شعر و ادب کا کمپاؤنڈر
پرانے زمانے کے گورنمنٹ کالج اور آجکل کی جی سی یونیورسٹی کی اندرونی سڑک کے کنارے اُس روز انگریزی کا ایک نوجوان لیکچرر اپنے ہیڈ آف ڈپارٹمنٹ پروفیسر رفیق محمود کے ساتھ درخت کے سائے میں کھڑا باتیں کر رہا تھا۔ اچانک طالب علمی کی عمر سے ذرا بڑے ایک صاحب نمودار ہوئے اور کسی سیاق و سباق کے بغیر ایکدم پوچھنے لگے ”رفیق صاحب، کیا آپ ڈاکٹر ہیں؟“ بظاہر یہ اشارہ پی ایچ ڈی کی ڈگری ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں تھا۔ لیکچرر نے خفت پر قابو پانے کے لیے کہا ”رفیق صاحب ڈاکٹر سے ذرا ہی کم ہیں‘‘۔ اِس پر پروفیسر رفیق محمود نے عادت کے مطابق زور کا قہقہ لگایا اور بولے ”جی ہاں، مَیں لٹریچر کا کمپاؤنڈر ہوں‘‘۔ آج کے بچوں کے لیے بتاتا چلوں کہ اُن دنوں بیشتر ڈاکٹر مریضوں کو کمپنی بند ادویات کی بجائے خود دوا بنا کر دیا کرتے تھے اور ڈاکٹر کا نائب جو دوا تیار کرنے پہ مامور ہوتا، کمپاؤنڈر کہلاتا۔
چونکہ اِس کہانی کا نوجوان لیکچرر مَیں ہی ہوں، اس لیے یہ واضح کر دینے میں کوئی حرج نہیں کہ ہمارے صوبہء پنجاب میں میرے ہوش سنبھالنے تک میٹرک یا ثانوی درجہ کو اکثر لوگ دسویں جماعت کہتے رہے۔ اِس سے اوپر کالج اور یونیورسٹی تعلیم کی نشاندہی اُسی انداز میں ہوتی جس طرح پھل خریدتے ہوئے کیلے اور مالٹے گنے جاتے ہیں۔ یعنی انٹر میڈیٹ کے لیے بارہ جماعتیں پاس کی اصطلاح استعمال ہوتی اور بی اے یا بی ایس سی کر لینے والا چودہ پاس کہلاتا۔ یہ تو عام لوگوں کی باتیں ہیں۔ پڑھے لکھے آدمی، جن کی تعدا د بہت کم تھی، اِن تعلیمی اسناد کی نوعیت اور اہمیت سے بہتر طور پہ واقف تھے۔ چنانچہ شبلی بی کام کا دَور گزر جانے پہ بعض مطبوعات میں احسان بی اے، اعجاز حسین رضوی بی ایس سی اور کرشن چندر ایم اے کے الفاظ کا نظر سے گزرنا یاد پڑتا ہے۔ رہی پی ایچ ڈی کی ڈگری اور اِس کی بدولت ڈاکٹر کا لقب تو بہتوں کے لیے یہ جھاکا ٹیکنالوجی تھی۔
جھاکا اس لیے کہ خود میرے ذہن میں اسکول داخل ہونے سے پہلے ڈاکٹر کے لفظ کا بس ایک ہی مفہوم تھا، جس سے مراد ہوتی سوئیوں والا ڈاکٹر جو انجکشن لگاتا ہے۔ اول نمبر پہ تھے منفرد صحافی خالد حسن کے والد اور میرے رشتے کے پھوپھا ڈاکٹر نورحسین جو پاکستان بننے پر جموں سے ہجرت کرکے سیالکوٹ میں ہمارے ہم وطن بن گئے تھے۔ دوسرے، لاہور کے ڈاکٹر حفیظ جن سے جنرل ایوب کے مارشل لا سے پہلے نانا کے گھر میں بخار ہو جانے پہ واسطہ پڑا۔ کسی کو خیال نہیں تھا کہ و ہی بیگم کلثوم نواز شریف کے والد کے طور پہ جانے جائیں گے۔ اُس وقت تک تعارف یہی تھا ایک طرف اندرون دہلی دروازہ اور دوسری جانب رام گلی سے لے کر عزیز روڈ مصری شاہ تک اُن کی ٹکر کا کوئی اور جنرل پریکٹشنر ہے ہی نہیں۔ بعض ڈاکٹروں نے امرتسر یا کوئٹہ سے ایل ایس ایم ایف کر رکھا تھا، اِس لیے گریجویٹ ڈاکٹر کا نام زیادہ احترام سے لیا جاتا اور نام لے کر ساتھ ہی زور سے کہتے کہ ایم بی بی ایس ڈاکٹر۔
یہ ہے وہ پس منظر جس میں علامہ اقبال کی اولین تصویر نے، جو ایک کاپی کے گہرے نیلے ٹائٹل پر چاندی کے رنگ میں چھپی ہوئی تھی، مجھے بیٹھے بیٹھے چکر میں ڈال دیا۔ گھپلا یہ ہوا کہ اُن دنوں اکثر لوگ حکیم الامت کو علامہ اقبال کی بجائے ڈاکٹر اقبال کہہ کر یاد کیا کرتے تھے۔ چنانچہ جب ہماری پھوپھو نے، جو ایک مڈل اسکول کی استانی تھیں، کاپی والی تصویر پہ انگلی رکھتے ہوئے سرپرستانہ لہجے میں کہا کہ یہ ڈاکٹر اقبال ہیں تو مَیں ڈر سا گیا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ یہ دوائیوں کے نہیں بلکہ علم کے ڈاکٹر ہیں۔ آہستہ آہستہ، اتنا تو سمجھ میں آگیا کہ اقبال نے لوگوں کو پنسلین کے نہیں، فلسفہ و ادب کے ٹیکے لگائے ہیں۔ علم کی ڈاکٹری کا سُن کر بھی ڈر ہی محسوس ہوتا رہا کہ شروع شروع میں اِس سے انجکشن کا خوف جڑا ہوا تھا اور اب ہائر ایجوکیشن کمیشن کا رعب وابستہ ہے۔
علم کا ڈاکٹر اپنے مضمون کا اسپیشلسٹ ہوتا ہے، مگر اسپیشلسٹ کی حقیقت پسندانہ تعریف کسی نے یہ کہہ کر کی ہے کہ اپنے کا م کا ایک ایسا ماہر جو کم سے کم کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جانتا ہو۔ جیسے ہماری نو عمری تک معمولی علاج کے لیے کسی کا ڈاکٹر ہونا ہی کافی تھا، جسے سرکاری اسپتال میں جنرل ڈیوٹی میڈیکل آ فیسر کہا کرتے۔ مرض شدید تر ہو جانے پر کسی خصوصی معالج کو پرائیویٹ دکھانے کی کوشش کی جاتی۔ اِس کا انحصار بھی آپ کی قوت ِخرید پہ تھا کہ کنسلٹنٹ فزیشن، کارڈیالوجسٹ یا ای این ٹی اسپیشلسٹ کی خدمت میں سولہ روپے کا نذرانہ پیش کر سکتے ہیں یا نہیں۔ خیر، خصوصی معالجین زیادہ تر عمر رسیدہ، خوش مزاج اور انسان دوست طبیعت کے لوگ ہوتے مگر تھی یہ اسپیشلائزیشن کی ابتدائی شکل۔ اس طرح کی سب اسپیشلٹیاں نہیں تھیں کہ مَیں تو صرف دائیں کان کا ماہر ہوں، بائیں کان کا ڈاکٹر دوسرا ہے۔
بہرحال جو کچھ سوئیوں والے ڈاکٹروں کے ساتھ ہوا، علم کے ڈاکٹروں سے بھی وہی ہو رہا ہے۔ دس سال سے کچھ پہلے کسی نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے دماغ میں یہ بات ڈال دی تھی کہ کالج یونیورسٹی میں پڑھانے کے لیے استاد وہی کام کا ہے جو علم کا ڈاکٹر ہو۔ مشکل یہ ہے کہ ہمارے ہاں زندگی کے ہر شعبہ میں حقائق کے کسی ایک ہی پہلو کو دیکھنے اور باقی سب کو نظر انداز کرنے کا رواج پختہ ہے۔ جیسے پاکستان بن گیا تو تقسیم سے پہلے کی تاریخ کا وہی واحد بیانیہ پڑھایا جانے لگا جو آل انڈیا مسلم لیگ کے باضابطہ نقطہء نظر پر مبنی تھا۔ میرے اپنے گھر میں مولانا حسین احمد مدنی، ابو الکلام آزاد اور خان عبد الغفار خان کے متعلق ہر روز ایسے کلمات سننے میں آتے کہ اِن بزرگوں کی سیاست سے جزوی اختلاف رکھنے کے باوجود میں انہیں دہرانے کی گستاخی نہیں کر سکتا۔ علمی ڈاکٹری کے بارے میں بھی ایچ ای سی نے اسی یک طرفہ مسلم لیگی رویے کو اپنا لیا اور غیر ڈاکٹر استاد معتوب و مقہور قرار پانے لگے۔
یہاں پہنچ کر آپ پوچھیں گے کہ جناب، اگر ایچ ای سی کی دیکھا دیکھی آپ کے اپنے گھر کے بچے الگ الگ یونیورسٹیوں میں ریسرچ کی شمعیں روشن کرنے کے لیے کوشاں ہیں تو پھر بتائیے کہ اعلی ڈگریاں حاصل کرنے اور اِس کے عوض اساتذہ کی تنخواہوں میں اضافہ ہونے سے آپ کو آخر تکلیف کیا ہے۔ بنیادی وجہ ذاتی سی ہے، اور وہ یہ کہ اب سے چالیس سال پہلے جب یہ کالم نویس اعلی تعلیم کے لیے برطانیہ تشریف لے گیا تو وہاں نام کے ساتھ اپنی ڈاکٹری اجاگر کرنے کا رجحان ہی نہیں تھا۔ اُس وقت تک یونیورسٹیوں میں ایسے پروفیسر موجود تھے جن کا علمی کام اپنی جگہ، مگر رسمی تعلیم بی اے آنرز سے اوپر نہ تھی۔ بعض ایک کا تدریسی مضمون بھی ان کی ڈگری سے ہٹ کر تھا۔ پھر بی بی سی میں ہمارے باس ڈیوڈ پیج، ڈیوڈ کے باس ولیم کرالے اور باسوں کے باس جِم نورس تینوں تاریخ اور سیاسیات کے پی ایچ ڈی تھے۔ مگر حرام ہے جو کسی نے بھول کر بھی انہیں ڈاکٹر صاحب کہا ہو۔ یہ سُن کر اگر آپ مجھ پر کسی کامپلیکس کا لیبل چسپاں کرنا چاہیں تو مَیں ذوالفقار علی بھٹو کی ایک تقریر کے الفاظ دہراؤں گا کہ بھائی جان، غصہ نہ کرو، آرام سے بیٹھو، پنکھا چلاؤ، پانی پیو، پان کھاؤ اور میری بات سنو۔
مجھے سب سے پہلے اِس سوال کا ایماندارانہ جواب درکار ہے کہ انڈر گریجوایٹس کو پڑھانے کے لیے کیا ایسا استاد موزوں ہوگا جس کا مطالعہ وسیع البنیاد ہو اور متعلقہ مضمون کے بیشتر پہلووں کا احاطہ کرے یا وہ استاد جس کی علمی دلچسپی میں گہرائی تو ہو مگر ریسرچ کرتے کرتے توجہ کا دائرہ سکڑتا جا رہا ہو۔ آپ کہیں گے کہ انڈر گریجویٹ تدریس کی حد تک تو کالم نویس کی بات صحیح لگتی ہے، لیکن ایک قدم اور آگے چلیں تو ریسرچ کی قلمرو شروع ہو جائے گی۔ جی ہاں، شروع تو ہو جائے گی، لیکن یہ بھی تو سوچیئے کہ ریسر چ کی ضرورت پڑتی کب ہے اور موضوعات کہاں سے آتے ہیں؟جواب یہ ہے کہ اِس کا تعلق آپ کی اجتماعی ترقی کی سطح سے ہے۔ گویا جہاں تک آپ کا ملک پہنچ چکا، اُس سے اگلے مرحلے کی ضرورت ہمارا موضوع متعین کرے گی۔ دیکھیں نا پاکستان میں کورونا کی پابندیاں ختم ہونے پر تعلیمی اداروں میں سماجی فاصلے کے لیے کیا احتیاطیں اختیار کی جائیں گی، ہر کسی کو ماسک پہننا چاہیے یا نہیں اور کلاس روموں میں صابن یا سینٹائزر یونیورسٹی انتظامیہ فراہم کرے گی یا طلباء و طالبات کے والدین؟ یہ موضوعات تو سمجھ میں آتے ہیں۔ لیکن اِس نوعیت کے تحقیقی مقالے تو ڈرامہ ہی ہوئے نا کہ ’خاور نعیم ہاشمی کی صحافت کے چار ادوار‘ یا ’شاہد ملک: فکر، فن، شخصیت‘۔
اِس کا یہ مطلب نہیں کہ جن دوستوں نے بہتر گریڈ، اضافی سالانہ ترقی یا محض کسی مقبول ادارے میں تعیناتی کی خاطر اپنے تئیں ریسرچ کا کشٹ کاٹا ہے، اُن سے موضوع کی موزونیت، حقائق جوئی اور حقائق شماری کے طریقوں اور اخذ کردہ نتائج کی صداقت و افادیت کی بحث چھیڑ کر، اقبال کے الفاظ میں وہی سلوک کیا جائے کہ ’آپ بھی شرمسار ہو، مجھ کو بھی شرمسار کر‘۔ ہو سکتا ہے بعض احباب کا مقصد اُسی طرح ڈاکٹر، ڈاکٹر کھیلنا ہو جیسے مَیں اور میرا چھوٹا بھائی بچپن میں ایک دوسرے کو ’ملک صاحب، ملک صاحب‘ کہہ کر بڑا بننے کی مشق کیا کرتے تھے۔ اِس قسم کی مشقوں سے کون کتنا بڑا بن سکتا ہے؟ کچھ نہیں کہوں گا، کیونکہ چھتیس سال کی عملی صحافت اور چھبیس برس کے فل ٹائم اور جز وقتی تدریسی تجربہ کے بعد بھی پروفیسر رفیق محمود کی طرح مَیں ڈاکٹر نہیں بن سکا، بس شعر و ادب کا کمپاؤنڈر ہوں۔