دلانے پر میرے اغواء کا جھوٹا مقد مہ درج کروایا، ماریہ شہباز نے عدالت میں بیان ریکارڈ کروایا کہ اسے کسی نے اغواء نہیں کیا، خاتون نے کمرہ عدالت میں یہ بھی کہاکہ اگر اسے والدین کے حوالے کیا گیا تو اسے قتل کئے جانے کا خدشہ ہے، ماریہ شہباز نے شوہر نقاش طارق کے پہلے سے شادی شدہ ہونے کے حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے اس کیساتھ ہی رہنے کو ترجیح دینے کا بیان دیا، جسمانی لحاظ سے بلاشبہ ماریہ شہباز نوجوان خاتون اور بلوغت کی عمر کو پہنچ چکی ہے، ایڈیشنل سیشن جج کے ماریہ شہباز کو دارالامان بھجوانے کے حکم سے قبل درخواست گزار اور ماریہ شہباز اکٹھے ر ہتے رہے ہیں، نو مسلم ماریہ شہباز نے عدالت کے تمام سوالات کے پر اعتماد انداز میں جواب دیئے،ماریہ شہباز اور اسکی والدہ نگہت شہباز کو کمرہ عدالت میں علیحدہ ملاقات کیلئے بھی وقت دیا گیا اس کے باوجود لڑکی نے ماں کیساتھ جانے سے انکار کیا، نومسلم لڑکی اپنے اغواء کے مقدمہ میں شامل تفتیش ہو کر پسند کی شادی کا بیان بھی ریکارڈ کروا چکی ہے، ماریہ شہباز پولیس اور عدالتی فورم پر بھی نقاش طارق کو اپنا خاوند تسلیم کر چکی ہے، ایک عورت اور مرد کا ایک دوسرے کو بیوی اور شوہر تسلیم کرنا نکاح ہونے کو ثابت کرتا ہے،اس کیلئے دیگر رسمی تقا ضوں کو نظرانداز کیا جاسکتاہے، لڑکی کی والدہ کی طرف سے نکاح نامے کو جھوٹا قراردینے کی استدعا کے حوالے سے فاضل جج نے قراردیا کہ لاہور ہائیکورٹ کی یہ ذمہ داری نہیں کہ کسی کے نکاح کے جعلی یا حقیقی ہونے کی تصدیق کرے، فیملی عدالت نکاح نامہ کے بوگس یا درست ہونے کا فیصلہ کر سکتی ہے، خدشات کی بنیاد پر کسی عاقل وبالغ لڑکی کی آزادی کو سلب نہیں کیا جاسکتا، وہ اپنی آزاد مرضی سے شادی کرنے اور آزادی سے زندگی گزارنے کا حق رکھتی ہے،دی ٹیلی گراف کی رپورٹ میں کہاگیا کہ لڑکی اوراس کی فیملی نے دعویٰ کیا ہے کہ اسے نقاش نے اغواء کیااورعدالت میں اس کی اغواء کار کیساتھ شادی کوقبول کرلیاجبکہ حقیقت یہ ہے کہ لڑکی نے لاہورہائی کورٹ میں دو ٹوک بیان دیا کہ اسے کسی نے اغواء نہیں کیااوریہ کہ اس نے اپنی پسند کیساتھ نقاش طارق کیساتھ شادی کی ہے،دی ٹیلی گراف نے لڑکی کے والدین کے وکیل خلیل طاہرسندھو کے حوالے سے کہا کہ نقاش اپنے ڈیڑھ سو ایسوسی ایٹس کیساتھ عدالت میں پیش ہواجبکہ کورٹ رپورٹرز ایسوسی ایشن کے سیکرٹری وجہیہ احمد شیخ اورکورٹ رپورٹرز نے ایسے کسی واقعہ کی تردید کی اور کہا کہ عدالت میں ایساکچھ نہیں ہواجو خلیل طاہر سندھو نے بیان کیا،علاوہ ازیں لڑکی کی والدہ ایف آئی آر میں اپنی بیٹی کی عمر14سال بیان کررہی ہیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی تسلیم کررہی ہیں کہ ان کی بیٹی ملاز مت کرتی ہے، دی ٹیلی گراف کے مطابق خلیل طاہر سندھو کا کہناہے کہ "ہم نے آج ایک اسلامی فیصلے میں جو دیکھا وہ ناقابل یقین ہے،ہم نے بہت ٹھوس دلائل دیئے تھے "۔ کو رٹ رپورٹرز کے مطابق ان کے مشاہدہ کے مطابق انہوں نے عدالتی کارروائی کے دوران کوئی غیر معمولی چیز نہیں دیکھی،دی ٹیلی گراف نے لال روبن ڈینیل کابیان شائع کیا کہ "اس عدالتی فیصلے کے بعد کوئی بھی مسیحی لڑکی پاکستان میں محفوظ نہیں "،جبکہ عدالتی فیصلے لال روبن ڈینیل کے اس بیان کی واضح تردید کررہے ہیں،لاہورہائی کورٹ نے 2اگست 2019ء کوپمی مسکان کیس میں اس معاملہ پر 27صفحات پر مشتمل ایک لینڈ مارک ججمنٹ بھی جاری کررکھی ہے،اس فیصلے میں مسٹر جسٹس طارق سلیم شیخ نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کرنیوالی 14سالہ مسیحی لڑکی پمی مسکان کو اس کی والدہ ناصرہ کے سپرد کرنے کاحکم دیتے ہوئے قراردیا تھا پمی مسکان بمشکل 14 برس کی ہے اور عاقل بالغ ہونے کی قانونی گنجائش کے دائرہ میں نہیں آتی، قانونی اہلیت کے فقدان کی صورت میں 14 برس کی پمی مسکان اپنی مرضی سے مذہب تبدیل نہیں کر سکتی، پمی مسکان کی والدہ ناصرہ اس کی قانونی وارث ہونے کی حیثیت سے اپنی بیٹی کی تحویل کی حقدار ہے، کورٹ رپورٹرز ایسوسی ایشن کے عہدیداروں اور ارکان کا کہناہے دی ٹیلی گراف کے نمائندے جوئی ویلن نے حقائق کے برعکس لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ رپورٹ کیااوراپنی سٹوری میں عدالتی فیصلوں کونظرانداز کرتے ہوئے پاکستان میں اقلیتوں کے عدم تحفظ اور خطرات کے حوالے سے یکطرفہ خبر دی۔
جھوٹا پروپیگنڈا 

مزید :

صفحہ اول -