پنجاب میں تھانہ اور پٹوار کلچر، کبھی نہیں سدھرے گا
پیارے کپتان نے لاہور میں بہت مصروف وقت گزارا تاہم جس بات سے اطمینان ہوا وہ ان کا پنجاب کے تھانہ اور پٹوار کلچر پر اظہار برہمی تھا۔ انہوں نے یہ کہہ کر پنجاب حکومت کے ہوش اڑا دیئے کہ پنجاب میں نچلی سطح پر بہت زیادہ کرپشن ہے اور یہ بات ذاتی طور پر ان کے نوٹس میں آ چکی ہے مگر میں سوچ رہا ہوں کہ جس طرح کپتان نے اظہار برہمی کیا ہے، اس طرح تو ماضی کے حکمران بھی کرتے رہے ہیں پنجاب کا تھانہ اور پٹوار کلچر اس طرح کے اظہار برہمی سے تو تبدیل ہونے والا نہیں، یہ تو بہت سخت جان ہے، حکمرانوں کے ادوار ختم ہو جاتے ہیں، اس کا بال تک بیکا نہیں ہوتا جس طرح وزیر اعظم عمران خان افسروں سے کہہ رہے تھے کہ اب ان کے الاؤنسز میں بھی اضافہ کر دیا گیا ہے، اس کے بعد کوئی عذر باقی نہیں رہتا کہ وہ عوام کی خدمت نہ کریں، عام آدمی کے مسائل حل نہ کریں، اسی طرح نوازشریف اور شہباز شریف بھی اپنے دورِ حکومت میں افسروں کو یہی کہتے تھے مگر یہ وہ بیورو کریسی یا پولیس تو ہے نہیں کہ جو کسی کی بات مان لے اس کے خمیر میں تو من مانی کرنے کا ایسا مادہ موجود ہے کہ جو اسے کسی کی بات ماننے سے ہمیشہ روکے رکھتا ہے۔ فیصل آباد کے ارکان اسمبلی نے وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات میں یہ دہائی دی کہ تھانوں میں کرپٹ ایس ایچ اوز لگائے گئے ہیں، جنہوں نے کرپشن کی گنگا بہا رکھی ہے جب حکومت کے اپنے نمائندے یہ کہیں گے تو باقی خلقت کا کیا حال ہوگا۔ فیصل آباد کا سی پی او آخر کیا کر رہا ہے اگر وہ چن چن کر کرپٹ ایس ایچ اوز لگاتا ہے تو پہلے اس کی پکڑ ہونی چاہئے، لیکن نہیں صاحب، وہ تو کوئی سی ایس پی افسر ہوگا۔ اس کے خلاف تو کارروائی کرتے ہوئے خود حاکمانِ وقت کے پر جلنے لگتے ہیں کیونکہ سی ایس پی کلاس کو ناراض نہیں کیا جا سکتا، وگرنہ حکومت کا تختہ الٹنے میں دیر نہیں لگتی۔
پنجاب میں تھانہ کلچر کی ذمہ داری آئی جی پر عائد ہوئی ہے اور پٹوار کلچر چیف سکریٹری کی نگرانی میں کام کرتا ہے۔ سوال یہ ے کہ عثمان بزدار نے اپنے دور وزارتِ اعلیٰ میں کئی چیف سکریٹریز اور آئی جی تبدیل کئے آخر وہ تھانہ اور پٹوار کلچر کو تبدیل کیوں نہیں کر سکے۔ اس کا ایک مطلب تو یہ نکلتا ہے کہ انہوں نے چیف سیکرٹری یا آئی جی عوام کی بہتری کے لئے نہیں بلکہ اپنی ”بادشاہت“ قائم کرنے کے لئے تبدیل کرائے۔ اگر چیف سیکرٹری یا آئی جی کو کھل کر کام نہیں کرنے دیا جائے گا اور افسروں کی تقرری و تبدیلی کے لئے وزیر اعلیٰ ہاؤس سے ہدایات جاری کی جائیں گی تو ان کی محکمے پر گرفت کیسے قائم ہو گی، یا خرابی کی صورت میں انہیں ذمہ دار کیسے قرار دیا جائے گا۔ ایک اچھا ضلعی افسر پورے ضلع کو درست کر سکتا ہے چاہے وہ پولیس کا ہو یا ضلعی انتظامیہ کا، بشرطیکہ اسے آزادانہ کام کرنے کا موقع دیا جائے۔ ہم ہر بار تھانہ یا پٹوار کلچر کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے ایس ایچ او یا پٹواری کو ذہن میں رکھتے ہیں، حالانکہ اس کی اصل ذمہ داری ضلع کے ڈی پی او اور ڈی سی پر عائد ہوتی ہے، وہ اگر اپنے ضلع میں ایک اچھا نظام نہیں دے پاتے اور تھانوں نیز پٹوار خانوں کو خود اپنی کمائی کا ذریعہ بنا لیتے ہیں تو اس کلچر کو کون ختم کر سکتا ہے۔
کل وزیر اعظم عمران خان جب تھانہ کلچر میں تبدیلی کی بات کر رہے تھے تو میرے ذہن میں ان کی انتخابی تقریریں گردش کر رہی تھیں۔ وہ سب سے زیدہ زور ہی اس بات پر دیتے تھے کہ پنجاب میں پولیس کو درست کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اسے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ وہ اس حد تک آگے چلے جاتے تھے کہ پنجاب کو شریف برادران نے پولیس اسٹیٹ بنا دیا ہے، اسے تبدیل کئے بغیر صوبے میں گڈ گورننس قائم کی جا سکتی ہے اور نہ ہی عام آدمی کو کسی طاقتور کے مقابلے میں انصاف مل سکتا ہے۔ وہ بار بار خیبرپختونخوا کی مثال دیتے تھے، جہاں بقول ان کے پولیس سیاسی دباؤ سے آزاد ہو کر ایک مثالی پولیس بن چکی ہے۔ آج جب دو سال بعد میں وزیر اعظم کو تھانہ کلچر پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے دیکھ رہا تھا تو مجھے یہ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اس کا الزام وہ کسے دے رہے تھے یا برہمی کا اظہار کس پر کر رہے تھے۔ کیا انہوں نے پولیس میں اصلاحات کے لئے کوئی قانون سازی کی، کوئی کمیٹی بنائی، کسی کو ٹاسک دیا۔ جب پولیس نے چلنا ہی انگریز کے بنائے ہوئے پولیس ایکٹ پر ہے تو اس سے اچھے کی امید رکھنا عبث ہے جہاں کہیں اچھے پولیس افسر تعینات ہیں، وہاں وہ اپنے اقدامات سے پولیس کی کارکردگی ا ور رویئے کو بہتر بنا لیتے ہیں۔ باقی تو ہر جگہ پولیس نے وہی کرنا ہے جو وہ ستر برسوں سے کرتی آ رہی ہے۔ جہاں آج بھی سیاست کا سب سے بڑا ستون ایس ایچ او ہے، وہاں کوئی یہ دعویٰ کرے کہ تھانہ کلچر تبدیل کر دوں گا، تو یہ سوائے طفل تسلی یا دھوکے بازی کے اور کچھ نہیں۔ اندازہ کریں کہ فیصل آباد کے ارکانِ اسمبلی نے وزیر اعظم سے ملاقات میں ایس ایچ اوز کی شکایت کی، حالانکہ ذمہ داری تو سی پی او اور اس سے آگے آئی جی پر عائد ہوتی ہے کہ انہوں نے اپنے محکمے میں احتساب کا نظام ہی رائج نہیں کیا۔
ہمارے تھانے ہوں یا پٹوار خانے، دونوں کا بنیادی منشور یہی ہے کہ عوام کو ان کے حقوق سے محروم رکھ کر مال بنانا ہے۔ پٹوار خانے کا مطلب صرف پٹواری کا دفتر ہی نہیں بلکہ وہ تمام دفاتر ہیں جو ڈپٹی کمشنر بہادر کے زیر نگرانی کام کرتے ہیں ایک اچھا ڈپٹی کمشنر چاہے تو اپنے ضلع میں بڑی تبدیلی لا سکتا ہے، اسی طرح ایک اچھا ڈی پی او اپنے ضلع کے تھانوں کو عوام دوست بنا کر انہیں ریلیف دے سکتا ہے۔ مگر اس کے لئے تھوڑی سی جرأت رندانہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اپنے ضلع کے ارکان اسمبلی کو راضی رکھنے کے خوف میں مبتلا افسران کوئی تبدیلی نہیں لا سکتے، کیونکہ ہر کرپٹ ایس ایچ او کے پیچھے کسی نہ کسی بالا دست کا ہاتھ ہوتا ہے اور ہر پٹواری یا سرکاری کارندہ کسی کی آشیر باد سے اپنی سیٹ پر موجود رہتا ہے۔ یہ معاملہ بہت اُلجھا ہوا ہے، ابھی کچھ ہی دن پہلے وزیر اعظم عمران خان نے چیف سکریٹری اور آئی جی کو یہ ہدایات جاری کی تھیں کہ وہ اپنے افسران کو ارکانِ اسمبلی سے تعاون کا حکم جاری کریں کیونکہ ارکانِ اسمبلی نے ہلکی پھلکی ”بغاوت“ کے اشارے دیئے تھے، ایسی صورت میں میرٹ پر کام کرنے کی گنجائش کہاں رہ جاتی ہے اب تو یہ افواہیں بھی گرم ہیں کہ ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او کی تقرری کے ریٹ مقرر ہیں جس کے بعد وہ اضلاع میں کرپشن کی گنگا بہا دیتے ہیں اچھی بات ہے کہ پنجاب میں نچلی سطح کی کرپشن کا وزیر اعظم نے نوٹس لیا ہے لیکن خالی نوٹس لینے سے کیا پہلے کوئی مسئلہ حل ہوا ہے، جو یہ حل ہوگا؟