منصوبہ نیا لاہور اور؟؟؟
مایوسی گناہ ہے۔ انسان کو مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ ہم بھی اسی ہدائت پر عمل کی کوشش کرتے ہیں اور اسی لئے ملکی سیاست اور حالات کی درستگی کے لئے قومی مسائل پر قومی اتفاق رائے کی بات، اپیل اور خواہش کرتے رہتے ہیں،اگرچہ ابھی تک ہماری یہ توقع اور آس پوری نہیں ہو پا رہی، اس کے باوجود ہم تاحال مایوسی کا اظہار نہیں کرتے اور یقین رکھتے ہیں، ”اک دن تو ہم بھی دیکھیں گے“ اور یہاں سیاسی اور قومی اتفاق رائے ہو گا، سیاسی استحکام آئے گا اور پھر معیشت بھی مستحکم تر ہو جائے گی، آج ہم بات کرتے ہیں۔ لاہور (راوی) اربن ڈویلپمنٹ پروجیکٹ کی گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے اس کے آغاز کی خاطر سنگ بنیاد بھی رکھ دیا ہے یہ ایک اکیلا منصوبہ ہی پچاس ہزار ارب روپے کا ہے اور اس کی تکمیل ایک ایسے نئے لاہور کی ہو گی جو پنجاب میں دوبئی ہو گا اور اس کی تعمیر اور تکمیل تک کے عرصہ میں ہزاروں ملازمتیں بھی پیدا ہوں گی۔ بڑی سرمایہ کاری آئے گی۔منصوبہ مکمل ہو گیا تو سیاحت سے آمدنی کا وسیلہ بھی بنے گا۔
اس میگا منصوبے کے بارے میں اپنے وسیع تجربے کی روشنی میں بعض تحفظات کے اظہار سے قبل اگر ہم یہ عرض کریں کہ وزیراعظم کشتیاں جلا کر آگے بڑھتے رہنے کے عزم طارق بن زیاد کا اظہار کرتے وقت یہ بھی بتا دیتے کہ یہ منصوبہ مسلم لیگ(ن) کے دور حکومت کا ہے اور اس میں لارڈ نذیر اور بعض دیگر پاکستانی نژاد غیر ملکی حضرات کی دلچسپی بھی تھی تو زیادہ اچھا ہوتا، یہ منصوبہ اسی پیرائے میں کہ جھیل اور نیا شہر آباد ہو گا۔ محمد شہبازشریف کے دور میں بھی شہرت حاصل کر چکا تھا، پھر بوجوہ التواء میں چلا گیا، اگر وزیراعظم یہ بتا کر بات آگے بڑھاتے کہ منصوبہ ٹھپ کیا گیا جسے وہ اب نئے انداز اور زیادہ بڑے سرمائے سے شروع کر رہے ہیں، تو اس سے محمد شہبازشریف یا مسلم لیگ (ن) کو کوئی فرق نہ پڑتا، البتہ ہم بھی وزیراعظم کی تعریف کرتے کہ ایسے الفاظ ہی تریاق بن جاتے اور قومی مفاہمت کی راہ ہموار کرتے ہیں، بہرحال یہ بڑا منصوبہ کئی پہلو لئے ہوئے ہے۔ راوی کے دوسرے کنارے پر تاریخی مقبرہ جہانگیر اور نورجہاں بھی ہے جب یہ شہر بلندی کی طرف جائے گا تو یہ دونوں تاریخی مقام نگینہ ثابت ہو سکتے ہیں کہ اب کی سیاحت کا مرکز ہیں۔ تجاوزات سے حسن گہنایا ہوا ہے۔ ورنہ تو ہم بھی ”پار کا میلہ“ یاد کرتے ہیں، جو ساون ہی میں ان یادگار سبزہ زاروں میں لگتا تھا۔
جہاں تک ہماری معلومات کا تعلق ہے تو جھیل بہت بڑی ہو گی جس کا آغاز سائیفن سے ہو گا اور لاہور سے آگے نیاز بیگ تک چلی جائے گی۔ اس کی تکمیل سے شہر کے شمالی حصے کی اراضی اور آبادی تو متاثر ہو گی۔ جنوبی طرف کی تجاوزات بھی ختم ہو جائیں گی۔ یوں ایک بہترین نظارہ ہو گا اور راوی کی بارہ دری بھی نیا مقام حاصل کر لے گی۔ اس لئے اس کی تعریف ہی کی جا سکتی ہے اور دعا ہے کہ یہ مکمل بھی ہو جائے، اب ہم اس بارے میں منتظمین کی توجہ کے لئے کچھ عرض کر دیں، جہاں تک وزیراعظم کا یہ کہنا ہے کہ راوی ایک گندہ نالہ بن گیا۔ اس میں کوئی دو آراء نہیں اور یہ بھی درست کہ اس سلسلے میں منصوبے بننے شروع ہوئے اور مکمل نہ ہو سکے۔ واسا نے شادباغ ڈرینج سٹیشن سے ملحق ٹریٹمنٹ پلانٹ کا منصوبہ شروع کیا۔ تالاب بنائے گئے اور پلانٹ کے لئے جگہ مختص کی گئی۔ تالابوں سے تو پانی گزارا جانے لگا لیکن یہ مکمل نہ ہوا اور مکینیکل کام نہ کر سکا، یوں راوی میں دو طرح کا پانی جاتا رہا اور جا رہا ہے۔ ایک ان تالابوں سے اور دوسرا براہ راست اس کے علاوہ ساندہ روڈ والے ڈسپوزل پر یہ انتظام بھی نہیں ہوا۔ اب اگر راوی میں صاف پانی پہنچانا ہے تو اس کے لئے منصوبے میں تمام ڈسپوزل سٹیشنوں پر جدید ٹریٹمنٹ پلانٹ لگانا ہوں گے جو دہرے کام والے ہوں، ایک تو پانی صاف کرکے دریا میں ڈالیں اور باقی ماندہ کھاد بنا لیں، یوں پہلے ہٹی، چٹی اور پھر کھٹی والا کام بن جائے گا۔
ہم نے بعض تحفظات کی بات کی تو پہلی عرض یہ ہے کہ راوی کے دونوں کناروں پر 1951ء کے سیلاب کے بعد بنائے گئے حفاظتی بند معدوم ہو گئے۔ ان کے اندر نہ صرف آبادیاں ہیں، کالونیاں بنیں اور پھر کارخانے بھی بن گئے۔ اب اندرون بند (شمالی+جنوبی) صنعتی علاقہ ہے۔ یہ صنعتیں آلودگی کا بھی سبب ہیں، جھیل کے لئے اور پھر شمالی طرف شہر کی عمارتوں کے لئے یہ سب جگہ حاصل کرنا ہوگی۔ جو لمبی مقدمہ بازی اور احتجاج کا ذریعہ بھی بن سکتی ہے۔ یقینا منصوبہ بناتے وقت ان امور پر غور کر لیا گیا ہو گا کہ ہمارے خیال میں سابقہ حکومت (مسلم لیگ ن) کی راہ میں بھی یہ سب سے بڑی رکاوٹ تھی، یہ تو ہم نے مشکل اور مسائل کی نشاندہی کی ہے، اب ہم اپنے 1965ء کی جنگ والے تجربے کے حوالے سے اپنے اس تحفظ کا اظہار کرتے ہیں کہ اگر ان پہلوؤں پر غور نہ کیا گیا تو یہ 50 ہزار ارب روپے کا میگا منصوبہ خطرے سے دوچار رہے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ دریا راوی پاک بھارت سرحد بھی ہے اور اس کے پانی پر طاس سندھ معاہدے کے تحت بھارت کا حق تسلیم کیا گیا ہے۔ اسی بناء پر ہمیں بمباں والی، راوی بیدیاں کینال بنا کر دریا چناب سے پانی حاصل کرنا پڑا اور جلو کے شمال میں سائیفن بنا کر نہر کا پانی دریا کے نیچے سے نکالنا پڑا تھا، اب بھارت والے جب برسات میں سیلابی کیفیت پیدا ہوتی ہے تو راوی میں پانی چھوڑ دیتے ہیں اور یہ گندہ نالہ پھر سے دریا بن جاتا ہے۔ اس لئے منصوبہ میں یقینا اس جھیل کو ایک ڈیم کی شکل دینا ہوگی جو برسات میں آنے والا پانی ذخیرہ کرنے کی اہلیت کا حامل ہو، ورنہ یہ جھیل برسات میں حسین نظارے کو پریشانی میں تبدیل کرنے کا ذریعہ ثابت ہو گی اور بہت کچھ بھی کہا جا سکتا ہے، تاہم اس یقین کے ساتھ کہ منصوبہ سازوں نے ہر امر ملحوظ خاطر رکھا ہو گا یہ بھی توقع کرتے ہیں کہ وزارت دفاع اور جی ایچ کیو سے این او سی بھی حاصل کیا گیا ہو گا کہ یہ کنارہ (جنوبی) بالآخر بھارت کے مقابل آ جاتا ہے اور واہگہ سے بھی فاصلہ اتنا ہے کہ 6ستمبر کو بھارتی فوج سائیفن کے سامنے گاؤں تک آ گئی تھی۔
نوٹ: وزیراعظم کی خدمت میں یہ مفت مشورہ بھی پیش ہے کہ وہ متعلقہ محکموں سے صحیح معلومات حاصل کر لیا کریں۔ لاہور کے پانی کی سطح 15سالوں میں آٹھ سو فٹ تک نیچے نہیں گئی، بلکہ یہ سطح اکثر حصوں میں 8سو فٹ تک چلی گئی کہ پانی حاصل کرنے کے لئے اتنی کھدائی کرنا پڑتی ہے۔اگرچہ اکثر مقامات سے اب بھی پانچ ساڑھے پانچ سو فٹ پر پانی مل جاتا ہے تاہم یہ سطح بتدریج کم ہو رہی ہے۔