میرے دور کی ائیر فورس (دوسری قسط)
نومبر میں کافی خنکی ہو جاتی ہے۔ ہم نے اپنے گرم سوئیٹر یا کوٹ وغیرہ پہن لئے تھے جوں جوں مری کی طرف ہمارا ٹرک جا رہا تھا موسم یخ ہوتا جا رہا تھا۔ قریباً 2 گھنٹے کے بعد ہم اپنی منزلِ مقصود پر پہنچ گئے۔ ہاتھ پیر ٹھٹھر رہے تھے۔ کراچی جیسے موسم میں بہت زیادہ گرم کپڑوں کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔ ہمیں شائد اسی لئے سردی بھی زیادہ لگ رہی تھی۔ RPAF لوئر ٹوبہ کے گارڈ روم پر ہمارا ٹرک کچھ لمحے رُکا اور فوراً ہی گیٹ کے اندر داخل ہو کر ایک طرف کھڑا ہو گیا۔ اُسی پولیس کارپورل نے زور دار آواز سے ہمیں ٹرک سے نیچے اُترنے کا حکم دیا۔ ہمارے میں سے کسی نے اگر احتیاط سے اُترنے میں دیر کا مظاہرہ کیا تو کارپورل کی کرخت آواز آئی Do'nt get out like women. Jump out. Hurry up۔ ٹرک بڑا اُونچا تھا۔نیچے اُترنے کے لئے لوہے کی سیڑیاں بھی نہیں لگائی گئی تھیں۔ ایک دو لڑکے زمین پر گر بھی گئے لیکن چوٹ نہیں لگی۔ اِتنی دیر میں ایک سارجنٹ گارڈ روم سے باہر ٓایا اور حکم دیا Fall in۔ ہماری کچھ سمجھ نہ آیا۔ اُس سارجنٹ نے بھی کڑاکے دار آواز میں ہمیں لائن میں کھڑے ہونے کا کہا۔ یہاں ہماری دوبارہ حاضری لی گئی۔ اس مرتبہ ہر لڑکے کو ٹرک سے اپنا اپنا سامان نکال کر اپنے ساتھ زمین پر رکھنے کا کہا گیا۔ ہم لوگوں کا مختصر سا سامان تھا۔ زیادہ بوجھ والا بھی نہ تھا۔ حاضری کے بعد ہمیں سامان اُٹھاکر ایک لائن میں ایک طرف چلنے کا کہا گیا۔ سارجنٹ نے یہ آرڈر Quick march کی شکل میں دیا۔ اَب تک ہمیں یہ یقین تو ہو گیا تھا کہ ہماری کوئی مدد نہیں کرے گا۔ہمیں سخت آواز کے ساتھ احکامات سننے کو ملیں گے۔ ہم چلتے چلتے ایک بڑے سے سٹور میں پہنچ گئے۔ وہاں ہمیں ہماری یونیفارم بمعہ گرم ٹوپی نکٹائی، نیلی جرسی، گرم جرابیں، لکڑی کا بڑاسا صندوق، فوجی بوٹ، خاکی نیکرز، PT شوز، نیلے رنگ کی دو قمیضیں، تولیہ، بنیان، باتھ روم سیلپرز۔ ایک دھوپ کی سیاہ عینک، کمبل، بستر کی چادریں اور ایک نیلے رنگ کی پوٹلی میں سوئی دھاگا، فالتو بٹن۔ اس پوٹلی کا نام House wife تھا۔ اس سامان کو KIT کا نام دیا گیا تھا۔ ہر لڑکے کی KIT اِتنی بھاری تھی کہ ہم دو لڑکے ایک KIT بھی نہیں اُٹھا سکتے تھے۔ ہمیں حکم دیا گیا کہ ہر لڑکا اپنا اپنا سامان لکڑی کے Kit Box میں رکھے اور ہر لڑکا اپنے اپنے باکس کو سر پر اُٹھائے اور بیرکوں کی طرف مارچ کرے۔ یہ تو ہم نے زندگی میں کبھی نہ کیا تھا کہ ایک بڑی عمر کے اہل کار نے ہمارے Kit Box میں ہمارا سامان قرینے سے رکھنے کامظاہرہ کیا تاکہ ہم سب ایسا ہی کریں۔ اَب اُس ائیر مین نے اپنی مدد سے Kit Box ہمارے سروں پر رکھے اور کہا کہ وہ دُور جہاں روشنی نظر آرہی ہے اُس بیرک کی طرف پیدل چل کر جاؤ۔ کچھ نہ پوچھئے ہم کس طرح پہنچے۔ بوجھ سے ہماری ٹانگیں لڑکھڑا رہی تھیں۔ اپنی تمام ہمت اکٹھی کر کے ہم ایک جہازی سائز ڈبل سٹوری بیرک کے برانڈے میں پہنچ گئے۔ سردی بڑھ گئی تھی مگر ہمیں بوجھ اُٹھا کر چلنے کی وجہ سے پسینہ آ رہا تھا۔ بیرک کے اندر سے سیاہ سے چہروں والے ہماری ہی عمروں کے لڑکے باہر آئے۔ پولیس کارپورل نے اُنہیں انگریزی میں بتایا They are your colleages from Karachi اور ہمیں مخاطب ہو کر کہاThey arrived from East Pakistan 2 days ago.۔ میَں نے توکم از کم ایسٹ پاکستانی کو پہلی مرتبہ دیکھا۔ اُن کا رنگ، اُن کا قد اور شکلیں یہاں تک کہ اُن کا لنگی کُرتا ہم سب سے مختلف تھا۔ صرف ایک لڑکا ہماری طرح سفید تھا جو بعد میں پتہ چلا کہ وہ چٹاگانگ کے پہاڑی علاقوں سے تھا۔وہ ذرا ملنسار تھا۔ بیرک کے اندر 50 بیڈ لگے تھے۔ لوہے کے سپرنگ والے۔ ناریل کے چھلکوں کے گدے۔ تکیے بھی ناریل کے۔ ہم نے زندگی میں ایسے بیڈ ہسپتالوں میں شائد دیکھے ہوں۔ آج کی طرح فوم کے بیڈ نہیں تھے۔ بیرک کا فرش لکڑی کا تھا۔ ہم 13 لڑکوں نے اپنے اپنے بیڈ سنبھال لئے۔ آہستہ آہستہ ایسٹ پاکستانی ساتھیوں سے تعارف ہونا شروع ہوا۔ ہمیں کارپورل نے پہلے ہی آگاہ کر دیا تھا کہ ہم نے ایسٹ پاکستانی ساتھیوں کو بنگالی بابوکے نام سے مخاطب نہیں کرنا۔ یہ جُرم ہوگا۔ یہ 23-24 لڑکے تھے جو ڈھاکہ سے ائیر فورس کے جہاز میں دو روز پہلے آئے تھے۔ وہ بھی Apprentice ہی بھرتی ہو کر آئے تھے لیکن اُن کی ٹریڈز مختلف تھیں۔ صرف13 لڑکے ریڈار کی ٹریڈ کے تھے باقی مختلف ٹیکنیکل شعبوں کے تھے لیکن اِن کی ٹریڈ ٹرئینگ کورنگی کریک کراچی میں ہونی تھی سوائے ریڈار ٹریڈ کے۔ کچھ لڑکے ڈھاکہ سے تھے، سلہٹ سے تھے۔ دیناج پور سے تھے۔ اُن میں 2 چکمہ قبیلے سے تھے جنکی شکلیں بالکل برمی کی طرح لگتی تھیں۔ اُن لڑکوں کو انگریزی ہم سے زیادہ آتی تھی لیکن اُن کا لہجہ سمجھ نہ آتا تھا۔ ہم بھی مہارت سے انگریزی نہیں بول سکتے تھے، سوائے 5-6 لڑکوں کے۔
دوسرے دن شام کو ہماری ہی طرح کے 10-11 لڑکے اور پہنچ گئے۔ یہ لڑکے پنجاب اور سرحد کے دوسرے شہروں سے آئے تھے۔ ہم کراچی والوں کے ساتھ 6 لڑکے بنیادی طور پر پنجابی ہی تھے۔ صرف 7 لڑکے اُردو سپیکنگ تھے جو ذرا بڑے گھروں سے آئے تھے۔ ہمارے بنگالی ساتھی ہم سے پہلے لوئر ٹوبہ پہنچے تھے۔ ہم سے دو روز قبل پہنچ کر کیمپ کے ماحول سے وہ لوگ مانوس ہو چکے تھے۔ ابھی ہماری باقاعدہ تربیت کا آغاز ہونے میں دو روز تھے۔ سیف الرحمن بھوئیاں جو ایسٹ پاکستان سے 3 روز پہلے بھرتی ہو کر پہنچا تھا، ہمارے تمام Batch کا سینئر بنا دیا گیا۔ ہماری باقاعدہ تربیت اگلے روز پیر سے شروع ہونی تھی۔ ہمارے انسٹرکٹرجو کارپورل کے برابر تھے، ہم سب سے متعارف ہونے کے لئے ایک روز پہلے ہی یعنی اتوار کو آگئے تھے۔ یہ لوگ اگلے دو ماہ کے لئے ہماری تربیت کے ذمے د ار ہونگے۔ کافی عمروں اور کرخت سے چہروں والے اُستاد تھے۔ بعد میں پتہ چلا کہ ہمارے اُستاد آرمی سے منتقل ہو کر آئے تھے۔ اُن کا لہجہ اور آواز کسی طرح نرم نہ تھی۔ اِتوار کو ہی اُنہوں نے ہماری باقاعدہ تربیت کا پروگرام صبح 6 بجے سے رات دس بجے تک کا بتا دیا۔ جو ہم نے روزانہ فالو کرنا تھا سوائے اِتوار کی چھٹی کے۔ اُنہوں نے ہمیں اُسی وقت نائی کی دُکان پر جا کر بال کٹوانے کا حکم دیا۔ہماری تربیت کا آغاز صبح 6 بجے سیٹی کی آواز سے شروع ہو گا۔ ہمارے ا،نسٹرکٹرز کی رہائش ہماری بیرک سے ملحقہ کمروں میں ہی تھی بطور وارڈن کے۔ ہم خاکی نیکر، PT کے جوتوں، گرم نیلی جرابوں اور گرم نیلی جرسی پہن کر باہر fall in ہونگے۔ 45 منٹ کی بھاگ دوڑ اور مختلف ورزشوں کے بعد ہم اپنی بیرک واپس آجائیں گے۔ ہمیں 45 منٹ میں نہا دھوکر، گرم یونیفارم بمعہ نیکٹائی پہن کر اور میس (Mess) میں ناشتہ کر کے 7.30 بجے باہر پریڈ گراؤنڈ میں تیار کھڑا ہونا ہو گا۔ ہم سب نے یہ ہدایات سُن تو لیں لیکن یقین نہیں آرہا تھا کہ ہم یہ سب کام وقت پر کر بھی سکیں گے۔ اور ہاں ہمیں یہ بھی بتادیا گیا کہ روزانہ رات 10 بجے لائٹس آف ہو جائیں گی۔ صرف ورانڈے کی روشنی آن رہے گی۔ ہمیں ہمارے اُستادوں نے اُسی روز باربر شاپ پر بال کٹوانے کا حکم دیا۔ ہماری ہیر کٹ کے سٹائل کا فیصلہ باربر خود کرئے گا۔ ہم نے اپنی طرف سے کوئی ہدایت نہیں دینی۔ باربر کو ہم نے کوئی معاوضہ نہیں دینا۔ ہم اپنے بنگالی دوستوں کی ہیر کٹ جو وہ ہم سے پہلے ہی کروا چکے تھے، دیکھ کر اَندازہ ہو گیا تھا کہ ہمارے بالوں کا کیا حشر ہو گا۔ باربر کی دُکان پر 10 کرسیاں اور دس کاریگر مصروف ِ کار تھے۔5 منٹ میں وہ ایک بندے کو فارغ کر رہے تھے۔ یہ فوجی ہیر کٹ تھی جس کو ائیر فورس کی زبان میں Monkey cut کہتے تھے۔ ہمارے بنگالی ساتھی نماز کے پابند تھے۔ وہ بیرک کے ورانڈے میں ہی نماز پڑھ رہے تھے ہم مغربی پاکستانیوں میں زیادہ نمازی نہیں تھے۔ صوبہ سرحد کے دو لڑکے نماز میں ریگولر تھے۔ اس کیمپ میں باقاعدہ مسجد تو ابھی تعمیر نہیں ہوئی تھی بس ایک بڑا سا چبوترہ بنا ہوا تھا جس کی ابھی چھت بھی نہیں تھی۔ وہ ہی کیمپ کی مسجد تھی۔ دراصل ائیر فورس میں ابھی مذہبی گرم جوشی نہیں آئی تھی۔ شائد اس کی وجہ یہ ہی ہو کہ لوئر ٹوبہ انگریز کے زمانے کی ائیر فورس کا عارضی کیمپ تھا جہاں گورے ہی مقیم ہوتے تھے۔
اگلا روز پیر کا تھا۔ ہماری تربیت کے آغاز کا پہلا روز۔ ہمارے سینئر مین سیف بھوئیاں نے ہم سب کو صبح 5 بجے ہی اُٹھا دیا۔ کچھ نے کروٹیں لیں اور کچھ نے نماز پڑھی اور 15منٹ پہلے ہی تیار ہو کر سیٹی کے بجنے کا انتظار کرنے لگے۔ کچھ سُست لڑکے ابھی تک باتھ روم سے نہیں لوٹے تھے۔ ہم سب کی نیکریں مکمل طور پر فِٹ نہیں تھیں۔ دراصل پیر والے دن ہم نے اپنی یونیفارم کی کیمپ کے درزی سے Alterationکروانی تھی۔ بہر حال 6 بجے سیٹی کی آواز آئی اور ہم حسبِ حکم اپنے PT انسٹرکٹر کی طرف باہر پریڈ گراؤنڈ میں اکٹھے ہو گئے۔ ہم میں سے 6-7 لڑکے ابھی بیرک میں تیار ہی ہو رہے تھے۔ پی۔ ٹی کو آج کل work out کہتے ہیں۔ ہم سب 3 لائنوں میں کھڑے ہو گئے۔ جو لڑکے تا خیر سے پہنچے اُنہیں فوراً ہی 10 دفعہ Frog jumping کی سزا دی گئی۔ ہمارے پی۔ ٹی اُستاد نے فراگ جمپنگ خود کر کے دکھائی کیونکہ ہم تو ان سزاؤں کا مطلب بھی نہ سمجھتے تھے۔ اُن دِنوں PT اور پریڈ کے Cautions انگریزی میں ہوتے تھے۔ اُردو کے کاشنز تو 1960 کے بعد ائیر فورس میں آئے۔ پی۔ٹی کے ختم ہوتے ہی ہم باتھ رومز کی طرف بھاگے اپنا اپنا تولیہ اور صابن لے کر۔ یہ ایک قسم کے Community باتھ رومز تھے۔ 20 کے قریب بندے اتنے ہی شاورز کے نیچے بوقت اکٹھے نہا سکتے تھے۔ ستر پوشی کے لئے کمر تک اُونچی دیواریں ہر شاور کے ساتھ یقینا بعد میں پاکستان ائیر فورس نے بنائیں ہوں گی کیونکہ گورے ہم لوگوں کی طرح شرم و حیا پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ (اس کیفیت کا ہمیں UK جا کر تجربہ ہوا)۔ نہا دھو کر بھاگم دوڑ کر تے یونیفارم پہنی۔ ہم سب نے پچھلی رات کو ہی یونیفارم Try کر کے اور نیک ٹائی باندھ کر ہینگر پر ٹانگ دی تھی۔ ہماری KIT میں ہمیں ہینگرز اور صابن کی دو ٹکیاں بھی ملی تھیں جو ہر ماہ Issueہونگی۔ دھوبی بھی سرکاری ہو گا۔ بوٹ پالش ہم خود کریں گے۔ ہمیں کِسی ملازم وغیرہ کی سہولت نہ تھی۔
صبح ساڑھے سات بجے سے 10 بجے تک ہماری ڈِرل (Drill) کی ٹرئینگ تھی۔ پہلے روز تو ہمیں اکڑ کر کھڑے ہونے کی تربیت دی گئی اور پھر Stand at ease کرنا بتایا گیا۔ 10بجے ہمارا Tea break ہوتا تھا۔ وہیں پریڈ گراؤنڈ میں چائے اور کیک فروخت کرنے والے Venders آجاتے تھے۔ یہ عموماً پٹھان ہوتے تھے۔ چائے کا ایک بڑا سا سمہ وار پیتل کا بنا ہوا ہاتھ میں لٹکا ہوتا تھا اور سر پر ایک جستی صندوق میں مختلف کیک ہوتے تھے۔ ہم سب لڑکے اپنے مگ (Mug) بیرک سے لے آتے تھے۔چائے والا ہم سے اُدھار کرنے میں راضی تھا۔ ہماری تنخواہ ملنے پر وہ ہم سے پیسے وصول کر لیتا تھا۔ بلکہ زیادہ ہی کرتا تھا۔ کیونکہ ہم اپنے کھانے پینے کا ابھی حساب نہ رکھتے تھے۔
دو مہینے کی ٹرئینگ کا یہ ہی دستور رہا۔ صبح PT، پھر پریڈ، 2 گھنٹے کلاس روم میں، شام 3-4 بجے کھیل کے میدان میں اپنی پسند کے Sports۔ ہر ہفتے نائی کے پاس جاکر Monkey cut کروانا لازم تھا۔ آج کل کے لڑکے Monkey cut کا فیشن اپنائے ہوئے ہیں۔ غرض کہ ہمارا سویلن مزاج 2 ہفتے میں مکمل طور پر میکنیکل ہو گیا۔ 20 جنوری کو ہم جنرل ٹرئینگ سے فارغ ہو کر کراچی جانے کے لئے تیار تھے۔ ہم ابھی گرم یونیفارم میں ہی تھے۔ لوئر ٹوبہ کیمپ سے 2 ماہ کی تربیت لینے کے بعد ہم بڑے سمارٹ سولجر بن کر باہر نِکل رہے تھے۔ ہمارا 2 ماہ قبل کا ڈھیلا پن نظر بھی نہ آرہا تھا۔ ہماری واپسی کی ٹرین وہی چھکڑا کراچی ایکسپرس تھی۔ (جاری ہے)